"SUC" (space) message & send to 7575

خالص سونے کی زمینیں

سیاست پر بات کرتے کرتے تو جی بھر گیا ہے تو آئیے ذرا کائنات میں جھانکتے ہیں۔ وہ مصرعہ سنا ہے نا آپ نے: 'دو لبالب جام تھے ٹکرا گئے‘
بس ایسا ہی کچھ سنسنی خیز واقعہ انسانی مشاہدے میں پہلی بار چند سال پہلے آیا۔ اس وسیع و عریض بے کنار کائنات میں دو ستارے آپس میں ٹکرا گئے اور پہلی بار انسان نے اس ٹکراؤ اور اس کے بعد کے اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ 17 اگست 2017 کی بات ہے۔ گرین وچ وقت کے مطابق سہ پہر ایک بج کر اکتالیس منٹ پر وہ سگنل سب سے پہلے امریکہ میں قائم شدہ Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory نے وصول کیے جس کے مطابق دو نیوٹران ستارے کائنات کے ایک دور دراز گوشے میں آپس میں ٹکرا گئے اور اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بے پناہ گاما شعاعیں (Gamma rays) پیدا ہوئیں اور سونے چاندی جیسی بیش قیمت دھاتیں بھی کائنات میں بکھر گئیں۔ بظاہر دونوں نیوٹران ستارے ٹکرا کر فنا ہو گئے اور ایک بلیک ہول وجود میں آ گیا۔ یہ سائنس کی دنیا کا ایک غیرمعمولی واقعہ بلکہ تہلکہ خیز خبر تھی۔ سائنسی میگزینوں سمیت دنیا بھر کے اخبارات نے نمایاں طور پر اس خبر کو شائع کیا۔
لیکن ذرا پہلے یہ سمجھ لیں کہ نیوٹران ستارہ ہوتا کیا ہے۔ نیوٹران ستارہ اب تک کے علم کے مطابق کائنات کا سب سے چھوٹا، مادے کے اعتبار سے سب سے کثیف (Densest) ستارہ ہوتا ہے۔ 12 میل چوڑائی والے اس ستارے کی مادے کے اعتبار سے کثافت آپ کے تصور سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ جان کر انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں کہ اس ستارے کے مواد کا محض ایک چمچ بھر مادہ ایک ارب ٹن سے زیادہ ہوگا۔ ستارے کا مرکز خالص نیوٹرانز کا ایک محلول سا ہوتا ہے جبکہ اس کی سطح نہایت سخت یعنی فولاد سے دس ارب گنا زیادہ سخت ہوتی ہے۔
ہوا یہ کہ ہم سے ایک سو تیس ملین نوری سال دور یہ ٹھوس ستارے‘ جن میں ہر ایک ہمارے سورج سے زیادہ وزنی تھا‘ ایک دوسرے کے گرد ایک دوسرے سے 200 میل کے فاصلے پر جلیبی نما کنڈل (spiral) میں چکر کاٹتے ایک دوسرے سے قریب آرہے تھے۔ ان کی رفتار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یہ ایک سیکنڈ میں ایک دوسرے کے گرد تیس بار چکر کاٹتے تھے۔ جیسے جیسے یہ ستارے چکردار جلیبی کے اندر چھوٹے دائروں میں مزید قریب آتے گئے‘ ان کی رفتار اتنی بڑھ گئی کہ یہ ایک سیکنڈ میں 2000 بار ایک دوسرے کے گرد گھومنے لگے، اور قریب آتے آتے بالآخر ٹکرا گئے۔ دو سیکنڈ کے بعد ناسا کی فرمی سپیس دوربین (The Fermi Space Telescope) نے گاما شعاعوں کا ایک نہایت شدت کا برسٹ محسوس کیا جو ٹکراؤ کے بعد مادے کے ساتھ شاک ویوز کی شکل میں گویا ابل پڑا تھا۔ جیسے ہی تصادم کے بعد گاما شعاعوں کا اخراج ہوا اس علاقے میں بھاری عناصر مثلا پلوٹونیم، یورینیم، سونے اور چاندی کی بارش شروع ہو گئی‘ اور عشروں پرانی اس سائنسی بحث کی گرہ بھی کھل گئی کہ سونا اور چاندی آخر کس طرح وجود میں آئے تھے۔ بہت پہلے سے سائنسدانوں کا قیاس تھا کہ نیوٹران ستاروں کے تصادم کی بھرپور طاقت وہ قوت مہیا کرتی ہوگی جس سے اضافی نیوٹران ایٹموں کے مرکزوں میں نفوذ کرکے انہیں تبدیل کر سکتے ہوں گے اور یوں بھاری دھاتیں مثلاً پلوٹونیم، سونا اور چاندی وجود میں آتی ہوں گی۔ ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ تھا‘ لیکن اب یہ قیاس حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے۔ زمین پر موجود سونا‘ جس کے جنون میں انسان پاگل ہوئے پھرتے ہیں‘ نیوٹران ستاروں کے تصادم نے بنایا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر برائن (Dr.Brian Mattziger) وہ سائنسدان ہیں جنہوں نے 2010 میں اس طرح کے ممکنہ تصادم کیلئے کلونووا (Kilonova) کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ انہوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس تصادم میں کتنا سونا پیدا ہوا ہوگا‘ لیکن اس اندازے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ زمین میں مادے کی کل مقدار کم و بیش 5.9 سکسٹیلین (Sextillion) ٹن ہے۔ ایک سکسٹیلین ٹن وہ عدد ہے جو 1 کے دائیں طرف 21 صفر لگانے سے بنے گا۔ یہ بہت ہی بڑا عدد ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر میٹزیگر کے اندازے کے مطابق زمین کی کل مقدارِ مادہ سے چالیس سے سو گنا زیادہ سونا ان چند دنوں میں پیدا ہوا ہوگا اور کائنات میں بکھر گیا ہوگا۔ اگر اس مقدار کیلئے کھربوں ٹن کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو یہ اصل مقدار سے کم ہوں گے۔ دیگر دھاتوں کو نکال دیں تو آسانی کے لیے یہ سمجھ لیں کہ زمین کے سائز کے دس سیارے خالص سونے سے وجود میں آئے ہوں گے۔ کائناتی زمان و مکان کے کپڑے پر اس تصادم نے عجیب لہریں پیدا کیں۔ کائناتی آتش بازی کے اس منظر کو، جو آج تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، بڑی زمینی اور خلائی رصدگاہوں میں دیکھا گیا اور اس کی آوازیں سنی گئیں۔ لیگو میں پہلی بار اس سگنل کی چہچہاہٹ وصول ہوئی۔ واشنگٹن اور لوزیانا میں لیگو کے جڑواں انٹیناز نے بھی یہ ارتعاش نوٹ کیا۔ اس کے فوراً بعد فرمی خلائی ٹیلی سکوپ نے گاما شعاعوں کے برسٹ محسوس کیے۔ اسی کے ساتھ پیسا (Pisa) میں واقع یوروپین رصدگاہ ''ورگو‘‘ نے بھی بہت مدہم سا چہچہا نوٹ کیا۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ سگنل آسمان میں کس طرف سے آیا ہے۔ بہت مدہم ہونے کی وجہ سے ورگو کے سائنسدانوں کی توجہ ہائیڈرانامی کہکشاؤں کے جھرمٹ کی طرف مرکوز ہوگئی جو 157 روشن کہکشاؤں کا ایک منفرد جھرمٹ ہے۔
سگنل کے منبع کی تلاش شروع ہوگئی لیکن یہ سہرا چلی کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ میں موجود رائن فولے کے سررہا۔ وہ ایک ٹیم کے ساتھ کام کررہا تھا اور ان کے پاس سووپ (Swope) دوربین تھی۔ انہوں نے ہائیڈرا جھرمٹ کی بڑی بڑی کہکشاؤں کی ایک منظم طریقے سے تصویریں اتارنا شروع کیں اور کسی آتشی گولے کی تلاش کرنے لگے۔ نویں کہکشاں کی تصویر میں یہ آتشی گولہ گلابی اور نیلے رنگ کی روشنی بکھیرتا نظر آگیا جو NGC 4993 کے نام سے اپنے گرد گھومتے ہوئے ستاروں کی اس کہکشاں کے بیرونی حصے میں موجود تھا۔ یہ انسانی تاریخ میں کلونووا کی پہلی تصویر تھی۔
دس منٹ بعد خلانوردوںکی ایک اور جماعت نے مارسیلی سانٹوز کی قیادت میں ڈارک انرجی کیمرا استعمال کرتے ہوئے یہی روشن دھبّہ ڈھونڈ نکالا۔ جب پہلی بار اس گولے کو دیکھا گیا تو وہ سورج سے 200 ملین گنا زیادہ توانائی خارج کررہا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر 70 سے زائد زمینی اور خلائی رصدگاہوں نے توجہ اس بات پر مرکوز کردی کہ NGC 4993 میں ہوا کیا ہے؟ تجسس کائنات کے قدیم راز جاننے کا تھا جس کی خواہش ہر سائنسدان کے اندر دھڑک رہی تھی۔ اہم دریافت وہGravitational waves تھیں جن کا مشاہدہ اس تصادم کے بعد کیا گیا‘ اور جن کے بارے میں نابغہ سائنسدان آئن سٹائن ایک صدی پہلے پیشگوئی کرچکا تھا کہ وہ موجود ہیں؛ اگرچہ اس کے زمانے میں وہ دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ یہ دریافت 2016 میں لیگو ہی کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں نے کی تھی۔
آخر اس تصادم کے بعد ستاروں کا کیا بنا؟ یہ معاملہ غیریقینی ہے۔ نیوٹران ستارہ عام ستارے اور بلیک ہول کے درمیان کی ایک صورت ہے؛ چنانچہ بظاہر دونوں ستارے ٹکرا کر ایک بلیک ہول میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو بلیک ہول کی تخلیق بھی انسانی مشاہدے میں پہلی بار ہوئی ہے۔ کاسمولوجی، آسٹروفزکس اور نیوکلیئر فزکس میں دلچسپی رکھنے والے تو بہرحال یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سو تیس ملین نوری سال پہلے کے وقت کا یہ تصادم زمین پر اب پہنچا ہے‘ لیکن مجھ جیسے ایک عام آدمی کی دلچسپی کی چیز بہرحال یہ ہے کہ کھربوں ٹن خالص سونا کائنات کے اس علاقے میں بکھرا ہوا ہے۔ ذرا تصور تو کریں۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ کسیں کمر؟ کریں ہمت؟ نکلیں سونے کی تلاش میں؟ ہو جائے ایک میراتھن دوڑ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں