"SUC" (space) message & send to 7575

ایک خوشگوار یاد

لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے میرے ذہن میں اکادمی ادبیات پاکستان کی گزشتہ کانفرنسیں گھوم رہی تھیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان، پاکستانی ادب، پاکستانی ادیبوں، شاعروںکیلئے بنایا گیا وفاقی سرکاری ادارہ ہے۔ 1976 میں بنایا گیا یہ ادارہ اب پینتالیس سال کا ہوچلا ہے اور اس عرصے میں بہت سے نامور دانشور اور ادیب اس سے منسلک رہ چکے ہیں۔ کم و بیش دو سال پہلے جناب ڈاکٹر یوسف خشک نے اس کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا۔ اس سے قبل ڈاکٹر یوسف خشک خیرپور یونیورسٹی سندھ میں زبان و ادب کے نامور استاد تھے۔ ملک بھر میں اور بیرون ملک اپنی ادب دوستی کے باعث جانے پہچانے جاتے تھے اور بہت سی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ ادبی کانفرنسیں منعقد کرنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے؛ چنانچہ اہل ادب کو اس تقرری پر خوشی ہوئی اور سب کا تاثر یہی تھاکہ اس اہم عہدے پر ایک قابل دانشور کو میرٹ پر منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی دنیا کو کووڈ19 کی وبا نے آن لیا اور تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں۔ یہ ایک نیا امتحان تھا لیکن جناب یوسف خشک نے آن لائن مذاکرے، مباحثے اور مشاعرے شروع کیے اور بہت حد تک اس تشنگی کی تلافی کی جو گھر بیٹھ جانے کے باعث ہر دل میں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اکادمی کے کچھ نئے کاموں کی گونج سنائی دینے لگی۔
کووڈ کے آکٹوپس نے جب ذرا اپنی گرفت سے آزاد کیا تو کھل کر سانس لینے کا موقع ملنے لگا۔ بہم میل جول اور تقریبات ایک بار پھر شروع ہوئیں۔ اکادمی ادبیات نے بھی یہ موقع غنیمت جانا اور اپنے نوتعمیر شدہ آڈیٹوریم اور ایوان اعزاز (Hall of fame) کی افتتاحی تقریب میں منتخب ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو ملک کے ہر گوشے سے اکٹھے ہونے کی دعوت دی گئی۔ میں 3 نومبر کو لاہور سے اسلام آباد کے راستے میں تھا اور تمام گزشتہ کانفرنسز‘ جن میں شرکت کا موقع ملا تھا، ذہن میں گونج رہی تھیں۔ دل نے سوچا کہ دیکھیے اس بار ادیبوں‘ شاعروں کے ساتھ اکادمی کیا سلوک کرتی ہے۔ سابق کانفرنسوں میں بدانتظامی، سستے ہوٹلوں کے انتخاب وغیرہ کا عذاب ہم سب بھگتے ہوئے تھے۔ نون لیگ کے دور میں الحمرا آرٹس کونسل لاہور کی وہ ادبی کانفرنس بھی یاد تھی جس میں اہتمام کیا گیا تھاکہ کسی بینر، کارڈ، فلیکس پر اردو کا کوئی ایک لفظ بھی شامل نہ ہوسکے۔ ان تجربات کے ہوتے ایک نیا تجربہ کیسا ہوگا، یہ اندازہ نہیں تھا‘ لیکن راستے ہی میں فون سے اندازہ ہونے لگاکہ اس بار معاملہ مختلف ہے ۔ جن ہوٹلوں میں پہنچنے کا کہا گیا وہ مناسب اور معیاری تھے۔ لاہورکے مدعوئین کو لے جانے کے لیے بس کا انتظام تھا اور بہت سے لوگ اپنی گاڑیوں میں بھی پہنچ رہے تھے۔
ایسے اجتماعات کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو اہل قلم سالہا سال ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے وہ ایک چھت تلے کچھ وقت ساتھ گزارتے ہیں۔ تجدید ملاقات ہوتی ہے ‘نئے دوستوں سے تعارف بھی۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو یہ بڑا فائدہ ہے۔ کچھ اہم لوگوں کی عدم موجودگی محسوس کی گئی۔ اصل تقریب اگلے دن یعنی 4 نومبر کو سہ پہر میں تھی۔ گویا اگلے دن تک کوئی اور مصروفیت نہیں تھی سو دوستوں سے ملاقاتیں اور گپ شپ ہوتی رہی۔
