مری کے مسائل اور ان کے حل کے لیے چار فریقوں کے مؤقف سمجھنے ہوں گے۔ اول، مری کے باشندے، دوم سیاح، سوم ہوٹل مالکان اور دکاندار اور چہارم انتظامیہ۔
اہالیان مری کے مسائل اور مؤقف کی بات کی جائے تو ایک کالم ناکافی ہو گا۔ سچ یہ ہے کہ اہالیان مری کو ہوٹل مالکان سے ہٹ کر کبھی نہیں سمجھا گیا۔ مری پر مقدم حق مری کے اصل باشندوں کا ہے کہ مری نسل در نسل ان کا گھر چلا آتا ہے‘ اور ان میں بیشتر کا تعلق ہوٹل بزنس سے نہیں ہے جبکہ مری کے ہوٹلوں، دکانداروں کے رویوں اور منافع خوری کی وجہ سے بدنامی ان کے حصے میں آتی ہے۔ مری کے حقیقی مسائل پر یا تو کبھی کان ہی نہیں دھرا گیا یا ان پر اتنی سست رفتاری سے کام کیا گیا کہ بچے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہونے لگے لیکن وہ کام مکمل نہیں ہوا۔ پانی کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ پانی جیسی لازمی ضرورت کی کمی مری میں عشروں سے چلی آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مری کی آبادی کو2.5 ملین گیلن پانی کی روزانہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ صرف 1.3 ملین گیلن پانی اسے ملتا ہے۔ یہ پانی ڈونگہ گلی، دھرجاوا، مسوت، خانی تک پانی کی سکیموں سے فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاحوں کے مسلسل ہجوم کی وجہ سے یہ پانی بالکل ناکافی ہو جاتا ہے اور گرمیوں، برفباری کے سیزن میں پانی کی شدید قلت ہو جاتی ہے۔ مری اور دیگر پہاڑی بلند بستیوں کے پاس میدانی بستیوں کی طرح زمین کا سینہ چاک کرکے زیر زمین پانی کھینچ لینے کی سہولت نہیں ہے؛ چنانچہ ان کے پاس دیگر امکانات ہی بہت کم بچتے ہیں۔ جو پائپ لائن ڈونگہ گلی سے مری تک انگریز دور میں ڈالی گئی تھی وہ اب تک کام کر رہی ہے لیکن یہ ہر دور میں مجرمانہ غفلت رہی ہے کہ مری کے لیے پانی کے متبادل بندوبست نہیں کیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ مری میں واٹر مافیا بھی وجود میں آ چکا ہے جو ہوٹل والوں اور شہر والوں کی مجبوریوں کی پوری قیمت وصول کرتا ہے۔ 2014 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ اربوں روپے خرچ کر کے مری کا پانی کا مسئلہ حل کر رہے ہیں۔ وہ اربوں روپے کہاں گئے؟ منصوبے کا کیا ہوا؟ جو بھاری مشینری اور سامان اس کے لیے خریدا گیا تھا، وہ بھی پڑے پڑے خراب ہو گئے اور اب اس کی الگ تحقیقات ہو رہی ہیں۔ مری میں مسطح اور تعمیر کے لیے موزوں جگہ کی قلت ہے۔ لیکن ایک خوبصورت اور پُر سکون مری کے لیے تعمیرات پر جن کڑے قوانین اور ضوابط کی ضرورت تھی، وہ نہ صرف یہ کہ بنائے نہیں گئے بلکہ پہلے سے موجود ضابطے بھی ہوا میں اڑا دئیے گئے۔ یہ معاملہ ویسے تو گزشتہ بیس پچیس سال کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے لیکن گزشتہ پانچ چھ سالوں میں تو یہ معاملہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اس حد تک کہ کئی سال بعد جانے والا جانے پہچانے منظر کو پہچان بھی نہیں پاتا۔ نتیجہ اس کا یہ کہ کھلے منظر کا حسن برباد کر کے وہ بے ہنگم، بھدی اور بد صورت تعمیرات کھڑی ہیں جو ہر طرف نظروں کو چبھتی ہیں۔ بجلی کا محکمہ انتہائی نااہل اور کام چور عملے پر مشتمل ہے۔ بلا جواز اور بے وجہ لمبے لمبے بریک ڈاؤن معمول ہیں اور کوئی شکایت سننے والا نہیں۔ بہت سے محکموں اور شعبوں میں اہل کاروں کی تعداد بہت کم ہے، سو کام نمٹنے میں ہی نہیں آتا۔ صفائی اور برف ہٹانے والا عملہ نہایت نکما ہے؛ چنانچہ آمدورفت میں مسائل کے علاوہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ اگر مری کے رہائشی میرے ثقہ دوست نے نہ بتایا ہوتا تو میں بھی یقین نہ کرتا کہ گزشہ کچھ سالوں میں جنگلی سؤروں کی تعداد شہر میں بہت بڑھ گئی ہے۔ مری کے رہائشی علاقوں میں چوہوں کی بہتات ہے‘ اور یہ حالات بتاتے ہیں کہ صفائی کی حالت کیسی ہے۔ پھر یہ کہ ظاہر ہے مری میں کوئی زرعی زمینیں نہیں ہیں اور زیادہ تر آبادی کا براہ راست یا بالواسطہ انحصار سیاحت پر ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مری کی اپنی ثقافت، اپنا رہن سہن اور اپنا سکون بھی سیاحوں کی نذر ہوکر رہ جائے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہر طرح کے سیاح مری میں آتے ہیں اور ان کی حرکتیں بھی ہر قسم کی ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سی حرکتیں ناقابل برداشت ہیں۔ ظاہر ہے کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ گاڑی میں بآواز بلند موسیقی پر گھروں اور دکانوں کے سامنے ڈانس کیے جائیں، بیہودہ حرکات کی جائیں، شراب پی کر غل غپاڑہ کیا جائے‘ خواتین سے بدتمیزی کی جائے یا سائلنسر نکال کر شور پیدا کرنے والے موٹر سائیکل سواروں کا سڑکوں پر راج ہو۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کے نزدیک تفریح اسی کا نام ہے؛ چنانچہ ان حرکتوں پر مقامی لوگوں اور ایسے منچلوں کے درمیان کئی بار جھگڑے ہوچکے ہیں۔ کیا مری سے باہرکے لوگوں کو یہ اندازہ ہے کہ گرمی اور برفباری کے سیزن میں پورے پاکستان کے مختلف علاقوں سے کتنی تعداد میں بھک منگے، فقیر مری پہنچ جاتے ہیں؟ کیا باہر کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان دونوں موسموں میں مختلف شہروں کے مزدور، دہاڑی دار، پھیریوں والے، وزن اٹھانے والے، خوانچوں والے کتنی بڑی تعداد میں مری آکر اپنے اپنے داؤ لگاتے ہیں؟100 روپے کا انڈہ، 200 روپے کا چائے کا کپ وغیرہ انہی کی دین ہوتی ہے۔ یہ مری کے نہیں ہوتے لیکن کالک ساری مری والوں پر تھوپی جاتی ہے۔ ان کی روک تھام تو دراصل مقامی انتظامیہ اور پولیس کا کام ہے لیکن مری کی انتظامیہ اور پولیسی ایسی ہی نااہل ہے جیسی دوسرے شہروں کی؛ چنانچہ دونوں آنکھیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔ اس علاقے میں عباسی خاندان بہت بااثر اور بااختیا ر ہے اور عموماً اسی برادری کا کوئی نہ کوئی سیاسی رہنما قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہوتا ہے خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔ آج کل ممبر قومی اسمبلی جناب صداقت علی عباسی (پی ٹی آئی) اور ممبر پنجاب اسمبلی میجر لطاسب ستی (پی ٹی آئی) ہیں۔ ان کے ووٹرز کو ان سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے دورِ رکنیت میں مری کے کون سے مسائل حل کروائے ہیں اور موجودہ سانحے کے بعد ان کا کیا کردار رہا ہے؟
تعلیم، صحت وغیرہ کے مسائل الگ ہیں، اور مری کے قریب دیہات کا معاملہ بھی شہر سے جدا ہے لیکن یہ غنیمت ہے کہ کسی شعبے میں اگر کوئی کام کرنے والا دیانتدار سربراہ آجائے تو وہ اپنا شعبہ بہتر بنادیتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ فی زمانہ حساس عمارات، تنصیبات وغیرہ میں سے کتنی کی اب حقیقی ضرورت ہے اور کتنی روایت کے طور پر چلی آرہی ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ مری اور سیاحتی مقامات سے یہ ختم کرکے نواحی علاقوں میں منتقل کردی جائیں اور اس طرح اہل مری کو کچھ مزید زمین حاصل ہو جائے۔
یہ مسائل اگر کسی بڑے شہر کو پیش آتے تو ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوتی لیکن المیہ یہ ہے کہ مری کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ کمزور آوازوں کو کون سنتا ہے۔ مسائل حل کروانے میں مقامی نمائندے ناکام ہیں اور شاید آئندہ بھی یہی ہوگا‘ لیکن ان سب کے باوجود ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب اہالیان مری کے ذمے ہے۔ یہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے عشروں سے چل رہا ہے۔ انہوں نے ایک طاقتور تنظیم اور تحریک کی صورت میں ان سب کے خلاف مہم کیوں نہیں چلائی جو ان کے چہرے پر کالک مل رہے تھے؟ اور کیا آئندہ بھی یونہی رہے گا؟ اس سوال کا جواب اہالیان مری کے ذمے ہے۔