عم مکرم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے حالیہ عید کے دل سوز اردو خطبے میں جو باتیں کی ہیں، جن خطرات کی نشان دہی کی ہے اور جو درخواستیں کی ہیں، وہ ہر مسلمان ہر پاکستانی کی ترجمانی ہے۔ ہر شخص کا دل قوم کے لیے خطرات دیکھ کر تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ ہر شخص نفرتوں‘ رنجشوں اور پھیلتی سیاسی خلیجوں کو بھگت رہا ہے۔ وہ سیاسی اختلافات جو اب سیاسی نہیں ذاتی حدود میں داخل ہو چکے ہیں، وہ مختلف نقطۂ نظر جو اب سر پھٹول تک آپہنچا ہے اور وہ مخالفت جو خانہ جنگی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہر ایک کے سامنے ہے۔ ایسے میں چچا جان کے یہ دلسوز الفاظ ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھیں بھگونے کیلئے کافی ہیں۔
''میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ نفرتوں کے بیج بونا بند کردو۔ ہم ان نفرتوں سے پہلے ہی ملک آدھا کرچکے ہیں۔ خدا کے لیے ہوش میں آؤ۔ یہ تباہی کا راستہ ہے‘‘۔
خدا کرے کہ ان الفاظ سے وہ جنون جنونیوں کے سر سے اترے جو بلاتفریقِ جماعت، اکثریت کے سر پر سوار ہے اور جو اس وقت سب سے زیادہ تحریک انصاف کے سر پر سوار ہے۔ ہر سیاسی جماعت ہر اس کارڈ کو استعمال کرنے میں پیش پیش ہے جو قوم میں مزید اشتعال پیدا کرے اور جس سے اس کی گڈی مزید چڑھتی ہو۔ یہودی ایجنٹ کا الزام ہو، غداری کے لقب ہوں، چور ڈاکو کے خطابات ہوں، سب وہ تیل کے بیرل ہیں جو اس آگ میں جھونکے جاچکے ہیں۔ یہ سلسلہ اب اور تیز ہوگیا ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے باہر شرمناک واقعہ ایسی خطرناک مثال ہے جو ہر دل کے ٹکڑے کرگئی۔ مبینہ طور پر مریم نواز شریف عمران خان کے دورے پر ایسے ہی ایک واقعے کی حوصلہ افزائی پہلے کرچکی ہیں‘ لیکن اس بار یہ واقعہ پہلے سے بہت بڑا ہے۔ ایک طرف ریاست مدینہ کے نام لیواؤں نے اس طرح کھل کر مدینہ منورہ میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی۔ دوسری طرف اسی مذہبی کارڈ کو عمران خان پر مقدموں کے لیے نون لیگ استعمال کر رہی ہے۔ وہ عمران خان جن کے فہم دین کے بارے میں جو بھی اعتراضات اور شبہات ہوں، لیکن جو شہرِ نبیﷺ کے احترام کے باعث مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں اترتا ہے۔ وزیر داخلہ نے ان مقدمات کا ذکر تو کیا ہے اور عمران خان کی گرفتاری کا امکان بھی ظاہر کیا ہے لیکن یہ آسان نہیں ہوسکے گا۔ اول تو یہ مقدمہ سیاسی بدنیتی پر مبنی سمجھا جارہا ہے اور اس کا تاثر موجودہ حکومت کے خلاف جائے گا۔ دوسرے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری ملک بھر میں ایک ایسی آگ لگادے گی جسے سنبھالنا حکومت کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس لیے ایسے ہر اقدام سے بچنا اس وقت حکومت کا فرض ہے جو مزید انارکی کی طرف لے جائے۔ دانشمندی یہی ہے کہ ایک جماعت دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کررہی تو حکومتی جماعتیں عقل کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ویسے تو پی ٹی آئی ہمیشہ سے ون مین شو ہے‘ لیکن اب اس کا مرکز صرف عمران خان کی ذاتی کیفیت اور رائے بن کر رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی کیفیت دراصل اس وقت کیفیات کا مجموعہ ہے۔ تختہ الٹ جانے کی تکلیف، متحدہ اتحاد کے ہاتھوں شکست، کرسی بحال رکھنے کیلٗے ہر ممکنہ جتن رائیگاں جانا، مرکز کے ساتھ ایک بڑا صوبہ ہاتھ سے نکلتے دیکھنا، فارن فنڈنگ کیس کی تلوار سر پہ لٹکنا، امریکی حکومت کا خلاف ہوجانا اور سب سے بڑھ کر امپائر کا اچانک غیرجانبدار ہوجانا۔ یہ سب تکلیفیں جمع ہوکر وہ تکلیف بنتی ہے جسے عمران خان کی کیفیت کہتے ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ خان صاحب اس کیفیت میں ذات اور پارٹی سے اوپر نہیں سوچ رہے، اور باقی پارٹی عمران خان کی رائے سے اوپر نہیں سوچ رہی۔ پی ٹی آئی کے اندر اگر کسی کی رائے خان صاحب کی رائے سے الگ ہے تو بہرحال اس نقارخانے میں سنائی دینا ممکن نہیں۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ خان صاحب کی خود رائی نے انہیں اور تحریک انصاف کو سخت نقصان پہنچایا‘ لیکن اب انہیں شاید یہ احساس ہو چلا ہے کہ امریکہ کو بطور ملک اپنا مخالف بنا لینا عقل مندی نہیں‘ لیکن یہ غلطی انہوں نے اقتدار کے آخری دنوں سے اب تک مسلسل کی ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے امریکہ اور جو بائیڈن انتظامیہ کو الگ الگ کرکے اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش بہرحال کی ہے۔ میرے خیال میں تیر کمان سے نکل چکا اور امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دینا خواہ عوام میں انہیں کتنا بھی مقبول بنا دے لیکن تحریک انصاف، ملک، فوج اور قوم کے حق میں نہیں ہوگا۔ یہاں اس بات پر بحث نہیں کہ حکومت بدلوانے میں جوبائیڈن انتظامیہ کا دخل ہے یا نہیں، بحث اس نکتے پر ہے کہ ملک اور قوم کے مفاد میں، بلکہ خود خان صاحب کے مفاد میں مصلحت سے کام لینا ہے یا نہیں۔ مصلحت اور مصالحت خان صاحب کے مزاج میں کم کم ہیں۔ اسی طرح لچک اور مفاہمتی مزاج بھی ان کے خمیر میں نہیں‘ اور یہ کسی بڑے رہنما کی بہت بڑی خامیاں ہوتی ہیں۔ وہ ایک بار پھر لانگ مارچ کی طرف چل پڑے ہیں جو ملک کو مزید افراتفری کا شکار کرے گا۔ انہیں 2014 کے دھرنے کا انجام بھی یاد نہیں، جس میں امپائر ان کے ساتھ تھا اور بالآخر جس سے اے پی ایس کے سانحے نے انہیں چھٹکارا دلایا تھا۔ اس بار وہ بیس لاکھ لوگوں کا لشکر لے کر دارالحکومت پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کا مطالبہ فوری انتخابات کا اعلان ہے۔
میرے خیال میں بھی انتخابات ہی ملک کو اس بحران سے نکالنے کا واحد راستہ ہیں۔ ویسے بھی یہ انتخابات 2023 میں ہونے تھے‘ سو ایک سال پہلے سہی۔ ممکن ہے اداروں کی سوچ بھی یہی ہو‘ لیکن خان صاحب عجلت میں کیوں ہیں۔ اس کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ باتیں واضح نظر آتی ہیں۔ فوری انتخابات اس وقت پی ٹی آئی کے فائدے میں ہوں گے۔ خان صاحب مظلوم بن چکے ہیں اور انہوں نے ہوشیاری سے اپنی چار سالہ کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے عوامی جذبات کا رخ اپنی مظلومیت کی طرف پھیر دیا ہے۔ اس لیے کہ چار سالہ کارکردگی بتانے کے لیے ان کے پاس کچھ زیادہ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مخالفین کو ان کی کردار کشی کے لیے زیادہ وقت نہ مل سکے اور سب انتخابات کی تیاری میں مصروف ہو جائیں۔ ایک اہم معاملہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کا ہے۔ خان صاحب ان تبدیلیوں کو منسوخ کرنے کا وقت نہیں دینا چاہتے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کا خان صاحب کی طرف واضح رجحان انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ای وی ایم کا فائدہ کس حد تک انہیں ملے گا، یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کے بقول سابق طریقوں میں جو جو طریقے ممکنہ دھاندلی کے لیے اختیار کیے جاتے تھے، وہ ختم ہو جائیں گے۔ دیکھا جائے تو خان صاحب کے پاس اس وقت اپنے ایجنڈے کو منوانے کے لیے عوامی طاقت کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کا فی الوقت یہی یک نکاتی ایجنڈا ہے۔ اس میں ملک کا کتنا نقصان ہو گا، کتنی خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ فی الوقت انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
خان صاحب! آپ کا رابطہ بھی چچا جان مولانا محمد تقی عثمانی سے رہتا ہے اور آپ ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ کیا آپ ان کے ان الفاظ پر غور کریں گے‘ کہ آپ بھی اس کے بڑے مخاطب ہیں‘ اور یہی الفاظ پوری قوم کی ترجمانی بھی ہیں۔
''میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ نفرتوں کے بیج بونا بند کر دو۔ ہم ان نفرتوں سے پہلے ہی ملک آدھا کر چکے ہیں۔ خدا کے لیے ہوش میں آؤ۔ یہ تباہی کا راستہ ہے‘‘۔