"SUC" (space) message & send to 7575

ایک اداس شام‘ ایک چمکیلی صبح

فیروز پور روڈ لاہور سے نہر کی طرف گاڑی موڑی تو زرد سورج گھنے درختوں کے پیچھے تیزی سے غروب ہورہا تھا۔ ایک اور دن کا اختتام‘ میں نے سوچا‘ لیکن ذہن نے فوراً ہی تصحیح کردی۔ ایک اور دن نہیں ایک اور سال کا اختتام۔ یہ دسمبر کے آخری دن کی آخری گھڑیاں ہیں۔ 2021 کو غروب ہوتے دیکھ کر جھٹکا سا لگا۔ ارے! ابھی تو یہ طلوع ہوا تھا۔ یکم جنوری2021 تو کل کی بات ہے۔ یہ توبچہ سا تھا۔ اس سے بڑی امیدیں باندھی تھیں۔ یہ کب جوان ہوا، کب بوڑھا اور کب اس کی مدت پوری ہوئی‘ پتہ ہی نہیں چلا۔ کیا یہ واقعی بارہ مہینے تھے؟ ایک سال نہیں ایک دن لگتا ہے‘ اور دن بھی دسمبر کا۔ مختصراور جلد باز۔ عجلت پسند اورتیز رفتار۔ یہ سال نہیں جیسے ایک دن تھا:
ساتھ گزرا نہ تیرے بن گزرا
بے قرار اور مطمئن گزرا
سال گزرا سعود عثمانی
اور ایسے کہ جیسے دن گزرا
سال شروع ہوا تھا تو کتنی توقعات تھیں اس سے۔ اس کی آمد سے پہلے کا سال یعنی 2020 کتنا ہلاکت آفریں تھا۔ کتنا دہشت ناک اور لرزہ خیز۔ انسان پنجروں کی طرح گھروں میں بند تھے اور وہاں بھی محفوظ نہیں تھے۔ 2021 میں توقع تھی کہ دنیا سے یہ کالا سایہ ختم ہوجائے گا۔ یہ توقعات محض جزوی طورپر پوری ہوئیں۔ ویکسین آئی اورتیزی سے لوگوں کو لگوائی گئی۔ بہت کچھ حفاظت کے انتظام ہوئے لیکن پھر خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ویکسین یافتہ لوگ بھی مکمل محفوظ نہیں ہیں۔ وائرس نے اپنی شکلیں بدلیں اور کبھی ڈیلٹا، کبھی اومیکرون کی صورتیں اختیار کیں۔ کتنے لوگ دیکھتے دیکھتے چلے گئے۔ کتنے پیارے ایسے داغ دے گئے جو مٹنے والے نہیں۔ 2021 ختم ہوا لیکن کالے سائے ختم نہیں ہوئے۔
ابھی کل کی تو بات لگتی ہے جب دسمبر کی آخری رات نے لکھوایا تھا:
اور کچھ دیر میں یہ سرخ گلاب
اپنی خوشبو میں نیم خوابیدہ
چاند کے رس میں ڈوب جائے گا
اور کچھ دیر میں ہوائے شمال
نرم سرگوشیوں کی خلوت میں
پھول سے وصل کرنے آئے گی
اور کچھ دیر میں دھڑکتا سمے
ترک کر دے گا یہ پرانا لباس
اور نیا پیرہن پہن لے گا
اور کچھ دور تک ہواؤں پر
جل پری! تیرا گیت جائے گا
اور کچھ دیر میں محبت کا
اور اک سال بیت جائے گا
ارے! یہ سال ختم ہوا اور وہ سب منصوبے کیا ہوئے؟ وہ جو عہد خود سے کیے تھے کہ اس سال یہ اوروہ کام کریں گے، کہاں گئے؟ وہ سب مسودے جن کی تکمیل کرنی تھی اور جو اسی طرح ہنوز طاقِ کاہلی پردھرے ہوئے ہیں۔ وہ کتابیں جو پڑھنا تھیں اور ہنوز شیلف پر سجی ہوئی ہیں۔ وہ جو خدا کی زمین پر کچھ جگہوں کی سیر کرنی تھی۔ وہ لوگ جن سے ملنا تھا، جن میں سے کچھ رخصت ہوگئے۔ وہ اعتراف جوکرنے تھے۔ وہ اظہار جو ابھی تک لب پر نہیں پہنچ سکے۔ وہ ندامتیں جو دل سے زبان تک نہیں آ سکیں۔ وہ معافیاں جو ابھی تک گنگ ہیں۔ یہ سال انہیں ذرا سا ہلائے بغیر، مس کیے بغیر کیسے گزر گیا؟ یہ گزر گیا اور وہ سب قرض اگلے سال 2022 کے سپرد کر گیا جنہیں وراثتیں نہیں قرض ہی کہا جا سکتا ہے۔
اور یہ تو ہر سال ہی ہوتا ہے۔ پچھلے سال کے وعدے اگلے سال کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کے وہ کام جو اپنی طرف سے بہت وقیع سمجھے جاتے ہیں۔ پوری توانائیاں صرف کر کے انہیں پورا کیا جاتا ہے۔ کتاب کی شکل دی جاتی ہے۔ اور پھر یہ کتابیں شیلفوں میں بند ہو جاتی ہیں۔ ان وقیع کاموں پر وقت گرد ڈال کر گزر جاتا ہے۔ ہر گزرتا سال بالوں میں مزید چاندی بھر دیتا ہے، جلد پر کچھ مزید جھریاں ڈال دیتا ہے۔ دل میں کچھ گھاؤ بھر دیتا ہے اور ان کے بدلے میں کچھ نئے زخم لگا جاتا ہے۔ کچھ پرانے شجر ڈھے جاتے ہیں اور کچھ نئی کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے۔ اور یہی ہوتا رہے گا۔
.........
