"SUC" (space) message & send to 7575

عربی ادب قبل از اسلام

پتہ نہیں کیا کہوں تو زیادہ درست ہوگا۔ یہ کہ کتاب میرے ہاتھ میں ہے، یا یہ کہ میں کتاب کے ہاتھ میں ہوں۔ میں کتاب کے اندر اترا ہوں یا کتاب میرے اندر اتری ہے۔ ایک مانوس، جانا پہچانا زمانہ اور ماحول میرے اندر آکر بیٹھ گیا ہے یا کتاب نے میرا ہاتھ پکڑ کر ڈیڑھ دو ہزار سال کا فاصلہ عبور کرلیا ہے۔ دل کی منڈلی کے جانے پہچانے لوگوں میں اچانک کچھ انجانے لوگوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک زمانہ دیکھتا، سنتا اور سر دھنتا تھا اور آج میں ان کے درمیان بیٹھا ہوا ہوں۔
'عربی ادب قبل از اسلام‘ کی جلد دوم میرے ہاتھ میں ہے اور میں اس کے ہاتھ میں ہوں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے علم و فضل کا ایک زمانہ معترف و مداح ہے۔ عربی، اردو، فارسی، انگریزی، پنجابی زبان و ادب پر ان کی استادانہ دسترس کسے معلوم نہیں لیکن عربی زبان و ادب تو ان کا خاص میدان ہے۔ ان گنے چنے ناموں میں سے ایک، جن کی تحقیق پر اہل علم کو اعتماد ہوتا ہے۔ 2010 میں جب 'عربی ادب قبل از اسلام‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی تواہل ادب نے فخر سے کہا تھاکہ دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا۔ اور اب جب 11 سال بعد جلد دوم شائع ہوئی ہے تو ایک خوشی اور ایک کسک‘ دونوں ساتھ لے کر آئی ہے۔ خوشی تو ایک نادر و نایاب کتاب کے اضافے کی اور کسک اس کی کہ یہ سلسلہ یہیں تمام ہوا۔ اب قبل از اسلام ادب کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کا مزید کسی تصنیف کا ارادہ نہیں ہے۔
میں کتاب کھولتا ہوں اور ایک وسیع صحرا میں پہنچ جاتا ہوں۔ خنک ریت، ٹھنڈی ہوا، اور ستاروں بھری رات کا یہ صحرا تا حد نظر پھیلا ہوا ہے۔ ریت کے ٹیلوں کے پار کسی قافلے نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور جگہ جگہ الاؤ روشن ہیں۔ سب سے بڑے الاؤ کے گرد حلقہ باندھ کرلوگ بیٹھے ہیں۔ میں اس حلقے میں پہنچتا ہوں اور سرخ سنہری روشنی میں لوگوں کے چہرے پہچانتا ہوں۔ یہ امرؤالقیس ہے، یہ عنترہ بن شداد، یہ زہیر بن ابی سلمیٰ، یہ طرفہ بن العبد، یہ لبید بن ربیعہ، یہ عمرو بن کلثوم، یہ حارث بن حلزہ۔ یہ سب وہ ہیں جن کے قصائد سبع معلقات کے نام سے جانے جاتے تھے اور ان کی توقیر اور اعترافِ کمال کے لیے ان کے قصائد کو کعبۃ المشرفہ میں لٹکایا جاتا تھا۔ ان شعرا کے خدوخال سے میں ایک زمانوں سے واقف ہوں، بہت سی کتابوں نے انہیں ہم تک پہنچایا ہے اور ان میں تازہ ترین خورشید رضوی صاحب کی اسی کتاب کی جلد اول ہے۔
میں دوسری ٹولی میں جا پہنچتا ہوں۔ یہاں دوسرے باکمال موجود ہیں۔ یہ نابغہ ذبیانی ہے، یہ اعشیٰ قیس ہے، یہ عبید بن الابرص، یہ تابط شرّا۔ یہ حاتم طائی۔ حلقہ بہت بڑا ہے اور نام ایک سے ایک ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کلام کو زندہ کرکے مر گئے۔ اور یہ سب جلد دوم کا حصہ ہیں۔ واقعات، ضرب الامثال، اشعار، قصص۔ کیا ہے جو ان باکمالوں سے منسوب نہیں۔ عربوں کی تاریخ، واقعات، ضرب الامثال اور اشعار پڑھیں تو لگتا ہے کہ خطابت، فصاحت، بلاغت انہیں سے شروع ہوئی اور انہی پر ختم بھی ہوگئی‘ اور جب ہم جیسے لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے جو عربی دان بھی نہیں، محض تراجم اور تشریحات سے وہ تاثیر اور وہ طاقت اندازہ کرتے ہیں تو جو لوگ زبان و بیان کی باریکیوں سے آشنا ہیں وہ کیسے اسیر ہو جاتے ہوں گے۔
