ایک بھرپور ترکی ناشتے سے بہتر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ بس ترکی ناشتہ ہی ہوگا۔ اندازہ کیجیے کہ وہ ناشتہ جو مجھ جیسے چٹورے کو نہاری، پائے وغیرہ کی یاد نہ آنے دے، کوئی خاص ہی ہوگا۔ ایسا ویسا خاص؟ زیتون، جو پاکستان میں مہنگا دستیاب ہے، وہاں کئی اقسام کا وافر، سبز، سیاہ، بڑا، چھوٹا، سادہ اور مرچ مسالے والا۔ بات ستمبر کی ہے تو ان دنوں انگور، تربوز، گرما جو نہایت میٹھے اور رسیلے تھے، ہر ناشتے پر میسر۔ حمس اور لبنانی ذائقے موجود۔ آڑو، چیری، خوبانی وغیرہ کے مربّے اور چٹنیاں دستیاب۔ اور پھر ناشتے کی روایتی چیزیں انڈے، آملیٹ، سلائس، پنیر، جام وغیرہ وغیرہ۔ گویا ہر ذائقے کے اسیر شخص کے لیے سیراب کر دینے والا سامان‘ اور جو شخص سیاحت کے لیے زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لیے تو لازمی۔ 23 ستمبر 2021 کو میں اسی سیرابی کے احساس کے ساتھ صبح آٹھ بجے ٹیکسی میں بیٹھا تو سوچ رہا تھا کہ آئندہ ان دیکھی منزلیں نجانے کیسی ہوں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ انجانی منزلوں کے سفر کا آدھا حسن تجسس میں ہے اور باقی آدھا سفر میں۔
ترکی کی اکثر ٹیکسیوں میں بارگیننگ کی گنجائش ہوتی ہے۔ میں نے بھی اپنا یہ حق استعمال کیا اور بودرم مرینا جانے کے لیے ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ بودرم سے داتچا (Datcha) آنے جانے کے لیے فیری بوٹ چلتی ہے۔ اس فیری کے مخصوص اوقات اور مخصوص دن ہیں۔ اگر آپ دو طرفہ ٹکٹ خرید لیں تو دس فیصد رعایت بھی مل جاتی ہے اور یہ سہولت بھی کہ واپسی کا ٹکٹ آپ اوپن رکھ سکتے ہیں۔ عام طور پر ایک سیٹ مل ہی جاتی ہے۔ مسئلہ فیری میں گاڑیوں کا ہے جن کی جگہ محدود ہوتی ہے اور اس کی بکنگ پہلے سے کرانی ضروری ہے۔ سو مجھ جیسے بیکار کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میں نے دو طرفہ ٹکٹ خریدا اور فیری کے اوپری عرشے پر چڑھ گیا۔ نچلا عرشہ گاڑیوں کے لیے تھا۔ اپنا زیادہ سامان ہوٹل میں چھوڑ آیا تھا۔ احتیاطاً قبل از وقت بھی پہنچ گیا تھا‘ سو مختصر سے سامان کے ساتھ فیری کے اوپری عرشے پر پہنچا تو مسافر ابھی کم ہی تھے‘ لیکن جلد ہی مسافر آنے شروع ہوگئے اور فیری کا ہال اور باہر کھلی ہوا میں سیٹیں بھر گئیں۔
اگر آپ ترکی کا نقشہ دیکھیں تو بودرم کے قریب بحر ایجین میں ایک جزیرہ نما خشکی کا ٹکڑا سمندر میں آگے بڑھا ہوا نظر آئے گا۔ یہ جزیرہ نما داتچا ہے۔ اس کا خشکی کا راستہ تو مشہور سیاحتی شہر مرمریس سے ملتا ہے لیکن بودرم سے اس کا قریب ترین راستہ سمندری ہے۔ قریب قریب ڈیڑھ گھنٹے کی سمندری مسافت۔ یہ فیصلہ کہ ترکی میں مختصر سے چھٹیوں کے دن کہاں گزارے جائیں قدرے مشکل فیصلہ تھا‘ اس لیے کہ ان دیکھی اور مشہور سیاحتی جگہیں زیادہ تھیں لیکن بالآخر میں نے ترک دوستوں کے مشورے سے بودرم اورداتچا کا انتخاب کیا تھا۔ داتچا میں میری کشش خوبصورت سمندری شہر کی وجہ سے بھی تھی اور اس لیے بھی کہ چھوٹا شہر ہے اور کم سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں‘ اس لیے نسبتاً پُرسکون بھی ہوگا۔ فیری خوبصورت تھی اور ہال میں کینٹین موجود تھی۔ کچھ ہی دیر میں اپنے وقت پر فیری روانہ ہوئی اور ہم ہموار نیلے سمندر میں بودرم کے ساحل سے دور ہوتے گئے۔ جلد ہی ہم اس کھلے سمندر میں تھے جہاں دائیں طرف دور ساحل نظر آرہا تھا۔ میں ترکی چائے لیے کھلے حصے میں آگیا جہاں سرد ہوا کو دھوپ نیم گرم کر رہی تھی۔
انسانی حسن ہو، قدرتی حسن ہو، یا تمدنی حسن‘ ہواؤں کا سفر ہو، سمندروں کی مسافت ہو یا خشکی کی منزلیں‘ ہر چیز یہ احساس دلاتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کہیں کچھ اور بھی ہے۔ اس سے بہت زیادہ حسن، اس سے بہت زیادہ خوبصورتی، اس سے بہت زیادہ سہولت‘ اس سے بہت زیادہ وسعت، بہت بھرپور سرشاری اور آسودگی‘ کہیں کسی جگہ، کسی دنیا میں ہماری منتظر ہے۔ وہ باغ جس میں کانٹا نہیں ہوگا‘ جہاں یہ سب تکلیفیں اور الجھنیں ساتھ لگے ہوئے نہیں ہوں گے۔ اس دنیا میں تو صحت کے مسئلے، سفر کی دقتیں، خرچ کا توازن، گھر کی اور گھر والوں کی یاد‘ کتنی ہی چیزیں ہیں جو رہ رہ کر اس خوشی کا احساس کم کرتی رہتی ہیں۔ اور کچھ بھی نہ ہوتو یہ احساس کہ اس سب نے آخر فنا ہوجانا ہے۔ ہم جو اس دل کشی کے بیچوں بیچ دندناتے، مسکراتے اور کھاتے پیتے موجود ہیں، ایک دن نہیں ہوں گے۔ میں جو چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے چمکیلی دھوپ میں گھونٹ گھونٹ یہ لمحات پی رہا ہوں۔ یہ ہنستا ہوا خوش و خرم جوڑا جو ایک دوسرے میں گم ہے، جسے کافی اور محبت کی چسکیاں مدہوش کیے دے رہی ہیں۔ یہ خوبصورت آبی پرندہ جو براق پروں سے اڑتا ہوا سامنے سے گزرا، یہ موج جو اٹھ کر کشتی کے پہلو سے ٹکرائی، یہ جھونکا جو لباس کے اندر تک ٹھنڈک بھرتا چلا گیا۔ یہ سب ختم ہوگا۔ پہلے ہم سانس لینے والے جائیں گے اور پھر یہ بے روح خوبصورتی اور حسن۔ یہ سب رہنے والا نہیں ہے۔ کیا یہی ایک تکلیف اس کا احساس ختم کردینے کے لیے کافی نہیں ہے؟ گھر میں رہ کر یہ ادراک مشکل ہوتا ہے، سفر میں کہیں زیادہ۔ تبھی تویہ سب نظام بنانے والے نے ہمیں بار بار کہا کہ زمین پر چلو پھرو، بستیاں دیکھو، آثار دیکھو، نشانیاں دیکھو۔ دیکھو کہ یہ نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ کیا تم ہو عقل والے؟
ڈیڑھ گھنٹے کے خوبصورت سفر کے بعد داتچا کا ساحل سامنے نظر آنے لگا۔ نئی جگہ، نئی زمین، نئے لوگ۔ عزیز ترک دوست ڈاکٹر برائشیق کی مہربانی کہ انہوں نے ایک ہوٹل میں بکنگ کردی تھی جو میں نے ہی نیٹ پر منتخب کیا تھا۔ اس لیے دربدر پھرنے کا مسئلہ نہیں تھا۔ فیری سے اترے تو دیکھا کہ مسافر کافی زیادہ تھے اور ٹیکسیاں بہت کم‘ اس لیے بارگیننگ کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ داتچا چھوٹا سا شہر ہے اس لیے میں نے اورجائے ہوٹل کا نام لیا تو مزید تفصیلات ٹیکسی ڈرائیور کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ 25 منٹ بعد جب اس نے درمیانی چوڑائی کی ایک گلی نما سڑک پر گاڑی موڑی اور فوراً بائیں ہاتھ پر اورجائے ہوٹل کا نام پڑھا تو میں کچھ حیرانی اور فکرکے ساتھ اترا۔ میرے خیال میں ہوٹل سمندر کے کنارے واقع ہونا چاہیے تھا جبکہ یہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہوٹل استقبالیہ پر جو نوجوان خوش اخلاق لڑکی موجود تھی، انگریزی سے نابلد تھی۔ میں اب تک اس پریشانی سے اتنی بار گزر چکا تھا کہ ذہنی اور عملی طور پر اس کے مقابلے کے لیے تیار تھا۔ اب بہت ترجمے والی ایپلی کیشنز موجود ہیں جو بہت سی زبانوں کا ترجمہ کردیتی ہیں۔ اچھی بات یہ کہ میرے پاس بھی یہ ایپلی کیشن تھی اور مزید اچھی بات یہ کہ لڑکی کے پاس بھی موبائل میں تھی؛ چنانچہ ہم اگلے دس منٹ تک ایک دوسرے کو اپنے موبائل فون لکھ لکھ کر دکھاتے رہے۔ میری بکنگ موجود تھی لیکن مطلوبہ کمرے میں نہیں۔ خیر، ہر چیز اپنی مرضی کی کہاں ملتی ہے۔ رقم ادا کی، سامان کمرے میں رکھا اور آرام دہ بستر پر گرا تو تھکن ریشے ریشے میں تھی۔ ہوٹل کا عملہ تعاون کرنے والا تھا‘ لیکن جائے نماز طلب کی توانہیں کچھ سمجھ نہ آیا۔ بالآخر کلاسیکی شاعری کا شوق ہی مدد کو آیا۔ پتہ چلا کہ اسے سجادے کہا جائے گا تو گوہرِ مقصود ملے گا ۔
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
اچھا میاں قیس! اگر تم شاعر کی اس پُرتعلّی جانشینی پر دل سے راضی تھے تو ہمیں کیا!