اکادمی ادبیات کا آڈیٹوریم اور ایوان اعزاز(Hall of fame)کافی دنوں سے زیر تکمیل تھا۔ اگرچہ یہ منصوبے سابق ادوار میں شروع ہوئے تھے‘ اور جہاں تک میرے علم میں ہے جناب عرفان صدیقی کا اس میں کافی اہم کردار رہا ہے‘ لیکن ہوتا یہی ہے کہ پیڑ کوئی ایک شخص لگاتا ہے اور پھل کسی اور کے حصے میں آتے ہیں۔ حکومتی منصوبے راتوں رات مکمل نہیں ہو سکتے اور تکمیل تک فیصلہ ساز بدل جاتے ہیں‘ اور رواج یہی ہے کہ جس دور میں یہ مکمل ہوں اور ان کا افتتاح ہو، اعزاز بھی اسی کو ملتا ہے۔ سو وفاقی وزیر جناب شفقت محمود اور جناب یوسف خشک کے دور میں یہ اعزاز ان کے حصے میں آیا۔ آڈیٹوریم دیکھ کر خوشی ہوئی۔ لگ بھگ 400 نشستوں کا یہ جدید اور خوبصورت ہال ضروری سہولیات سے مزین ہے۔ قوسوں کی شکل میں پھیلی ہوئی قطار درقطار نشستوں کا یہ ہال اکادمی ادبیات کی بنیادی ضرورت تھی جو اب اسے حاصل ہوئی ہے‘ ورنہ اسے دوسرے اداروں کے آڈیٹوریمز لینے پڑتے تھے۔ اسی طرح ایوان اعزاز بہت خوبصورت بنایا گیا ہے‘ جس میں مشاہیر ادب کی بڑی تصاویر اور تعارف شامل کیا گیا ہے۔ ان میں اردو اور پاکستانی زبانوں کے نمائندہ مشاہیر کی نمائندگی ہے۔ (ایوان اعزاز کا نام اگر ایوان مشاہیر ہوتا تو کیا زیادہ مناسب نہ تھا؟) جس تقریب میں صدر اور وزیر اعظم شامل ہوں وہاں شرکا کی کم بختی تو آنی ہی ہوتی ہے اور مسئلہ سکیورٹی کا اتنا اہم ہے کہ کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا۔ یہاں بھی موبائل وغیرہ تو خیر لیکن کتابیں تک سکیورٹی کے عملے نے ہال سے باہر دھروا لیں اور واپسی پر ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ وزیر اعظم نے پہلے ایوان اعزاز کا افتتاح کیا اور پھرملحق آڈیٹوریم میں آئے جہاں ادیب شاعر ان کے انتظار میں دو گھنٹے گزار چکے تھے۔ چیئرمین ادارہ نے ابتدائی خطاب اور اکادمی کے اپنے دورانیے کی کارکردگی پیش کی۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے مختصر خطاب کیا اور پاکستان کے پہلے ایوان اعزاز کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انتظار وزیر اعظم کے خطاب کا تھا لیکن اس تقریر نے‘ جو لکھی ہوئی نہیں تھی، کافی مایوس کیا۔ اگر چند جملے نکال دئیے جائیں تو یہ تقریر اس مجمع کے لیے تھی ہی نہیں۔ اس میں بیشتر وہی باتیں تھیں جو پہلے بہت بار سنی جا چکی ہیں اور تقریباً ہر مجمع میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ دہرا دی جاتی ہیں۔ خان صاحب نے اقبال کا ذکر تو اہمیت کا ساتھ کیا اور بجا طور پر کیا لیکن اس کے علاوہ اس تقریر سے کہیں یہ برآمد نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے 74 سالہ پاکستانی ادب میں سے کچھ پڑھا ہے یا کسی ادیب، دانشور اور شاعر کے نام سے بھی واقف ہیں۔ انہیں شاید یہ ادراک ہی نہ تھاکہ ان کے سامنے وہ لوگ بیٹھے تھے جنہوں نے ادب، تاریخ، فلسفہ اور قوموں کے عروج و زوال کے معاملات کو گھول کر پی رکھا ہے۔ ایسے مجمع کو درس دینا اس تقریب کے لیے موزوں نہیں تھا۔ ان کے نظریات کتنے ہی قابل تحسین سہی، ہر بات کا ایک موقع محل ہوتا ہے اور کلیدی مقرر کو اس کا ادراک ہونا ضروری ہے۔
چند باتیں ایسی ہیں جو ممکنہ طور پر آئندہ ایسی تقاریب کو مزید بہتر بنا سکیں گی‘ نیز ایوان اعزاز کو مزید مزین کر سکیں گی۔ تقریب کی نظامت بہتر نہیں تھی۔ جن مشاہیرِ ادب کے نام اور تصویریں سٹیج پر تھیں‘ ان میں کچھ نام نہ ہونا باعث تعجب تھا۔ مجھے علم نہیں کہ شامل کردہ ناموں کا انتخاب کسی فرد نے کیا یا کمیٹی نے۔ میرے خیال میں اکادمی کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے۔ صوفی تبسم، ڈاکٹر وزیر آغا، رئیس امروہوی، ممتاز مفتی، مختار مسعود غیرموجود ناموں میں ہیں۔ بانو قدسیہ کی موجودگی اور اشفاق احمد کی عدم موجودگی بھی حیران کن ہے۔ اگر جناب افتخار عارف، امجد اسلام امجد کی نسل تک کے مشاہیر شامل کئے گئے تو ان میں انور مسعود، خورشید رضوی، جون ایلیا وغیرہ کے نام کیوں نہیں ہیں؟ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ بہتر سے بہتر تقریب پر بھی رائے زنی بہت ہوا کرتی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات ہرگز نہیں۔بحیثیت مجموعی ایک کامیاب تقریب اور کامیاب اجتماع تھا جس پر اکادمی ادبیات، جناب شفقت محمود اور جناب یوسف خشک مبارک کے مستحق ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں