آج 3 مئی 2022 ء کو منگل کے دن جب آپ تک یہ تحریر پہنچ رہی ہے‘ عید کی خوشیاں دنیا بھر میں منائی جارہی ہیں۔ پاکستان کے اکثر علاقوں میں آج عید کا پہلا دن ہے۔کے پی میں دوسرا دن۔ اب میٹھی عید کو کڑوی کیوں کریں اس لیے پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا‘ عید کی خوشیاں سب کو مبارک ہوں۔رمضان المبارک کے بعد تو واقعی ہمیشہ ہی ایسا لگتا ہے کہ عید کے دن بالکل الگ‘بالکل جدا اور بالکل منفرد ہوتے ہیں۔ہماری روایات عید پر سب کچھ بھول کر گلے ملنا‘ مصافحہ‘ معانقہ کرنا ہے۔ہماری روایات اپنے اپنے طریقے کے مطابق کھانے بنانا اور کھلانا ہے۔یہ روایات قائم رکھیں۔ ان خوشیوں‘ ان روایات کو‘ ان پیارے دنوں کو کسی سیاسی ایجنڈے کی نذر کردینا بڑی حماقت ہو گی۔ اس لیے کسی اختلاف کے بغیر‘ سیاسی ہو‘مذہبی ہو یا مسلکی‘ عید منائیں اور خوشیاں بانٹیں۔ان دنوں میں فاصلے اور خلیجیں کم کریں۔ یہی آج کی ضرورت ہے۔عید میٹھی ہی رہنے دیں کڑوی مت کریں۔
عید کئی کیفیات لے کر ساتھ آتی ہے۔ خوشیوں‘ اداسیوں اور جدائیوں کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ۔کسی گھر میں مسکراہٹیں اور قہقہے لے کر آتی ہے اور کہیں آنسو۔یہی بار بار ہوتا ہے‘بس ہر بار گھرانوں کی ترتیب بدلتی جاتی ہے۔ہر سال روزوں کا باطمینان اختتام۔عید کی تیاری۔ عورتوں بچوں کی خوشیاں۔ عزیزوں کی دوری۔ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والوں کا غم۔یہ سب غم اور سب خوشیاں ہر بار اس دن آتی ہیں اورعید پر ان خوشیوں غموں کی شدت ہر دوسرے دن سے زیادہ ہوتی ہے۔۔میرے بڑے بھائی جان مفتی محمود اشرف عثمانی کے دو ماہ قبل انتقال کے بعد یہ پہلا رمضان تھا۔ اور پہلی عید ہے۔اس لیے ہم سب پر اثر بھی بہت ہے۔لیکن یہ نظام اسی طرح ہے۔بار الٰہا! یہ دن کتنا مختلف ہے اور یہ دنیا کیسی عجیب ہے۔
لیکن عید آتی ہے تو ہر چیز سے دھیان ہٹ کر اپنے بچپن اور لڑکپن کی عیدوں کی طرف چلا جاتا ہے۔عید وہی عید ہے جو بے فکر زندگی میں گزاری ہو۔اور بے فکر زندگی بچپن اور لڑکپن کے علاوہ کون سی ہوتی ہے۔نیلا گنبد کے قریب ایونگ روڈ کے ایک گھر میں میرے والدین دس سال رہے۔میری پیدائش اسی گھر کی اور ابتدائی یادیں اسی زمانے کی ہیں۔چاند رات کو مغرب کے فورا ًبعد چاند دیکھنے کے لیے چھتوں پر پہنچ جانا معمول تھا۔عید کے کپڑے واسکٹ ٹوپی اور رومال تو امی عید سے پہلے ہی تیار کرلیتی تھیںلیکن عید سے کچھ دن پہلے کسی رات یا چاند رات کو ہم اپنے والد مرحوم کے ساتھ انارکلی بازار میں عید کے جوتے لینے جاتے تھے۔یہ جوتے عام طور پر چاولہ یا بٹالہ کمپنی سے لیے جاتے تھے۔یہ دکانیں پیسہ اخبار سے قریب تھیں اور اب انہیں ختم ہوئے بھی زمانہ ہوگیا۔ان جوتوں یا سینڈلز کی خوشی کیسے بیان کی جائے۔بار بار انہیں ڈبے سے نکال کر دیکھنا اور ہر بار ایک لہر کا جسم میں دوڑ جانا اب تک یاد ہے۔ایک بار جو بوٹ میرے لیے میری پسند سے خریدا گیا‘ اس کے تلے کا نیا نکور نچلا حصہ جو زمین سے مس ہوتا ہے‘بہت چمک دار تھا۔ہم اپنے والد کو بھائی جی کہتے تھے۔میں بہت دیر امی اور بھائی جی کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ استعمال کے بعد اس پر بھی میں روز پالش کرکے نیا کرلیا کروں گا۔مجھے یاد ہے کہ یہ بات سن کر وہ ہنس پڑے تھے اور مجھے بہت برا لگا تھا کہ میری ٹھیک بات پر یہ ہنس کیوں رہے ہیں۔
متوسط گھرانوں سے کچھ تعلق رکھنے والی اس نسل کی یادیں کم و بیش ایک جیسی ہیں۔خاص طور پر میرے وہ ہم عمر جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ نیلا گنبد کی جامع مسجد کے باہر تک نمازِ عید کی صفیں بنتی تھیںاور صفوں سے ہٹ کر نور محل ہوٹل کے سامنے غباروں والا‘ کھلونے والا‘گٹے والا اور بہت سے والے کھڑے ہوتے تھے.۔ہم بچوں کی اصل عید تو یہی ہوتی تھی۔ دھنی رام روڈ پر ایک بیکری کی دکان کی رنگ برنگی پیسٹریاں‘لمبے کریم رول اور نیلا گنبد چوک پر سید محکم الدین اینڈ سنز کے تین منزلہ کیک ہم بچوں کی توجہ کے خاص مرکز ہوا کرتے تھے۔لیکن اسے کیا کیجیے کہ شیشے کے شوکیس کے اندر رکھی یہ ناقابل رسائی چیزیں جب دسترس میں آنے لگیں تو وہ کشش بھی جاتی رہی۔سچ ہے کہ نارسائی بہت بڑی کشش ہے۔
نمازِ عید کے بعد بچوں کا عیدی با جماعت خرچ کرنے کے لیے نکلنا لازمی تھا۔میں بہت چھوٹا تھا اس لیے صرف بہن بھائیوں کے ساتھ ہی جاسکتا تھا۔بازار سے گزرتے ہوئے حلوائیوں کی دکانوں پر رنگ برنگ اور قسم قسم کی مٹھائیوں کے سجے سجائے تھال چوکی سے شرع ہوتے تو زینہ بناتے چھت تک پہنچتے تھے۔یہ میٹھاجادوئی منظر کبھی آپ نے ایک بچے کی نظر سے دیکھا ہے ؟ ذرا بڑے ہوئے تو سمن آباد موڑ پر نئے تعمیر شدہ کشادہ گھر میں منتقل ہوگئے جہاں قریب میں کئی عزیزوں کے گھر بھی تھے۔یہاں عید کا میلہ چوبرجی گراؤنڈ میں لگتا تھا اور بچوں کا ایک ہجوم نماز کے فورا ًبعد وہاں پہنچتا تھا۔جب تک دو تین لذیذ گھنٹے اس گراؤنڈ میں نہ گزارے جاتے‘ عید کی خوشی پوری نہیں ہوتی تھی۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ ایلومینیم کی پلیٹ اور ایلو مینیم کے چمچے کے ساتھ سروکی جانے والی آلو چھولے کی چاٹ میں ایسی کیا لذت تھی۔اور بات اسی کی نہیں‘گول گپے‘لڈو پیٹھیاں والے‘املی والے چنے وغیرہ سب ہی کا مزا ناقابل ِبیان ہوتا تھا۔ہاں سردار نان مچھلی والا ذرا چوبرجی گراونڈ سے دور سمن آباد موڑ کے قریب تھا اور یہ ذرا مہنگی آئٹم تھی اس لیے اس کا رخ اس پلاننگ کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ باقی چیزوں میں کٹوتی کردی جائے اور پیسے نان مچھلی کے لیے بچا لیے جائیں۔قتلمہ بھی خاص عید کی سوغات تھی۔
ذرا اور بڑے ہوئے تو سمن آباد پہلے گول چکر پر سینڈوچ اور کولا مرکزِ توجہ بن گئے۔وہیں قریب میں پہلی بار سٹیم روسٹ اور چرغے کی دکان کھلی تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔مین مارکیٹ سمن آباد میں مستقیم کا برگر اور میٹھا پان بھی کچھ عرصے بعد ترجیحات میں شامل ہوگئے۔پھر کچھ اور زمانے کے بعد سمن آباد مین مارکیٹ میں شیخو ریسٹورنٹ کھلا تو یہ چکن تکہ اور سیخ کباب کی پہلی آماجگاہ بنی۔یہاں جانے کی منصوبہ بندی عید سے پہلے سے شروع کردی جاتی تھی۔یہ شہزادگیوں کا دور تھا اور سارے راج کمار ہر فکر سے آزاد ہوکر یہ زندگی بسر کرتے تھے۔
بے فکری کی زندگی والدین کے انتقال پر ختم ہوجاتی ہے۔مجھے اپنے والد اور امی کے رخصت ہوجانے کے بعد کی دو عیدوں کی کڑواہٹیں اب تک یاد ہیں۔ لقمہ حلق سے نہیں اترتا تھا۔لیکن یہ گزرتے زمانوں اور بدلتی کیفیات کا عجیب نظام ہے اللہ کا۔ یہ نہ ہو تو کلیجے پھٹ جائیں اور زندگی ہمیشہ کے لیے تلخ ہوکر رہ جائے۔ سو زخم لگتے رہتے ہیں اور مندمل ہوں یا نہیں بہرحال بھر جاتے ہیں۔انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اس کے زخم بھی اس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں خواہ وہ کتنے پرانے ہی کیوں نہ ہوچکے ہوں۔ہزار جدائیاں ساتھ ہوں‘ کچھ قریب‘ کچھ فاصلے پر‘تو انسان کیا خوش ہو اور کیا عید منائے۔لیکن دنیا اسی طرح مناتی رہے گی حتی کہ عید کا وہ دن آجائے گا جس کی میاں محمد بخش نے بھی نوید دی تھی۔
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
(اچھا تو پھر دوست! رب کے حوالے۔یہ میلے تو چار دن کے ہیں۔ اس دن عید مبارک ہوگی جس دن ہم دوبارہ ملیں گے)