تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آچکی ہے۔ ایک بادشاہ چلا گیا۔ دوسرا تخت پر بیٹھ گیا۔ پہلے زمانے میں تاج پہنا جاتا تھا۔ اب شیروانی زیب تن کی جاتی ہے۔ صرف دو تین ماہ پہلے یہ تبدیلی ناممکن لگتی تھی لیکن ہونی کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ جنہوں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی وہ خود ٹل گئے اور ہم تماشائی ہمیشہ کی طرح بس تماشا دیکھتے رہے۔ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ کیا جا سکتا تھا تو یہ دعا کہ ملک کے لیے یہ تبدیلی باعث خیر ہو۔ ملک کی معیشت کسی طرح سنبھلے اور لوگوں کے مسائل حل ہوں۔ یہ دعا ہر حکومت اور ہر بادشاہ کی تبدیلی کے وقت مانگی جاتی رہی ہے اور ان میں اکثر دعائیں آسمان سے ٹکرا کر واپس آتی رہی ہیں۔ عمران خان کی تخت نشینی کے وقت یہ دعا تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ امیدیں بھی وابستہ تھیں۔ امیدیں بھی بالآخر دیوار سے سر پھوڑ کر مر گئیں۔
شہباز شریف تخت پر متمکن ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو ان کے کریڈٹ پر بطور وزیر اعلیٰ پنجاب بہت سے کارنامے موجود ہیں۔کوئی شک نہیں کہ ایسا وزیر اعلیٰ پنجاب کو اور کوئی نہیں ملا۔ اور اسے خوش قسمتی کہیے یا کارکردگی کا صلہ، شہباز شریف کو کام کے لیے وقت بھی سب سے زیادہ ملتا رہا۔ لیکن کام کے لحاظ سے بھی اور انتظامی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی شہباز شریف کی قدروقیمت میاں نواز شریف سے بھی زیادہ رہی ہے۔ سچ یہی ہے کہ انتظامی اور عملی صلاحیتوں میں میاں محمد شریف کا یہ بیٹا دوسروں پر فائق ہے۔
دوسری طرف یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ شہباز شریف بڑے منی لانڈرنگ مقدمات بھگت رہے ہیں اور اس وقت ضمانت پر ہیں۔ یعنی فی الوقت وہ ملزم ہیں مجرم نہیں‘ لیکن میرے خیال میں یہ بھی ملک کی تاریخ میں بلکہ کسی بھی جمہوری ملک کے تاریخ میں منفرد واقعہ ہوگا کہ ضمانت یافتہ شخص ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا حلف اٹھا لے۔ ان مقدمات میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ‘ کتنا احتساب ہے اور کتنا انتقام۔ یہ فیصلہ عام آدمی کے بس میں نہیں‘ لیکن مقصود چپڑاسی کا نام اور ٹی ٹی کے لفظ پی ٹی آئی نے ان کے نام کے ساتھ چپکا دئیے ہیں اور پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن ان باتوں کی سچائی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی وزیر علی محمد خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہا بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد تو جمہوری عمل کا حصہ ہوتی ہے اس کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ جو پی ٹی آئی کو قبول نہیں، غیرملکی سازش اور ایک بڑے ملزم کو تخت پر بٹھانا ہے۔ لیکن بہرحال کوئی چاہے نہ چاہے یہ ہوچکا ہے اور زمینی حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی۔
پنجاب اسمبلی اور وزارت اعلیٰ کا معاملہ ہنوز معلق ہے لیکن نون لیگ کی مرکزی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ پنجاب چوہدریوں کے ہاتھوں میں جائے اس لیے بظاہر آخری نتیجہ حمزہ شہباز ہی کے حق میں جائے گا جو خود منی لانڈرنگ مقدمات میں ضمانت پر رہا ملزم ہیں۔ چند دنوں میں یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ مرکز اور پنجاب کی کشاکش رہے گی یا پنجاب پھر نون کے پاس چلا جائے گا۔
آنے والی حکومت کیا گل کھلانے جارہی ہے؟ کس حد تک ٹوٹی ہوئی کمر والی معیشت اور کمر توڑ مہنگائی کی مرمت کرسکتی ہے اور، چند دن میں جنگل کیسے ہرا ہوجائے گا، یہ سنگین سوال ہیں‘ لیکن یہ بات اہم ہے کہ مسلم لیگ نون میں وزیر اعظم کا بیانیہ نواز شریف اور مریم نواز وغیرہ کے سخت مؤقف سے الگ اور معتدل ہونے کے باعث وہ مقتدر حلقوں کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔ میاں شہباز شریف کی مسلسل دن رات کام کی بھی شہرت ہے اور بیوروکریسی کے لیے سخت گیر رویے کی بھی۔ یہ ان کا امتحان ہو گا کہ کس طرح اب وہ خود کو ان داغوں سے بچاتے ہیں جو سابقہ ادوار میں نون لیگ پر لگتے رہے ہیں۔ کیا اس بار مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ مرکزی حکومت، ایک صوبے، بلکہ ایک شہر، بلکہ ایک ضلع کی حکومت ہے۔
عمران خان کے دور حکومت پر تفصیلی تحریر لکھنی ہے لیکن فی الحال صرف یہ کہ ایک غیر جانبدارانہ اور غیر جذباتی نظر ڈالی جائے تو چپ سی لگ جاتی ہے۔ عمران خان اپنی حمایت میں لہر کو سونامی سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ اب اس سونامی کا پانی اترنے لگا ہے تو ہر طرف تباہی کے جو منظر ہیں انہیں دیکھنے کے لیے کسی دوربین کی ضرورت نہیں:
دل سے تری یاد اتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
دو حقیقتیں ناقابل انکار ہیں۔ ایک‘ اس ناانصاف نظام کو بدلنے کے لیے عمران خان میں موجود صلاحیت۔ دوسری‘ نظام بدلنے میں ان کی واضح ناکامی۔ یہ صلاحیت بھی سب سے زیادہ اور ناکامی بھی سب سے بڑی ہے۔ ہر ناکامی کے پیچھے سازش نہیں ڈھونڈی جاسکتی۔ یہ شکست خوردہ ذہن کی پہلی نشانی ہے اور منصفانہ بات یہ ہے کہ خان صاحب کی تمام ناکامیوں کے لیے کسی سازش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ خود اور ان کی ٹیم کافی تھے۔ غیر ملکی سازش اور خط کا معاملہ حقیقت کم اور سیاسی حربہ زیادہ لگتا ہے۔ ذرا سی گرد بیٹھنے لگی ہے تو چیزیں قدرے بہتر نظر آنے لگی ہیں۔ حقیقت یہی لگتی ہے کہ اس میٹنگ کی روداد جو خط تھی ہی نہیں، یقینا ایک حقیقت تھی لیکن ڈوبتی کشتی والوں کو یہ خود کو بچانے کا ایک راستہ نظر آیا۔ یہ حکومت بچانے اور مخالفوں کو گندا کرنے کا آخری پتہ تھا، جو ناکام ہوا۔ شہباز شریف حکومت کی طرف سے اس معاملے پرکمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی اسی طرح تحقیقات اور سرد خانوں کی نذر ہو جائے گا جیسے اس طرح کے معاملات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔
ہر حکومت کے جانے کے بعد اس کے جو کرتوت بیان کیے جاتے ہیں وہ پی ٹی آئی کے حوالے سے شروع ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی سیاسی سکورنگ، مخالفوں کا جذبۂ انتقام، اگلی الیکشن کمپین اس کے لازمی عناصر ہوں گے۔ یہ نکال کر باقی کیا بچتا ہے۔ یہ وقت بتا دے گا۔ لیکن جو کچھ نظر آتا ہے اس میں اچھا کم اور برا زیادہ ہے۔ ان کی حکومت کے آخری دن تو حکومت‘ انتظام‘ معیشت اور روپے کی فری فال جمپ کے دن ہیں۔ کسی بھی چیز کا کوئی پرسان حال تھا ہی نہیں۔
لیکن یہ تو حکومتی ایوانوں کی باتیں ہیں۔ ہم لوگ جو آپس میں محبتیں رکھتے ہیں، سال ہا سال کی دوستیاں استوار ہیں۔ بے شگاف تعلقات برسوں پر محیط ہیں، ہم کس جنون کی لپیٹ میں ہیں آخر؟ یہ کیا خبط ہے کہ اپنے سیاسی مخالف کو جان سے مار دو، ورنہ نوچنا کھسوٹنا شروع کردو، یہ بھی ممکن نہ ہو تو گالیاں دے کر بھڑاس نکال لو۔ یارو! اس پاگل پن سے نکل آؤ جو تقسیم در تقسیم معاشرے کو مزید حصوں میں بانٹ رہا ہے۔ میں نے نئی حکومت کے بعد دو تین دن پہلے فیس بک پر یہ سٹیٹس لگایا جو ہر معتدل اور ذی ہوش شخص کے دل کی آواز بنا۔ یہی میرا اس کالم کے آخر میں بھی پیغام ہے۔
یارو! چھوڑو یہ سب رنج، خوشی،جیت، ہار، فتح، شکست۔ جو آئیں گے ان سے بھی ہماری دشمنی نہیں، جو چلے گئے ان سے بھی عداوت نہیں۔دونوں ہی اپنے ہیں۔ میں اسے حق و باطل کی جنگ کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا، ہاں کچھ زیادہ پسندیدہ تھے، کچھ کم پسندیدہ، کچھ بالکل ناپسند، لیکن اس سے زیادہ میرے لیے کبھی کوئی اہم نہیں رہا۔ لوگ ایک خاندان میں بھی تو ہوتے ہیں۔ کچھ اچھے لگتے ہیں کچھ برے۔ کیا ہم اس کے باوجود اسی خاندان میں نہیں رہتے؟
فاصلوں، خلیجوں، اور اختلافات کو کم کریں، بڑھائیں مت، ورنہ سب سے پہلے آپ کی اپنی ذات اس کھائی میں گرے گی۔ ایک حد سے زیادہ اختلاف بڑھانا کسی اور سے نہیں خود سے دشمنی ہے۔