گھٹا تو دودن سے شامیانے کی طرح تنی ہوئی تھی اوردودن سے جھڑی سی لگی ہوئی تھی۔ کل رات آخری پہر آنکھ کھلی۔ باہر لان میں زور و شور سے مینہ برسنے کی آوازیں لحاف کے اندر بھی سنائی دینے لگیں۔موٹی موٹی بوندیں باہر پڑی ٹین کی چادر کو مسلسل ٹھنٹھنانے لگیں توآنکھ کیسے نہ کھلے۔ سخت سردی میں نرم گرم بستر سے نکل کر باہر آنا مشکل کام تھالیکن ہمت کرکے یہ کام کیا۔ شیشے کی دیوار کی دوسری طرف سفیدروشنی میں چاندی کی دھاریں آسمان سے زمین پر گر رہی تھیں۔بارش کا منظر ہمیشہ ہی مبہوت کن ہوتا ہے خواہ رات کی ہو یا دن کی۔ میدانی علاقوں میں ہو یا پہاڑی قصبوں میں ۔ گرمی کی ہو، برسات کی یا جاڑے کی۔ بارش تو بارش ہے۔ زمین کی تخلیق کے بعد سے آسمان کا زمین سے پیار جو زمین کو ہر بار زندہ کردیتا ہے۔ زمین اپنے رنگوں سمیت کھل اٹھتی ہے۔ یہ بھول کر کہ کتنے دن سے اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔پیار کا اثر یہی تو ہوتا ہے ۔یہی تو ہونا چاہیے۔
شیشے کی نم آلود سطح بھی سرد تھی جس سے میرا چہرہ لگا ہوا تھا۔یہ مہاوٹوں کی رت تھی اور لاہور میں اس کی خوبصورتی سینکڑوں بار دیکھی ہوئی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ اب اس لفظ مہاوٹ کو برتنے والے بلکہ سمجھنے والے کتنے ہوں گے؟اور مہاوٹ ہی کیا‘ جاڑے کا لفظ بھی اب کتنے لوگ بولتے ہیں ‘اور ایسے ہی کتنے خوبصورت لفظ جنہیں ہماری بے توجہی اور بدیسی زبان سے مرعوبیت کھاگئی۔کیسے پیارے لفظ اور ان کا استعمال ہمیں ورثے میں ملا اور ہم نے انہیں طاق نسیاں میں ڈال دیا ۔ طاق نسیاں بھی نہیں بلکہ ردی کے ڈھیر میں ۔جیسے کیچڑ میں موتی ڈال دئیے جائیں۔
جاڑوں کی بارشیں مہاوٹیں کہلاتی ہیں ۔اب دیسی مہینوں کے نام بھی کتنوں کو معلوم ہوں گے۔ کتنوں کو پتہ ہوگا کہ مگھر، پوہ، اور ماگھ سردیوں کے مہینے ہیں اور اس کے بعد پھاگن اور چیت بہار کی رت کے مہینے ۔ دسمبر کے وسط سے پوہ کا مہینہ شروع ہوتا ہے اور جنوری کے درمیان تک رہتا ہے ۔ گویا اس وقت جنوری کے شروع میں ہم پوہ کے مہینے میں ہیں۔ ہم مہاوٹوں کا مطلب ہی نہیں جانتے تو ہم احمد علی کے افسانے مہاوٹوں کی ایک رات کو کیا سمجھیں گے۔ ہم اس رہن سہن سے تو دور ہو ہی گئے تھے جس میں ہمارے بڑے یا ہم خود وقت گزار چکے ہیں، دکھ یہ ہے کہ ہم ان لفظوں سے بھی دور ہوگئے جو ان خوبصورتیوں کو بیان کرنے کے لیے یکتا ہیں۔ ہم مرزا فرحت اللہ بیگ کی اس تحریر کا کیا لطف لیں گے جس میں وہ کہتے ہیں
' 'بڑی بی نے کہا :بیٹا ! جاڑے کا کیا کہنا۔ مہاوٹ برس رہی ہے ۔ دالانوں کے پردے پڑے ہیں۔ انگیٹھیاں سلگ رہی ہیں۔ لحافوں میں دبکے پڑے ہیں۔ چائے بن رہی ہے۔ خو دپی رہے ہیں دوسروں کو پلا رہے ہیں۔ صبح ہوئی اور چنے والا آیا۔ گرم گرم چنے لیے ۔ طرح طرح کے میوے آرہے ہیں۔ سب مزے لے لے کر کھارہے ہیں۔حلوہ سوہن بن رہا ہے۔ باجرے کا ملیدہ بن رہا ہے۔ رس کی کھیر پک رہی ہے۔ ادھر کھایاادھر ہضم ‘ ‘
اب اسی عبارت میں دیکھ لیجیے۔دالانوں کے پردے۔ لحاف۔ باجرے کا ملیدہ ۔ رس کی کھیر۔یہ سب فراموش ہوتے جاتے ہیں یا اس تجارتی ذہن کی نذر ہوتے جاتے ہیں جو ان کے نام پر پیسے بٹورنا چاہتے ہیں۔خال خال گھروں میں رواج اب بھی ہے لیکن وہ خاندان بھی معدوم ہورہے ہیں لیکن جن لوگوں کے تالو سے یہ ذائقے چپکے ہوئے ہیں ۔ یا ان کے حافظے میں وہ یادیں روشن ہیں وہ انہیں نہ بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں ۔ تل کے لڈو، السی کے لڈو،چٹخن،رس کی کھیروغیرہ ایسے ہی ذائقوں کے نام ہیں جو جاڑوں سے منسوب ہیں ۔یہ چیزیں تو اب ڈھونڈے سے ملتی ہی نہیں۔
باہر موسلا دھاربارش مسلسل جاری تھی اوراندر اس کے ساتھ خیالات کا سفر بھی ۔خیال آیا کہ خود بارش کے لیے ہماری اردو زبان میں کتنے الگ الگ لفظ ہیں جن میں ہر ایک کسی خاص کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اب ٹپکا کا لفظ دیکھیے۔ٹپکا لگا ہوا تھا کے جملے کو سمجھنے والے ہی نہیں ہیں۔ کتنے لوگ اب یہ لفظ استعمال کرتے ہیں بھلا حالانکہ یہ لفظ مسلسل بارش کو ظاہر کرتا ہے ۔باران، مینہ،برکھا، جھڑی ، بوندا باندی ، بوچھاڑ،ترشح ، برشگال ،ٹپکا وغیرہ تو وہ الفاظ ہیں جو کہیں نہ کہیں دیکھنے میں آجاتے ہیں ۔ لیکن دونگڑا اب کہیں نہ سننے میں آتا ہے نہ پڑھنے میں، تو میر انیس کا یہ شعر کون سمجھے گا کہ
اس زور شور سے کوئی لڑتا نہیں کبھی
یوں دونگڑا اساڑھ میں پڑتا نہیں کبھی
برسات کی طوفانی بارش کو دونگڑا کہا جاتا تھا۔ دونگڑا برس جانا محاورہ ہے۔یہ بھی آپ نے پڑھا ہوگا کہ فلاں نے تحسین و آفرین کے دونگڑے برسائے۔یہ وہی دونگڑا ہے۔ چونکہ ایسی زور شور والی بارش برسات میں ہوتی تھی۔ اساڑھ کے مہینے میں نہیں اس لیے میر انیس نے شعر میں دونگڑے کی پوری کیفیت بیان کردی ہے۔ بتائیے ہمارے پاس اردو میں اس کیفیت کے اظہار کے لیے کتنے لفظ ہیں؟ ہر دور میں ایک عام قاری کے پاس خاص ذخیرہ ٔ الفاظ ہوا کرتا ہے۔پہلے پڑھنے والوں کے پا س یہ ذخیرہ کافی بڑا تھا۔ فرض کرلیجئے پندرہ ہزار الفاظ۔ وہ ان لفظوں کو جانتا سمجھتا تھا۔ پھر اس میں کمی آئی اور یہ ذخیرہ فرض کیجیے دس ہزار الفاظ تک محدود ہوگیا۔ کچھ اردو لفظ اس کے حافظے سے محو ہوگئے اور ان کی جگہ بدیسی الفاظ نے لے لی ۔ پھر یہ لفظ اور کم ہوئے اور ہوتے ہوتے اب معاملہ پانچ چھ ہزار الفاظ تک محدود ہوگیا۔یہ بذات خود المیہ ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم لکھنے والوں نے اس کو دیکھتے ہوئے انہی الفاظ میں لکھنا شروع کردیا جو قاری کے علم میں تھے۔ ہم اس کی سطح بلند کرنے کے بجائے اس کی سطح پر اتر آئے ۔حالانکہ ان دونوں چیزوں کی ساتھ ساتھ ضرورت تھی کہ قاری کی تفہیم بھی ہو اور اس کی تعلیم بھی ہو۔
میرے محبوب چچا مفتیٔ اعظم پاکستان جناب مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے ایک بار بہت کمال کی بات کہی ۔کہنے لگے کہ ہم گونگی قوم ہیں ۔ ہم کسی بھی زبان میں خود اعتمادی سے بھرپور بات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔نہ قومی زبان میں ،نہ پاکستانی زبانوں میں اور نہ بدیسی زبان میں۔ ہر ایک میں ہم احساس کمتری کا شکار ہیں ۔ آپ نے وزیروں اور مشیروں کو تقریر کرتے یا گفتگو کرتے سنا ہوگا۔ بڑے بڑے رہنما اور بڑے مناصب پر فائز حضرات۔ وہ کسی بھی زبان میں بات کر رہے ہوں۔ ایک جملے کے بعد ایک جملے جتنا لمبا آآ آ کھینچتے ہیں۔ اس دوران کچھ لفظ جمع کرکے کچھ بولتے ہیں۔ یہ لفظ اکثر غلط اور بے محل استعمال یا غلط تلفظ کی اعلیٰ مثالیں ہوتے ہیں۔ یہ چوٹی سر کرنے کے بعد اگلے جملے تک پھر وہی آ آ آ اور اے اے اے۔ پانچ منٹ کی گفتگو میں تین منٹ یہ بے معنی آوازیں نکال نکال کر فصیح البیان صاحب رخصت ہوجاتے ہیں کہ اس کے بعد ان کا ذخیرۂ الفاظ ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ان کا بھرم بھی ۔ اور یہ معاملہ اردو انگریزی سب زبانوں میں ہے۔ کبھی ایسے لوگوں کو سن لیں تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ ہم گونگی قوم ہیں۔