چوکور کا تیسرا زاویہ خود طالبان تھے۔قندھا رکی ایک مسجد سے سفر شروع کرنے والا یہ قافلہ کابل کے تخت پر پہنچا‘کچھ سال حکومت میں گزارے‘ پھر امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد کابل چھوڑ کر مضافات میں بکھر گیا۔پورے افغانستان میں گوریلا جنگ شروع کی اور حیرت انگیز صبر و استقامت کے نمونے پیش کیے۔
لیکن ایک منٹ ٹھہرئیے۔ طالبان کے پہلے دور سے لے کر آج تک مغربی میڈیا اور ان کے بے حد وسیع دائرہ اثر کے تحت چلنے والے دنیا بھر کے میڈیا سے کبھی کوئی کلمۂ خیر سنا ان کے بارے میں ؟ کوئی اچھی بات؟ کوئی تعریف؟ حوصلے ‘استقامت کی داد؟اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوادینے والی جنگی صلاحیتوں کا اعتراف؟ گوریلا جنگ کی مہارت کا ذکر؟ان کے زیر انتظام چلنے والے علاقوں میں بد امنی ختم ہونے کی اطلاع؟ہیبت ناک جنگی طاقت کے حامل مقامی سرداروں کی سرکوبی کاتذکرہ؟ کچھ بھی نہیں۔ کوئی ایک چیز بھی نہیں۔ ان میں سے کبھی کسی بات کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا‘ حالانکہ معاملہ دشمن کا بھی ہو تب بھی اس کی شجاعت اور بہادری کا اعتراف تاریخ میں چلا آتا ہے۔ چنگیز خان جیسا شخص ‘جلال الدین خوارزم شاہ کی بہادری کا علی الاعلان اعتراف کرنے پر مجبور ہوا تھا‘ لیکن طالبان کے دشمن اس اخلاقی قوت سے بھی عاری تھے۔ یہی نہیں‘ انہوں نے اپنے میڈیا کا پورا استعمال کرتے ہوئے ہر جرم طالبان کے سر پر تھوپ دیا۔ دہشت گردی سے لے کر عورتوں‘ بچوں کے استحصال تک‘ بے رحمی اور شقاوت سے لے کر وحشت اور بربریت تک۔ یہ بتائے بغیر کہ طالبان کا آغاز جبر اور بربریت کے خلاف قندھار میں اس واقعے سے ہوا تھا کہ ایک طاقتور جنگجو سردار نے دو لڑکیاں اغوا کرلی تھیں اور انہیں بازیاب کرانے کے لیے ایک استاد ملا عمر اپنے طالب علموں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔یہ آغاز جبر کے خلاف تھا‘لیکن بتایا یہ گیا کہ طالبان عورتوں اور بچوں کو اغوا کر رہے ہیں اور لڑکیوں سے زبردستی شادیاں رچا رہے ہیں۔
یہ سطریں لکھنے والا طالبان کی مذہبی تفہیم اور تعبیر سے مکمل طور پر کبھی متفق نہیں رہا۔ان کے کئی معاملات اور طریق کار سے بھی نہیں۔ بہت صورتوں میں ان کے قبائلی طرزِ فکر سے بھی نہیں۔ اسلام جیسے وسیع اور عالم گیر مذہب کو ایک ملک ‘ ایک تہذیب‘ ایک خطے کے رسم و رواج اورمعاشرت کے اندر بند کردینے کا حامی بھی کبھی نہیں رہا۔ اور میری کیا بساط‘بڑے بڑے علما نے اس طرزِ فکر کی گرفت بھی کی اور انہیں اس طرف متوجہ بھی کیا‘ لیکن انصاف کی بات یہی ہے کہ طالبان دشمنی میں وہ کچھ ان کے سر منڈھ دیا گیا جوان کا کیا ہوا نہیں تھا۔یہ وہ اخلاقی جرائم تھے جو طالبان نے نہیں ‘ دشمن میڈیا نے کیے تھے ‘ اور لوگوں کی ذہن سازی کے لیے انہیں ''شیطان‘‘ بنا کر پیش کیا تھاجن کے خلاف مغربی ''فرشتے‘‘ جنگ لڑ رہے تھے۔سچ یہی تھا کہ نہ طالبان شیطان تھے نہ ان سے لڑنے والے فرشتے۔میڈیا کے بنائے ہوئے یہ فرشتے تو ان لوگوں کی حمایت کا دم بھرتے تھے جو پہلی فرصت میں اس طرح کابل سے فرار ہوئے کہ ان کے ہیلی کاپٹرلوٹے ہوئے ڈالروں سے بھرے ہوئے تھے۔
طالبان نے بیس سال میں ہر سطح پر اپنے آپ کو منوالیا۔ ہر سال ان کے دشمن تھکتے جاتے تھے لیکن وہ نہ تھکے نہ جھکے۔ مثالی استقامت‘ گوریلا جنگ کی بہترین مثالیں ‘قید و بند کی صعوبتوں میں کمال مضبوطی۔جانیں پیش کرنے میں نہ کوئی تامل ‘ نہ تذبذب۔ آپ نے بھی وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں امریکی ڈرونزکی اندھیرے میں دیکھنے والی آنکھیں ‘انسانی جسم کی گرمی کا سراغ لگا کرانہیں چٹانوں اور پہاڑوں کے پار بھی دیکھ رہی ہیں۔ نشانہ لگانے والے انہیں چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کی ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی کسی جنگ میں پہلے کب استعمال ہوئی تھی۔
