نشانیاں واضح ہیں؟ نبیٔ صادقﷺ نے فرمایا تھا: فتنے اس طرح رونما ہوں گے جیسے تسبیح کا دانہ ٹوٹ جائے اور دانے یکے بعد دیگرے گرنے لگیں۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ فتنے شب تاریک کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے (ترمذی) یعنی جیسے رات میں راستہ سجھائی نہیں دیتا اور سمجھ نہیں آتا کہ کہاں جائیں۔ ہم اگر اپنے دور کا جائزہ لیں تو کیا یہ پیش گوئی ہمارے حالات پر پوری نہیں اترتی؟ ایسے ایسے نئے اور دل ہلا دینے والے واقعات، سر شرمندگی سے جھکا دینی والی خبریں کہ ابھی ایک سے نمٹ نہیں پاتے کہ اگلا واقعہ پیش آجاتا ہے۔ سیالکوٹ کاا ندوہناک واقعہ بھی انہی واقعات میں سے ہے جس نے دل ہلا دئیے ہیں اور سر جھکا دئیے ہیں۔
روز اک حادثہ پیش آتا ہوا، سابقہ حادثوں کو بھلاتا ہوا
اور سب سے بڑی قوم کی بے حسی، حادثوں سے بڑا حادثہ یا نبی!
یہ واقعہ نہ حادثوں میں پہلا ہے نہ آخری۔ یہ تو تسبیح کے گرتے دانوں میں سے اور شب تاریک کے ٹکڑوں میں سے ایک ہے۔ معاملات صرف ایک ملک اور قوم ہی کے ساتھ نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر رونما ہورہے ہیں۔ ایک طوفان جو کووڈ19 کے نام سے اٹھا تھا اور جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا تھا‘ جس کی سابقہ کوئی مثال نہیں تھی، ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اسی کا ڈیلٹا ویری اینٹ وائرس نمودار ہوگیا۔ دنیا ابھی اس سے پوری طرح نکلی بھی نہیں تھی کہ اومیکرون کے نام سے ایک اور طوفان افق پر نمودار ہوا ہے جس کی طرف دنیا سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ ابھی صرف قیاسات اور اندازے ہیں کہ یہ طوفان کتنی شدت اور ہلاکت کا ہوگا‘ اور کیا رخ اختیار کرے گا۔ دنیا نے بہرحال ابھی سے حفاظتی تدابیر اختیار کرلی ہیں۔ حیرت اس کی تیزی پر ہے کہ ابھی 24 نومبر 2021 کو پہلی بار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو جنوبی افریقہ سے اس وائرس کی پہلی بار اطلاع ملی تھی‘ اور اس طرح پہلی بار، اس تحریر کے لکھے جانے سے صرف 13 دن پہلے دنیا اس خطرے سے واقف ہوئی تھی لیکن اتنی تیزی سے یہ بادل آسمان پر چھا رہا ہے کہ ووہان، چین سے وائرس بھی اس تیزی سے نہیں پھیلا تھا۔
یہ تو اب سب جانتے ہیں کہ وائرس اپنے اندر مسلسل جینیاتی تبدیلیاں کرتے اور شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔ SARS-CoV-2 وہ وائرس ہے جس سے کووڈ19 نے جنم لیا تھا۔ اس میں بہت سی جینیاتی تبدیلیوں کے بعد جنوبی افریقہ میں نئی شکل کی جب عالمی ادارہ صحت کو اطلاع ملی تو انہوں نے اس کا نام یونانی حروف تہجی کے پندرھویں حرف اومیکرون کے نام پر رکھا۔ اومیکرون وائرس میں غیرمعمولی جینیاتی تبدیلیاں (Mutations) ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ تشویشناک وہ تبدیلیاں ہیں جو سپائک پروٹین میں ہیں۔ وائرس کا یہ وہ حصہ ہے جسے زیادہ تر کورونا ویکسینز ہدف بناتی ہیں۔ اگر اصل ووہان وائرس سے موازنہ کیا جائے تو اومیکرون میں 60 جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ان خاص تبدیلیوں کی وجہ سے تین اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے منتقل ہو سکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ انسانی مدافعتی نظام پر یہ کس حد تک اثر انداز ہوگا؟ اور تیسرے یہ کہ سابقہ ویکسینز اس کے لیے کس حد تک مؤثر ہوں گی؟