برسوں پہلے کی بات ہے۔ مرحوم اردو سائنس بورڈ اپنا نام اور راستہ بدل لینے اور بالآخر مرحوم ہوجانے سے پہلے مرکزی اردو بورڈ تھا۔ اپنے عہدِ زریں میں اس نے بہت کمال کی کتابیں شائع کیں۔ میں بلوغ الارب نامی کتاب پڑھتا جاتا اور ایک نئی دنیا میں داخل ہوتا جاتا تھا۔ چار ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ عربی کتاب عربی زبان و ادب کے شناور محمود شکری آلوسی کی ہے جس کا بہت اعلیٰ اردو ترجمہ عربی زبان و ادب کے نامور محقق پیر محمد حسن صاحب نے کیا تھا۔ جناب حنیف رامے مرحوم کے زمانے میں سائنس بورڈ نے 1967 میں اس کی جلد اول شائع کی اور باقی جلدیں جناب اشفاق احمد مرحوم کے دور میں شائع ہوئیں۔ بلوغ الارب سے پہلے سبعہ معلقات، دیوان حماسہ اور علامہ ابن جوزی کی کتاب الاذکیا وغیرہ جیسی کتابوں کے ترجمے پر میرا گزارہ تھا لیکن بلوغ الارب ایک الگ دنیا تھی۔ میں اس دنیا میں جیسے جیسے داخل ہوتا، یہ صحرا اور پھیلتا جاتا تھا۔ اس کا کوئی اور چھور تھا ہی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں مسحور شخص کی طرح ایک ایک صفحے پر رکا رہتا۔ اور اس قوم پر حیران ہوتا جاتا جو کسی کا بلیغ قول اس طرح یاد رکھتی اور پھیلا دیتی تھی کہ وہ ضرب المثل بن جاتا۔ اور کیوں نہ پھیلاتی۔ اگر کم و بیش سولہ سو سال کے بعد، اور ماحول اور زبان کے فرق کے باوجود، اور ترجمے میں اصل جیسی بات نہ آسکنے کی رکاوٹ کے ساتھ بھی یہ جملے، یہ شعر میرے دل پرضرب لگا کر گزرتے تھے تو اس ماحول میں، ان لوگوں پر کیا اثر کرتے ہوں گے۔ میں نے عم مکرم جناب مولانا محمد تقی عثمانی کی کسی تحریر میں عمرو بن الحارث المضاض جرہمی کا یہ شعر پڑھا تھا، جو اس نے اس وقت کہا، جب اسے اور اس کے ساتھیوں کو مکہ چھوڑنا پڑا تھا تو ایسا لگا تھاکہ اس نے ہجر کی میری کیفیت بیان کردی ہے
کان لم یکن بین الحجون الی الصفا
انیس ولم یسمر بمکتہ سامر
ایسا لگتا تھا کہ (کوہ) حجون سے (کوہ) صفا تک کوئی ساتھی ہی نہیں تھا اور نہ مکہ میں کسی کہانی کہنے والے نے کبھی کہانی سنائی تھی۔
لیکن پھر جب بلوغ الارب میں عمرو کے یہ اشعار بھی پڑھے
وقائلتہ والدمع سکب مبادر
و قد شرقت بالدمع منھاالمحاجر
اور ایک کہنے والی کہہ رہی تھی اور حال یہ تھاکہ اس کے کچھ آنسو جلدی جلدی بہہ رہے تھے اور کچھ آنکھوں میں ڈبڈبا رہے تھے۔
فقلت لھا القلب منی کانما/ یلجلجہ بین الجناحین طائر
تو میں نے اس سے کہا اور میرے دل کی کیفیت یہ تھی جیسے کوئی پرندہ اپنے دونوں پروں کے درمیان اسے ہچکولے دے رہا ہو۔
تو مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میرے اپنے دل کو کوئی ہچکولے دے رہا ہو۔ ترجمے کی خوبی بھی رہی ہوگی لیکن اصل طاقت کلام کی تھی جو زبانی اور زمانی فاصلوں کے باوجود اتنا ہی زوردار اور پُر تاثیر تھا جیسے کوئی مشروب کئی چھلنیوں سے گزر کر بھی اتنا ہی خوش رنگ، خوشبودار اور گاڑھا نظر آئے۔
تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عربی ادب کے ایسے شائق کے لیے جو خود براہ راست استفادے سے محروم ہو، ڈاکٹر خورشید رضوی کی یہ کتاب 'عربی ادب قبل از اسلام‘ کیسے تحفے کی طرح رہی ہوگی۔ یہ کتاب چونکہ خورشید صاحب کا حاصل مطالعہ ہے‘ اس لیے جیسے جیسے اور جتنے حوالے اس میں جمع ہوگئے ہیں وہ بھی کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ پوری کتاب اعلیٰ درجے کی تحقیق اور تجزیات پر مشتمل ہے جس میں نظر آتا ہے کہ ایک ایک نکتے اور ایک ایک معاملے اور بعض اوقات ضمنی مسئلے کی تحقیق میں مصنف نے کتنا وقت صرف کیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اس کی جلد اول کی تحریریں پہلے قسط وار شائع ہوئیں اور بعد میں2010 میں کتابی شکل میں سامنے آئیں‘ لیکن جلد دوم اب گیارہ سال کے بعد 2021 میں شائع ہوسکی ہے۔ جلد اول میں بنیادی مباحث کے ساتھ جاہلی عرب کے ادبی اور شعری ماحول کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس کے بعد فرداً فرداً سبعہ معلقات اور اس کے شعرا پر اس طرح گفتگو کی گئی ہے کہ معلقہ اور صاحب معلقہ کے بنیادی اوصاف کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں معلقہ کے علاوہ بھی شاعر کے کلام پر بات کی گئی ہے اور بہت سی جگہوں پر شاعری کا ترجمہ منظوم ہے۔ اس تحقیقی معیار کے ساتھ یہ کام کیسا جاں گداز اور کٹھن ہے، یہ جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم معیار کا رونا تو بہت روتے ہیں لیکن جب کوئی معیاری کام سامنے آئے تو کیا اس کی داد کا حق بھی ادا کرتے ہیں؟ سچی بات ہے کہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں