کسی ساحلی شہر میں رات بھیگ رہی ہو، اور سمندر سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا اسے مزید نم کر رہی ہو تو سیاح کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو اس رات میری تھی۔ ٹھنڈ لگ رہی تھی لیکن داتچا کی خوبصورتی، خوبصورت روشنیاں، سروں پر روشن قندیلیں‘ بانہوں کی طرح پھیلی جگمگ سڑکیں اور اس رات کا جادو یہ چاہتے تھے کہ رات انہی کے بیچ گزار دی جائے۔ ہوٹل لوٹنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ داتچا کے مرکزی بازار کی اونچی نیچی، مڑتی‘ بل کھاتی سڑک خود سے جدا ہونے نہیں دے رہی تھی۔ سردی ناقابل برداشت ہونے لگی تو میں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ گیا۔ اس کے بڑے آتشدان سے شعلے اٹھ رہے تھے اور ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ دھیرے دھیرے سردی کم ہوئی اور کھانے اور ترکی چائے کے بعد تو ایسا لگنے لگا جیسے رخساروں سے تپش نکل رہی ہو۔ خمارِ گندم مشہور ہے۔ پیٹ بھرے کو نیند تو آتی ہی ہے۔ اس لیے میں واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہوا اور فٹ پاتھ پر جابجا براجمان جسیم، گھنے بالوں والے پالتو کتوں سے بچتا بچاتا اس ساحلی سڑک کی طرف چلا جو ہوٹل کو جاتی تھی۔ کتوں کی یہ قسم ویسے تو ترکوں میں ہر شہر میں نظر آتی ہے لیکن داتچا میں تو بہت زیادہ تھے۔ بڑے سائز کا کتا یعنی پطرس کے الفاظ میں بہت ہی کتا‘ لیکن فر جیسے بالوں والا خوبصورت اور پالتو۔ ہوٹل پہنچ کر بستر پر ڈھیر ہوگیا۔ تھکن اور خمار گندم میں نیند کا خمار شامل ہوجائے تو گہری نیند لازمی ہے۔
اگلے دن بھرپور ناشتے کے بعد میں داتچا بس اڈے کی طرف پیدل روانہ ہوا۔ آج کا دن مشہور سیاحتی شہر مرمریس میں گزارنے کا ارادہ تھا۔ دن بھر کے سفر کا سامان ساتھ لیا اور ہوٹل کے قریب ہی چڑھائی چڑھتی ہوئی سڑک پر چل پڑا۔ چڑھائی سخت تھی اور کچھ دیر بعد لگنے لگا کہ پیدل چلنے سے ٹیکسی بہتر ہے۔ بس سٹینڈ کو ترکی زبان میں ''آتوبس دراگی یا آتوبس دراکلاری‘‘ کہتے ہیں۔ راستے میں جس سے اس کا پتہ پوچھتا وہ جو کچھ ترکی میں بتاتا وہ بالکل پلے نہ پڑتا‘ لیکن ایک نامانوس لفظ ''مگروس‘‘ ہر ایک کے جملے میں ہوتا تھا۔ جب چلتے چلتے مجھے لگا کہ بس اب میں اس سے زیادہ چڑھائیاں نہیں چڑھ سکتا تو ایک موڑ کے ساتھ ہی مجھے ایک بڑے شاپنگ مال پر مگروس (Migros) لکھا ہوا نظر آیا۔ اوہ اچھا! تو گویا یہ سپر مارکیٹ بس سٹینڈ کی علامت تھی۔ ''مگروس تجارت‘‘ ( Migros ticaret) شاید ترکی میں سپر مارکیٹس کی سب سے بڑی چین ہے جس کی شاخیں جابجا اور ہر شہر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ داتچا بس سٹینڈ مگروس کے بالکل ساتھ عقب میں تھا۔
صاف ستھرا، قاعدے اور طریقے سے بنا ہوا بس سٹینڈ، جس میں کینٹین بھی موجود تھی۔ بسوں کی آمدورفت کے اوقات واضح لکھے ہوئے تھے جس کے مطابق اگلی بس آدھ گھنٹے بعد مرمریس کیلئے روانہ ہونا تھی۔ سفر ڈیڑھ گھنٹے کے قریب تھا۔ کرایہ شاید 15 ترکش لیرا جو پاکستانی 300 روپے کے قریب بنتا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ترکی میں پبلک ٹرانسپورٹ جو بہت اچھی ہے، وہی استعمال کرنی چاہیے اور پرائیویٹ کار یا ٹیکسی صرف مجبوری میں لینی چاہیے۔ آرام دہ اور صاف ستھری بس اپنے وقت پر داتچا سے نکل کر رواں ہوگئی۔ میدانی سڑک پہاڑی راستے میں تبدیل ہوئی اور پہاڑی راستہ ویسا ہی بل کھاتا، دائیں بائیں مڑتا اور موڑ کاٹتا تھا جیسے پہاڑی راستے ہوا کرتے ہیں۔ پہاڑی کی بلندی پر پہنچے تو دور نیچے نیلے سمندر کا خوبصورت منظر بھی ساتھ چل پڑا۔ یہ سمندر ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہا حتیٰ کہ ایک گھنٹے بعد بس پہاڑیوں سے اتر کر اسی سمندر کے ساتھ ساتھ مرمریس شہر میں داخل ہوگئی۔ ہمارے دائیں بائیں خوبصورت، جدید اور پُرسکون شہر مرمریس گزرتا رہا۔ یہ اجنبی شہر تھا لیکن مانوس اجنبی کی طرح۔ تقریباً سارا شہر عبور کرکے بس اپنے مستقر پر ٹھہرگئی۔ میں اپنے اکیلے پن کے ساتھ اترا اور کچھ دیر سستانے کیلئے قریبی پارک میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ اب جہاں بھی جانا ہو، یہاں سے مجھے کوئی ''ڈالمش‘‘ منی بس لینا ہوگی لیکن سوال یہی تو تھاکہ اب جانا کہاں ہے؟ ڈالمش منی بس مزے کی چیز ہے۔ یہ دراصل شیئرنگ ٹیکسی ہے جیسے ہمارے یہاں کی منی بسیں یا ویگنیں ہوتی ہیں۔ ''ڈالمش‘‘ نام بھی دلچسپ ہے۔ اس کا مطلب ہے لبالب بھرا ہوا یا ٹھنسا ہوا۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ یہ ٹیکسیاں مسافروں سے بھری ہوتی تھیں۔ یہ منی بسیں صاف ستھری اور آرام دہ ہیں اور ہر شہر میں مختلف روٹس پر چلتی ہیں۔ کرایہ 5 لیرا یعنی مناسب۔
کسی بھی سمندر کے کنارے عام طور پر کسی بھی بستی کی تاریخ جانے بغیر آپ یقین سے کہ سکتے ہیں کہ یہ ابتدا میں مچھیروں کی بستی رہی ہوگی‘ اور اگر بندرگاہ ہے تو ماہی گیری کے ساتھ تجارت کا مرکز بھی۔ مرمریس کا معاملہ بھی یہی تھا۔ مچھیروں کی یہ بستی زمانہ قبل از مسیح میں فسکوس کہلاتی تھی اور اس پر یونانی تمدن کے واضح آثار تھے۔ تاریخ میں ہر شہر اپنی اہمیت کا خراج اپنی تباہی کی صورت میں دیا کرتا ہے۔ سکندر اعظم نے اسے بھی تاراج کیا اور یہاں 500 سپاہی مامور کردئیے۔ وقت نے یونانیوں کو پچھاڑا تو یہ شہر رومنوں کے پاس آگیا۔ مرمریس کے اطراف پہاڑ سنگ مرمر سے مالامال تھے۔ یونانی میں سنگ مرمر کو مرمرون کہتے ہیں۔ ترکی میں اسے مرمرکہا گیا اور یہ بندرگاہ سنگ مرمر کی تجارت کیلئے معروف ہوگئی۔ 1957 کے زلزلے نے شہر زمیں بوس کردیا۔ از سرنو بنیادیں اٹھائی گئیں اور اب یہ سیاحت کے بڑے مرکز کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس کی اصل آبادی‘ جو تیس ہزار کے لگ بھگ ہے‘ سیاحت کے دنوں میں چار لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
میں نے بنچ پر بیٹھے بیٹھے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اچھا تو یہ ہے مشہور زمانہ مرمریس۔ وہ شہر جہاں سیاح آنے کیلئے سالوں پہلے سے پروگرام طے کرتے ہیں۔ یہ ہے مرمریس جہاں 2016 کی فوجی بغاوت کے وقت ترک صدر طیب اردوان، گرانڈ یازیجی ٹربن ہوٹل کے ولا میں اپنے خاندان سمیت چھٹیاں منانے آئے ہوئے تھے۔ کیا رات تھی وہ بھی۔ کیا سنسنی خیز رات جس کی لمحہ لمحہ روداد میں نے اپنے دو کالموں میں انہی دنوں ذکر کی تھی۔ میں شہر کو دیکھتا رہا۔ مرمریس کا حسن‘ اس کی ہریالی، سکون، قدرتی اور تمدنی خوبصورتی سے مل کر بنا تھا۔ اس کی خوبصورتی اس پیڑ کی گھنی ہلتی اور جھکتی شاخوں میں تھی جس کے تلے ہم بیٹھے تھے۔ ہوا کے نرم جھونکوں میں تھی، سامنے بنے سفید رنگ کی عمارتوں میں تھی۔ آراستہ پیراستہ، جدید سہولتوں سے مرصع دکانوں میں تھی اور ان خوبصورت لڑکیوں میں تھی جو کھلے گلاب کے تختے کی طرح ایک جھرمٹ میں سامنے سے گزر رہی تھیں۔ سیاح اگر اس شہر کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں تو بجا ہے صاحب۔ ریاض خیر آبادی نے کہا تھا نا‘
جمگھٹ وہ گل رخوں کے الٰہی کدھر گئے
کیا ہو گیا گلاب کا تختہ کھلا ہوا
میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ستر پچھتر سال عمر کا ایک ترک میرے بنچ پر آکر بیٹھ گیا۔ جینز، جیکٹ، بڑے بال۔ الجھی داڑھی مونچھیں۔ حلیے سے کوئی مصور، شاعر معلوم ہوتا تھا۔ اس نے عینک کے شیشوں کے پار سے مجھے پُرتجسس نظروں سے دیکھا۔ ترکی زبان میں اس کا سوال میرے سر سے گزر گیا تو میں نے انگریزی میں اس کا جواب دیا۔ پاکستان کا حوالہ آتے ہی وہ کھل اٹھا۔ اسے 1916 کی ترک آزمائش کے دنوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کا کردار بخوبی معلوم تھا۔ ''برادر‘‘ اس نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھائے۔ ہم دونوں کے ہاتھ گرم جوشی کی تمازت سے بھرے ہوئے تھے۔