لیکن تاریخ نے ایک بار پھر نئے انداز میں یہ سبق دیا کہ عزم ‘ہمت اورحوصلے کے سامنے دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اور بہترین افواج کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ کتنے طالبان مارے گئے ‘ کتنے گرفتار ہو گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق اکاون ہزار سے زائد طالبان اس 20سال کے عرصے میں شہید ہوئے۔جو زخمی اور گرفتا ر ہوئے وہ الگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ستر پچھتر ہزار طالبان میں اکاون ہزار جاں بحق ہوگئے۔بیس ہزار زخمیوں اور اسیروں کو بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ پھر یہ اتحادیوں سے لڑ کون رہا تھا؟ ایک ماہ بھی نہ ہوا ہوگا کہ جو بائیڈن نے کہا کہ طالبان کی تعداد ستر ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ تعداد تمام شہادتوں ‘ گرفتاریوں کے باوجود کم کیوں نہیں ہوئی ؟جبکہ افغان فوج کی تعداد ہر کچھ مدت کے بعد25فیصدتک کم ہوجاتی تھی۔یہ تازہ دم طالبان کہاں سے آجاتے تھے؟سچ یہ ہے کہ اس جذبے اور نسل در نسل حوصلے نے طالبان کے دشمنوں کوتوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اتحادی اتنے مرتے نہیں تھے جتنے ٹوٹتے جاتے تھے۔جھوٹ کی بنیاد پر جنگ لڑنے والے جس طرح ریزہ ریزہ ہوتے ہیں ‘ افغانستان اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
بیس سال کے مصائب میں طالبان نے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی تازہ دم نسل بھی میدان میں شریک ہوگئی جو زیادہ معاملہ فہم اور جدید تھی۔انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنائی۔عالمی رہنماؤں سے رابطے بڑھائے۔ اپنی شدتیں کم کیں اور معاملہ فہمی کے ساتھ سیاسی مذاکرات سیکھے۔ اتحادیوں سے معاہدہ ہوتے ہی انہوں نے سب سے پہلے بڑی دانشمندی سے تمام سرحدی شہر اپنے قبضے میں کیے اور مخالفوں کے لیے راستے بند کر دئیے۔ کابل پر قبضے کے بعد مثالی سلوک اور معافیوں کا اعلان ان کے لیے بہت بہتر رہا۔دنیا بھر کو یہ پیغام گیا کہ نئی قیادت کشت و خون کے بجائے مفاہمت سے کام لینا چاہتی ہے۔ یہی معاملہ پنج شیر میں احمد مسعود سے کیا اور بہت دانائی سے حتی الامکان جنگ ٹال دی۔
پاکستان اس چوکور کا چوتھا کونہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ طالبان کے بعد سب سے زیادہ کسی نے صبر اور قربانیوں کا مظاہرہ کیا تو وہ پاکستان ہے۔ پرویز مشرف دور کی سنگین ترین غلطیوں کے باوجود‘ جس کا خمیازہ پورا ملک اب تک بھگت رہا ہے۔اربوں ڈالر کے نقصان ‘ ستر ہزار جانوں سے زیادہ کی قربانیوں اور دہشت گردوں کی ہر شہر میں کارروائیوں کے باوجود طالبان کی حمایت اور مدد مسلسل جاری رہی۔ بعض ریٹائرڈ عسکری حکام سمیت اکثر نے کھل کر پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ ان کا مؤقف بالآخر درست ثابت ہوا۔ نیٹو کی سپلائی لائن ‘جغرافیائی صورت حال اور طالبان کے ساتھ پاکستانی رابطے اتحادیوں کو پاکستان کی بات ماننے پر مجبور کرتے رہے۔
ایک ہندوستانی کرنل کی ویڈیو وائرل ہے جس کے مطابق افغان فوج کے افسر ‘مقامی گورنرز‘وار لارڈز اور قبائلی پہلے ہی ہموار کرلیے گئے تھے۔ پنج شیر کے مذاکرات میں بھی یہی عمل دخل بتایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشت و خون کے بغیر چند دنوں میں پورے ملک میں طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔
اسباب جب بنتے ہیں تو بنتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن مرضی ان اسباب کے بنانے والے کی ہے اور محنت ان پر کام کرنے والوں کی۔ اللہ نے ایک بات طے کردی تھی۔ اور وہ ہونی ہی تھی۔کیسے بلیغ انداز میں قرآن کریم نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے۔انہی میں سے ایک آیت کا ٹکڑا یہ بھی ہے۔ وکان امرا مقضیا۔ اور یہ ہونا تو طے ہوگیا تھا۔تو جو ہونا اللہ نے طے کردیا ہو اسے کون ٹال سکتا ہے ؟