میں نے شوکت علی روڈ لاہور سے نہر کی طرف گاڑی موڑی تو صبح چمکیلی تھی۔ 2022 کی پہلی صبح۔ سرمئی کہرے کی چادر کرنوں نے کافی حد تک چاک کردی تھی۔ سنہری دھوپ اور سبزے کا ہرا رنگ‘ دونوں آنکھوں سے دل میں اتر رہے تھے۔ ایک نئی صبح کا ہی نہیں ایک نئے سال کا آغاز تھا۔ گزشتہ رات کی اداسی کافور ہو چکی تھی اور نئی امیدوں نے اس کہرے کی چادر کافی حد تک چاک کر دی تھی۔ زندگی دھڑک رہی تھی۔ اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کے باوجود۔ ایسا لگا جیسے میرے دائیں بائیں سے گزرنے والے پیدل اور سوار لوگ ایک نئی توانائی کے ساتھ رواں ہیں۔ میں نے سوچا کہ کچھ چیزیں میرے بس میں ہیں اور کچھ میرے بس میں نہیں ہیں۔ حکومتیں، زمانے کا چلن، لوگوں کے رویے، زندگی کے مسائل، یہ سب میرے بس سے باہر ہیں‘ لیکن بہت کچھ میرے اختیار میں بھی تو ہے۔ بہت کچھ میرے ہاتھ میں بھی تو ہے۔ گزشتہ سال جیسا بھی رہا ہو، میں نے کتنی بھی کاہلی اس میں کی ہو، اس سال ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ ابھی میرے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں۔ ابھی میری نظر سلامت ہے۔ ابھی میرا دل دھڑکتا ہے۔ ابھی میرا قلم لکھنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ ابھی بے شمار باتیں کرنے والی رہتی ہیں۔ ابھی کتنے ہی قیمتی لوگوں سے ملنا ہے۔ پچھلے کھنڈر کو چھوڑ کر اگلی عمارت کی تعمیر کرنی ہے۔ پچھلا سال جو دن کی طرح گزرا تھا، اس سے مجھے یہ سبق لینا ہے کہ یہ سال قیمتی ہے۔ بہت قیمتی۔ یہ واپس نہیں آئے گا۔ یہ سیلِ وقت ہے جو رکتا نہیں۔ یہ چاندی تو بالوں میں بھرتی رہے گی۔ یہ جھریاں تو جلد پر پڑتی رہیں گی۔ یہ سب تو ہوتا ہی رہے گا۔ اسے تم روک نہیں سکتے۔ کچھ کر سکتے ہو تو یہ کہ اس لمس کو محفوظ کرلو جو اس وقت کا زندہ لمس ہے۔ کچھ کرسکتے ہو تو یہ کہ اس وقت کو منجمد کردو، جتنی بھی توفیق ہے۔
گزشتہ سال کے ملبے سے پھوٹتا نیا سال
یہ سیل وقت ہے مجھ پر گزرتا رہتا ہے
یہ انتظار فقط کرب انتظار سعود
ترس گئیں میری پوریں جھلس گیا مرا رنگ
وہ لمس جو مجھے چھو کر گزرتا رہتا ہے
میں ایک تشنہ و بے آب و رنگ ویرانہ
وہ دشت جس پہ سمندر گزرتا رہتا ہے
میں نے دسمبر کی آخری شام کا اپنا لکھا ہوا دیکھا۔ یہ شام اپنا رنگ میرے دل پر چھوڑ گئی تھی۔ پھر میں نے جنوری کی پہلی صبح کی اپنی تحریر دیکھی۔ یہ صبح اپنا چمکیلا پن لفظوں میں بھرگئی تھی۔ ان میں اصل کیا ہے؟ ان میں سے حقیقی کون سا رنگ ہے؟ سعود! ان میں سے میں کون سا ہوں؟ سچ کون سا ہے؟ کیسے فیصلہ کروں؟ لیکن اسی شش و پنج میں فیصلہ میرے دل نے کیا۔ دل نے سرگوشی کی۔ پیارے! یہی تم ہو۔ یہی زندگی کے رنگ ہیں۔ یہی زندگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں