دنیا تیزی سے روایتی طریقوں سے ٹیکنالوجی کی طرف سفر کررہی ہے۔ موبائل ایپلی کیشنز، جو کل تک اجنبی سی لگتی تھیں، اب اچنبھے کی چیز نہیں رہیں۔ تحریک انصاف 90 دن میں کایا پلٹ دینے کے دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ خیر 90 دن کے خیال خام پر بھروسہ کرنے والے تو کم تھے لیکن تبدیلی کی توقع کرنے والے بہت سے تھے۔ یہ تبدیلی کتنی آئی اور کتنی نہیں‘ یہ الگ بات ہے لیکن ایک تبدیلی یہ ضرور آئی کہ موبائل ایپلی کیشنز کا وہ سفر تیزرفتار ہوگیا جن میں شہریوں کو گھر بیٹھے مسائل کے حل، ٹیکس کی ادائیگی وغیرہ کی سہولتیں دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ روز بروز مختلف محکموں کی طرف سے ایسی ایپلی کیشنز کی اطلاع ملنے لگی اور بعض کی تو اطلاع بھی نہیں ملی جبکہ وہ آن لائن موجود ہیں۔
جب پاکستان سٹیزن پورٹل کی اپیلی کیشن لانچ ہوئی تو اس کے بارے میں بھی بہت سی امیدیں تھیں۔ یہ اپنی بنیاد میں ایک قابل تحسین کام تھا‘ لیکن اس پر گفتگو سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ سٹیزن پورٹل ہے کیا؟ اس لیے کہ بہت سے لوگ اس بارے میں اب تک آگاہی بھی نہیں رکھتے اور اسے استعمال بھی نہیں کرتے۔ اس لیے اس بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات فراہم کرنا بہتر ہوگا۔ 2013 میں، یعنی تحریک انصاف سے قبل پرائم منسٹر پرفارمنس ڈلیوری یونٹ (PMDU) کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا‘ جس کا مقصد محکموں کی کارکردگی بہتر بنانا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس یونٹ کو فعال کرتے ہوئے اس کے تحت اکتوبر 2018 میں پی سی پی یعنی پاکستان سٹیزن پورٹل نامی موبائل ایپلی کیشن لانچ کی۔ یہ ایپلی کیشن بہ آسانی کسی بھی سمارٹ فون پر ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ اس ایپلی کیشن کے تحت تمام سویلین وفاقی، صوبائی محکمے اس کے دائرہ کار میں رکھے گئے۔ کسی بھی محکمے، کسی بھی وزارت کی شکایات اس ایپلی کیشن پر درج کروائی جا سکتی ہیں۔ ایپلی کیشن لانچ کرتے وقت بتایا گیا کہ لگ بھگ 4000 سرکاری محکمے اور ادارے اس میں شامل ہیں‘ اور شکایت کرنے والا چاہے تو اس کا نام صیغۂ راز میں رکھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور غیرملکی شہری بھی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔ شکایت درج کروانے والے کو پہلے اس ایپلی کیشن میں اپنے آپ کو رجسٹر کروانا پڑتا ہے جو زیادہ مشکل نہیں۔ شکایت درج کرنے کیلئے پہلے اپنے صوبے، شہر، ضلع اور تحصیل کا تعین کیجیے، پھر اس محکمے کا جس کی شکایت درج کرنی ہے۔ پھر شکایت کی تفصیل۔ اگر تصویر یا ویڈیو شکایت سے متعلق ہے تو وہ بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ شکایت درج کرانے کے بعد آپ کو درخواست کا مخصوص نمبر مل جاتا ہے۔ طریقۂ کار یہ ہے کہ اوپر کے مرحلوں سے گزرتی ہوئی بالآخر شکایت اس محکمے اور متعلقہ عملے تک پہنچتی ہے جس نے اس پر کوئی کارروائی کرنی ہو۔ دس دن کا وقت عملدرآمد کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ سٹیزن پورٹل کا نصب العین یا موٹیو یہ رکھا گیاہے کہ کوئی شکایت دادرسی کے بغیر نہیں رہے گی۔ شکایت دور کرنے کے بعد متعلقہ عملہ شکایت پر درج کرتا ہے کہ شکایت حل کردی گئی ہے۔ اگر شکایت کنندہ مطمئن نہ ہو تو وہ فیڈ بیک میں اطمینان یا عدم اطمینان ظاہر کرسکتا ہے۔
یہ تو ہوا شکایت کا طریقہ اور عملدرآمد کا طریقۂ کار۔ عملاً اس کی کیا صورتحال ہے۔ میں پہلے ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں اور اس کے بعد عمومی اعدادوشمار۔ میں نے سٹیزن پورٹل پر اب تک 5شکایات درج کرائیں۔ ان شکایات کی تفصیل درج ذیل ہے:
PU110619-3050494-1 گیارہ جون 2019۔
2۔PU220519-2810622‘ 22 مئی 2019
3۔PU310121-87918494 31 جنوری2021
4۔KP170421-88251075 17 اپریل 2021
5۔PU090721-88687788 9 جولائی 2021
ان سب شکایات میں سے نمبر5 پر ٹھیک عمل کرکے شکایت دور کردی گئی جبکہ نمبر1 پر جزوی عمل کیا گیا جس سے شکایت دور نہیں ہوسکی۔ باقی تین شکایات پر کوئی عمل نہیں ہوا جبکہ ہر شکایت پر متعلقہ عملہ لکھ چکا ہے کہ شکایت دور کردی گئی۔ (Relief granted) اور میں اپنے اطمینان اور عدم اطمینان دونوں کا اظہار فیڈ بیک میں کرچکا ہوں۔
سٹیزن پورٹل کی اس ناقص کارکردگی میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بالآخر شکایت اسی محکمے میں اور انہیں کے پاس پہنچتی ہے جن کی شکایت کی گئی ہے یا جن کی کام چوری، نااہلی یا رشوت ستانی کی وجہ سے مسئلہ پیش آرہا ہے۔ اس عملے پر شکایت کی نگرانی کرنے والا کوئی اور ادارہ ہے یا نہیں؟ بظاہر نہیں‘ کیونکہ اتنے محکموں اور شعبوں کی نگرانی کے لیے بھی ایک بڑا عملہ درکار ہے؛ چنانچہ اگر شکایت پر کاغذی کارروائی کرکے فارغ کردیا جائے تو شکایت کنندہ فیڈ بیک درج کرنے یا اگلی شکایت درج کروانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اور آج کی مصروف زندگی میں اگر یہی کام کرتے رہیں تو باقی اصل کام کون کرے۔ لہٰذا لوگ تھک کر چھوڑ دیتے ہیں۔
چلیے میری ذاتی شکایات کو ایک طرف رکھیے۔ ذرا عمومی اعدادوشمار سے سٹیزن پورٹل کی کارکردگی کا اندازہ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت تک نیٹ سے لیے گئے اعدادوشمار اپریل 2020 کے ہیں جن کے مطابق پرائم منسٹر پرفارمنس ڈلیوری یونٹ کا کہنا ہے کہ پندرہ لاکھ لوگ اب تک رجسٹر ہوچکے ہیں اور اس نے سولہ لاکھ ساٹھ ہزار شکایات کی دادرسی کی ہے‘ یعنی کل موصول ہونے والی شکایات کا نوے فیصد‘ لیکن اسی کے مطابق ان میں سے صرف پانچ لاکھ شکایت کنندگان نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں نے جن کی شکایات پر ریلیف گرا نٹڈ لکھا گیا تھا، اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ ان میں اگر ان شکایات کنندگان کو نکال بھی دیا جائے جن کی شکایت حقیقتاً دور ہو چکی ہے لیکن انہوں نے اطمینان کا اظہار فیڈ بک میں درج کرنے کی طرف توجہ نہیں دی تب بھی یہ بہت بڑی تعداد ہے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ لوگ ذاتی شکایات درج کرتے ہوں گے جن کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں ہے یا ایسے معاملے جو عدالت میں ہیں اور جن میں محکمہ کارروائی نہیں کر سکتا‘ لیکن ایسے حقیقی معاملات لاتعداد ہیں جن میں کارروائی ہونی چاہیے تھی لیکن نہیں کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں جب تک متعلقہ محکمے، متعلقہ فرد یا عملے کویہ خوف نہیں ہوگا کہ شکایت کا ازالہ نہ کیا گیا تو ان کی ترقی، تنخواہ وغیرہ پراس کا براہ راست اثر پڑے گا‘ وہ اسی طرح 'سب اچھا‘ دکھاتے رہیں گے۔ یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ محکمے کس کو جوابدہی کرتے ہیں اور کیا واقعی انہیں جھوٹ پکڑے جانے کا کوئی خوف ہوتا ہے؟
سٹیزن پورٹل کے بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور کسی حد تک ہوئے بھی ہیں لیکن کام چور عملہ اسے ناکام بنانے پر تلا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نے پھر اس پورٹل کا ذکر کیا ہے۔ کیا کوئی ہے جو ان تک یہ آواز پہنچا سکے؟
(پس نوشت: ابھی یہ کالم اشاعت کے لیے بھیجا نہیں تھا کہ شکایات نمبر2 اور 3‘ جو سیوریج سے متعلق تھیں، کے بارے میں متعلقہ سب انجینئر کا فون آیا اور اس نے جلد شکایت رفع کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اب یہ ہوتا ہے کہ نہیں، اللہ جانے، لیکن بتانا ضروری تھا۔ بہرحال ہم جیسے تو اسی بات پر خوش ہوجاتے ہیں کہ متعلقہ آدمی نے شکایت کا نوٹس تو لیا)