چونکہ ان سوالات کے جواب ابھی قطعی طور پر معلوم نہیں‘ اس لیے بیشتر ملکوں نے متعلقہ افریقی ملکوںکے مسافروں پر سفری پابندیاں لگا دی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خطرہ کیا ہے اورکتنا بڑا ہے۔ عالمی ادارہ صحت یہ خطرہ ظاہر کرتا ہے کہ کووڈ سے سابقہ متاثرہ لوگوں میں یا ان لوگوں میں جنہیں ویکسین لگ چکی ہے، اومیکرون مدافعتی نظام کمزور کرسکتا ہے۔ یہ خطرہ بھی ہے کہ اومیکرون اس معاملے میں پچھلے تمام وائرسز سے زیادہ خطرناک ہو۔ پھر وہ ممالک جہاں ویکسین لگوانے کی شرح کم ہے وہ زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ جینیٹک انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر فانکوئس بالوکس کے مطابق جتنا ابھی ہم جانتے ہیں یہ یقینی ہے کہ پچھلے تمام وائرس کے مقابلے میں اومیکرون ان لوگون کو دوبارہ انفیکٹ کرنے کی زیادہ طاقت رکھتا ہے جو ویکسین لگوا چکے ہیں یا انہیں کورونا ہوچکا تھا۔ موجودہ پی سی آر ٹیسٹ سے یہ وائرس معلوم ہوسکتا ہے لیکن شاید وائرس کے کچھ حصے اس کی گرفت میں نہ آسکیں۔ بچنے کی صورتیں وہی ہیں جو کووڈ میں بھی بتائی گئی تھیں‘ یعنی ویکسین لگوانا، چاردیواری کے اندر جو ہوادار ہو، رہنا۔ میل جول اور قریبی رابطے سے بچنا۔ ہاتھوں کا بار بار صاف کرنا اور چست ماسک کا پہننا۔
اب آئیے ان ویکسین ساز کمپنیوں کے ردعمل کی طرف جو اس وقت سرفہرست ہیں۔ بائیواین ٹیک نے 26 نومبرکو اعلان کیا کہ انہیں دو ہفتے میں پتہ چل جائے گا کہ آیا اس کی ویکسین اومیکرون کے خلاف کام کرے گی یا نہیں۔ اگر ضروری ہو تو ایک تبدیل شدہ ویکسین 100 دن کے اندر بنائی اور بھیجی جاسکتی ہے۔ آسٹرازینیکا، موڈرینا اور جانسن اینڈ جانسن بھی اس وائرس کا مطالعہ کر رہی ہیں کہ ان کی ویکسینز اس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہو سکیں گی۔ نوواویکس نے بھی 26 نومبر کو ہی اعلان کیا کہ وہ ایک تبدیل شدہ ویکسین اومیکرون کے خلاف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو دو ہفتوں میں ٹیسٹ کے مراحل میں داخل ہو جائے گی۔ 29 نومبر کو سائنوویک نے اعلان کیا کہ وہ اومیکرون کے خلاف بڑی مقدار میں ویکسین بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح روسی سپوتنک بنانے والی کمپنی گمالیا انسٹیٹیوٹ نے بھی کہا ہے کہ ان کی ویکسین اومیکرون کے خلاف کارآمد ہوگی اور ضرورت پڑنے پر تبدیل شدہ ویکسین 45 دن کے اندر تیار کرلی جائے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ ابھی ان ابتدائی دنوں میں اومیکرون کے متاثرہ افراد میں سنگین خطرہ، ہسپتال میں داخلہ اور بالآخر موت جیسے معاملات محض قیاسات ہیں‘ یقینی نہیں۔ اب تک اڑتیس ممالک میں یہ وائرس پہنچ چکا ہے اور تاحال اس کی وجہ سے کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی۔ اب تک اومیکرون کے مصدقہ کیسز کی تعداد 100 سے اوپر ہے۔ جنوبی افریقہ میں جہاں سے یہ پہلی بار دریافت ہوا، یکم دسمبر سے تیزی سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر ہے؛ اگرچہ یہ بات یقینی نہیں کہ یہ سب اومیکرون کی وجہ سے ہیں۔ ایک ماہر بائیولوجسٹ ٹام وین سیلرز، جن کا تعلق یونیورسٹی آف لیووین، بلجیم سے ہے، بتاتے ہیں کہ ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون چھ گنا زیادہ رفتار سے متاثر کرسکتا ہے‘ اور سب سے زیادہ خطرہ عمر رسیدہ افراد کو ہوگا۔
پاکستان نے کیا دفاعی اقدامات کیے ہیں؟ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے کیٹیگری سی میں شامل ممالک سے مسافروں کی آمد پر پابندی لگاتے ہوئے مزید آٹھ ملک اس فہرست میں شامل کیے ہیں۔ جنوبی افریقہ، یوکرائن، کرویشیا، ہنگری، نیدرلینڈ، آئرلینڈ، سلوینہ، ویتنام، پولینڈ، زمبابوے، نمیبیا، لیسوتھو، ایسواتینی، بوٹسوانا فہرست سی میں شامل ہیں۔ پاکستان آنے والے تمام مسافروں کے لیے کورونا ویکسین لازمی قرار دی گئی ہے۔
افق پر ایک طوفان کے آثار ہیں۔ دنیا اس کی علامات دیکھ کر سہم رہی ہے کہ وہ پہلے ایسے ہی طوفان میں بہت قربانیاں دے چکی ہے۔ ووہان سے وائرس نمودار ہوا تھا تو سب کو امید تھی کہ ہم اس سے باہر رہیں گے لیکن جو پیش آیا وہ سب نے دیکھا۔ ہر چیز بتاتی ہے کہ انسان پوری ترقی کے بعد آج بھی کتنا بے بس اور کتنا کمزور ہے۔ کیا میں نے نہیں دیکھا؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ نشانیاں تو واضح ہیں!