یخ بستہ نیم تاریک سینما ہال میں روشن صرف وہ نقرئی پردہ تھا جس پر رنگ متحرک تھے اور عکسِ رواں بہتے چلے جا رہے تھے۔ ایف ایس سی میں زیرِ تعلیم لڑکے کو سینما کی اجازت ملتی ہی کہاں تھی‘ اس لیے سینما صرف چوری چھپے ہی جایا جا سکتا تھا۔ فلم دیکھنے کی سنسناہٹ، خوشی اور بے تابی مل کر جس کیفیت کو جنم دیتی تھیں‘ اسے ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کے لیے موزوں لفظ ابھی شاید ایجاد ہی نہیں ہوا۔
اس انگریزی فلم کا نام یاد نہیں‘ اس لیے کہ وہ کوئی اعلیٰ فلم نہیں تھی۔ اس زمانے میں فلم کا اعلیٰ ہونا شرط تھی بھی نہیں بلکہ شرط یہ تھی کہ فلم دیکھنے کے پیسے اکٹھے کب ہوتے ہیں۔ اب یہ بھی یاد نہیں کہ فلم تھی کس موضوع پر‘ لیکن یورپ کے کسی شہر میں جذامیوں کا ایک محلہ دکھایا گیا تھا۔ وہ منظر اب تک یاد ہے جو ایک بڑے پردے پر منجمد ہو کر ذہن پر مرتسم ہو گیا تھا۔ سکرین پر ایک ہولناک چہرہ‘ جس کے خدوخال کوڑھ نے مسخ کر کے رکھ دئیے تھے۔ شاید ان آڑی ترچھی لکیروں اور کٹے پھٹے گوشت کو خدوخال کہنا ہی غلط ہو گا۔ کیمرہ اس کی انگلیوں پر آیا۔ ٹیڑھی میڑھی پتلی انگلیاں‘ جہاں گوشت گل کر الگ ہونے کے عمل سے گزر رہا تھا۔ ایسا ہولناک اور کراہت آمیز منظر کہ دل اور دماغ‘ دونوں بجلی کا جھٹکا کھا کر چیخ اٹھیں۔ دماغ جانتا تھا کہ یہ منظر فلمی ہے، محض چند سیکنڈ کا ہے لیکن یہ چند ثانیے ایسے منجمد ہوئے کہ ایک عمر گزرنے کے بعد بھی نہیں گزرے۔
کوڑھ زدہ جسم۔ ایک گھناؤنی بیماری کے شکار لوگ۔ زمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ‘ جنہیں کوئی سایہ پناہ نہیں دیتا تھا اور جو مل کر بالآخر ایک دوسرے کے سائے میں پناہ تلاش کرتے تھے۔ فلم ختم ہوئی لیکن ختم کہاں ہوئی۔ کتابوں، رسالوں اور کہانیوں میں کوڑھ اور کوڑھیوں کے واقعات نے اپنے پیکر تجسیم کر لیے۔ قریب قریب اسی زمانے میں شہرۂ آفاق فلم ''بن حر ‘‘ (Ben Hur) بھی دیکھی اور ہیرو کی ماں اور بہن کے جذام زدہ وجود دیکھنے کا منظر آیا تو آنکھیں بند کر لیں‘ لیکن آنکھیں بند کر لینے سے منظر دکھائی دینے کہاں ختم ہوتے ہیں۔ وہ تو پہلے سے مرتسم تھے۔ اصل فلم سے کہیں زیادہ بھیانک۔
آج میں سوچتا ہوں کہ جب میں آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا‘ اس وقت نوجوان ڈاکٹر رُتھ فاؤ کراچی میں کوڑھیوں کو ہاتھوں پر اٹھا رہی تھیں۔ انہیں اپنے ہاتھوں سے غذا کھلا رہی تھیں اور دوا پلا رہی تھیں۔ وہ جذامی‘ جنہیں ان کے سگے ماں باپ، حقیقی اولاد، ماں جائے بہن بھائی اور رشتے دار ایک علیحدہ غلیظ بستی اور چھوٹی سی کوٹھڑی میں بیماری کا عذاب جھیلنے اور سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ چکے تھے‘ ڈاکٹر رتھ فاؤ ان کوٹھڑیوں کے دروازے کھول رہی تھیں۔ ان کے پیپ زدہ زخموں کی مرہم پٹی کر رہی تھیں۔ جب میں ان خوفناک مناظر سے نظر چرا رہا تھا‘ اس وقت وہ کوڑھیوں کو گلے لگا رہی تھیں‘ انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دے رہی تھیں۔
ابھی اگست کا مہینہ گزرا۔ سوچا تھا‘ ان کی وفات پر ان کو یاد کروں گا‘ لیکن دن گزر گئے اور اب یہ توفیق ہو رہی ہے۔ رُتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ (Ruth Katherina Martha Pfau) 9 ستمبر 1929ء کو لیپزگ جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔ چودہ پندرہ سالہ رُتھ دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں کی چشم دید گواہ تھی۔ نازی جرمنی کی شکست کے بعد جب مشرقی جرمنی پر روسیوں نے قبضہ کیا تو رُتھ فاؤ اپنے گھرانے کے ساتھ مغربی جرمنی منتقل ہونے میں کامیاب ہو گئیں‘ اور یہاں ادویات میں اختصاص کو اپنا محور بنا لیا۔ 1949 میں انہوں نے مینز (Mainz)میں میڈیسن کی ڈگری حاصل کی۔ پچاس کی دہائی میں کسی دستاویزی فلم سے انہیں پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں علم ہوا۔ کم و بیش تیس سالہ رتھ فاؤ انسانی جان کی قدر و قیمت دوسری جنگِ عظیم میں جان چکی تھیں۔ اس زمانے میں چھوت کا مرض کوڑھ ناقابلِ علاج مرض سمجھا جاتا تھا‘ اور شہر سے باہر مخیر افراد کے تعاون سے کچی پکی بستیاں بنا کر مریض آبادیوں سے الگ کر دئیے جاتے تھے۔
وہ پاکستان آئیں اور کراچی میں میکلوڈ روڈ پر سٹی ریلوے سٹیشن کے عقب میں کوڑھیوں کی ایک آبادی کا دورہ کیا۔ حقائق ان کے تصور سے بھی زیادہ خوفناک تھے۔ رتھ فاؤ نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں گی۔ انہوں نے اسی بستی میں ایک معمولی ڈسپنسری سے کام شروع کیا اور کوڑھ کے بدنما گھناؤنے اور کراہت انگیز مریضوں کو سنبھالنے اور ان کا علاج کرنے لگیں۔ اس زمانے میں پاکستان میں ایسے مریض ہزاروں میں تھے۔ جلد ہی ڈاکٹر آئی کے گِل ان سے آ ملے اور میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر (The Marie Adelaide Leprosy Centre) کے تحت علاج شروع کر دیا گیا۔ نیت نیک تھی اور کام نہایت اہم اور مشکل۔ پاکستانی مخیر حضرات اور جرمنی کے اہلِ خیر نے اس کام کے لیے عطیات دینے شروع کیے۔ پاکستانی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کا کام بھی بہت ضروری تھا‘ سو یہ بھی شروع کر دیا گیا۔ 1963 میں جذام کے علاج کا ایک الگ سنٹر لیپرسی سنٹر کے نام سے خریدا گیا۔ پاکستانی اہلِ خیر نے حصہ لیا لیکن ستر لاکھ روپے اب بھی کم پڑتے تھے۔ رُتھ فاؤ واپس جرمنی گئیں اور جھولی پھیلا دی۔ یہ پیسے لے کر واپس آئیں اور سنٹر پر لگا دئیے۔ یہ سنٹر 1965 میں ہسپتال کا درجہ اختیار کر گیا۔ پاکستان بھر سے بلکہ افغانستان سے بھی مریض اس ہسپتال میں آنے لگے۔ رتھ فاؤ آگے بڑھتی گئیں اور سنٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے پاکستان کے طول و عرض کا دورہ کیا اور ہسپتالوں میں یہ شعبے قائم کرنے میں مدد کی۔ عزم راسخ تھا‘ نتائج کیسے نہ آتے۔ نتائج اس طرح آئے کہ سنٹرز کی تعداد بڑھتی اور مریضوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ یہاں تک کہ ان سنٹرز کی تعداد 156 تک پہنچ گئی اور اس دوران ایک اندازے کے مطابق ساٹھ سے ستّر ہزار مریضوں کو نئی زندگی ملی۔ ملک کے طول و عرض سے کوڑھ ختم ہوتا گیا اور 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو کوڑھ سے پاک (leopresy controlled) ملک قرار دے دیا۔
ایشیا میں پاکستان پہلا ملک تھا جس میں رُتھ فاؤ نامی مسیحا کے ذریعے اس گھناؤنے مرض پر قابو پایا گیا تھا۔ رُتھ فاؤ نے قبائلی علاقوں پر اپنی توجہ مرتکز کی۔ انہوں نے ان علاقوں اور افغانستان کے دورے کیے جہاں علاج کی سہولیات سرے سے تھیں ہی نہیں اور وہاں بھی اپنی نیک نفسی سے کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ صرف ایک مشن ہی نہیں تھا جہاں انسان خوشی یا ناخوشی کے ساتھ اپنا وقت گزارتا ہے اور اپنا فرض پورا کرتا ہے۔ ڈاکٹر فاؤ نے پاکستان کو اپنا وطن سمجھ کر اسکے ماحول، رسوم و رواج، خوراک اور ثقافت کو بھی پورے دل سے قبول کیا تھا۔ ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہیں: میں جرمنی میں پیدا ہوئی لیکن اب میرا وطن پاکستان ہے اور میں اس میں خوش ہوں۔
10 اگست 2017 کو رتھ فاؤ کے انتقال پر پاکستان اور پاکستانیوں نے جو غم محسوس کیا‘ اس کے ترجمان وہ بیانات، کالم اور مضامین ہیں جو ان کے لیے لکھے گئے۔ میں یہاں ایک بات کی طرف ضرور توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کسی عہدے، منصب، شہرت، اعزاز یا کسی صلے کی تمنا میں پاکستان نہیں آئی تھیں۔ انہوں نے تن تنہا پاکستان میں ابتدائی این جی او کی طرح کام کیا۔ انہوں نے نہ مذہبی بحثیں چھیڑیں۔ نہ سیاست میں دخیل ہوئیں۔ نہ لوگوں کو کسی ایجنڈے کے لیے خریدا اور نہ معاشرے کی ساخت اور فکر تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ سچ اور بالکل سچ یہ ہے کہ ان کا مثبت کام آج کی ان این جی اوز کے منہ پر ایک تھپڑ سے کم نہیں ہے جن کا کوئی رخ مثبت نہیں ہوتا اور وہ کسی ایجنڈے پر مامور ہوتی ہیں۔ یقینا بے لوث این جی اوز موجود ہوں گی لیکن کہاں اور کتنی؟ بیشتر این جی اوز تو جذام زدہ ہیں۔ تو باقی بحثوں کو ایک طرف رکھیے۔ عام پاکستانی تو یہ سوچتا ہے کہ ہے کوئی غیرملکی این جی او جو ڈاکٹر رتھ فاؤ کے اس بے لوث کام کا مقابلہ کر سکے؟ ہے کوئی این جی او جس کے چہرے پر کوڑھ کے داغ نہ ہوں؟