لکھنے والے کے لیے لکھنا ایسا ہی عمل ہے جیسے سانس لینا۔سانس لینا ہی اس کی زندگی کی علامت ہے۔لیکن زندگی میں بعض اوقات سانس بہت مشکل سے اور کھینچ کر لینا پڑجاتا ہے۔پھیپھڑوں میں آکسیجن کم ہونے لگے تو پورا کمرہ سانس کی آوازوں سے گونج اٹھتا ہے۔پر شور‘ پر مشقت‘ پر آواز۔لیکن بعض دفعہ ایسی سہولت سے سانس لیا جاتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا سانس کی آمد و رفت کیسے اور کب ہوئی۔بے مشقت‘ باسہولت‘بے آواز۔آپ جانتے ہیں کہ اس دور میں لکھنے والا کتنا بھی بچ کر رہے‘ مصروفیت کا ماسک پہن کر رکھے لیکن بہت اصرار پر لکھی جانے والی فرمائشی‘ستائشی تحریریں‘ کووِڈ وائرس کی طرح گھیر ہی لیتی ہیں ؛چنانچہ یہ انجام کار آزمائش ہی بن جاتی ہیں۔
لیکن لکھنے والوں کے ایک ہجوم میں اور تحریروں کے ایک انبوہ میں کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر لکھنے کا تقاضا باہر سے نہیں دل کے اندر سے اٹھتا ہے۔ٹاہلی والا لیٹر بکس بھی ایسی ہی کتاب ہے جس نے خود پر لکھوایا ہے۔ سجاد جہانیہ کی کتاب ''ادھوری کہانیاں‘‘ پر ایک تحریر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں بلکہ سجاد جہانیہ بھی میری کتاب مسافر پر ایک تحریر پڑھ چکے ہیں۔ براہ کرم اسے ستائشِ باہمی پر محمول نہ کریں لیکن یہ لازما نوٹ کرلیں کہ سکور اب 2۔1 ہوچکا ہے۔
سجاد جہانیہ سے میری ملاقاتیں کم اور مماثلتیں زیادہ ہیں۔ صرف مماثلتیں ہی نہیں ہمسائیگی بھی۔سجاد کو کیا علم کہ ملتان روڈ سے سمن آباد کی طرف داخل ہونے لگیں تو وہیں دوسری طرف گلشن راوی والی سڑک پرچوک سے 50گز دور اردو نگر میں سعود عثمانی نام کا ایک شخص اپنے آبائی گھر میں رہا کرتا تھا۔ اور وہ اس گھر میں کم و بیش پینتا لیس سال رہا۔سجاد جہانیہ کو کیا علم کہ پہلے گول چکر‘سمن آباد سے پہلے بیکری والی سڑک پر جہاں 431نمبر گھر میں وہ رہتے تھے‘اور جہاں ان کی لاڈلی زینب سکول میں جایا کرتی تھی‘ وہیں اسی سڑک پربہت سال پہلے طارق ماڈل سکول نام کا ایک سکول ہوا کرتا تھا جہاں سعود عثمانی اپنا بستہ اور تختی جھلاتے ہوئے روز پہنچا کرتا تھا۔ اسی سڑک پر اطہر شاہ خان جیدی مرحوم‘گیت نگارتنویر نقوی مرحوم اور مزاحیہ اداکار زلفی رہا کرتے تھے۔اس سڑک اور گرد وپیش کا احوال بدلتے سجاد جہانیہ نے بھی دیکھا اور میں نے تو بہت دیکھا؛چنانچہ سجاد جہانیہ کا یہ فقرہ میرا فقرہ ہے کہ وہ سڑک جہاں ہم اطمینان سے چہل قدمی کیا کرتے تھے‘ کمرشلائزیشن کی نذر ہوچکی ہے‘ دکانیں ہی دکانیں اور رش ہی رش‘ ایسا لگتا ہے کہ ہم پورا ملک دکان بنا کر ہی دم لیں گے۔
مماثلتیں یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔لفظ اور حرف سے رشتے داری اس پر مستزاد۔اور یہ رشتے داری بڑی گرہ گیرہے اور یہ قبیلہ بڑا دل والا ہے اور اس کا دل اس کے قلم میں دھڑکتا ہے۔سجاد جہانیہ کا دل اس کے قلم کی نوک پر آتا ہے تو عام رفتار سے دگنی تگنی رفتار سے رواں ہوجاتا ہے۔اور یہ روانی ہر صاحبِ دل محسوس کرتا ہے۔ٹاہلی والا لیٹر بکس کی طباعت میں الفاظ سرخ رنگ کے ہونے چاہئیں تھے کہ یہی رنگ خون دل سے لکھی تحریروں کو جچتا ہے۔کیا یہ لفظ ہم سب مڈل کلاسیوں کی اپنی کہانیاں نہیں ہیں ''وہ بھاگاں جو بیس برس سے گلگشت کے قبرستان میں زمین اوڑھے سوتی ہے‘اس کے بھاگ اباجی کے ہم رکاب تھے۔سو ملتان شہر کا پہلا بے مہر موسم گرما قدیر آباد کے چوبارے میں برقی پنکھے کے بغیر گزارنے والے اس سہ رکنی خاندان نے اگلے چند برس محلہ اشرف آباد میں دس مرلے کا اپنا مکان بنالیاجس کے فرش ابتدا میں چک تیرہ سے ہجرت کرکے آئی بھاگاں اپنے ہاتھوں سے لیپا کرتی تھی‘‘۔
سجاد کی سچائی اس کی تحریر کا دل ہے۔مجھ سے کوئی پوچھے کہ تحریر کو تاثیر کیا چیز بخشتی ہے تو میں کہوں گا لکھنے والے کی سچائی اور خلوص۔یہ بعد کی بات ہے کہ اس کی لفظیات کیا ہیں اور اس کے پاس بات کہنے کا سلیقہ کتنا ہے۔یہ بھی بے شک تحریر کی خوبیاں ہیں لیکن جب سے میں نے بڑے بڑے مہان لکھنے والوں کی تحریر میں سے سچائی اور خلوص کو بخارات کی طرح اڑتے دیکھا ہے۔میں اس کلیے پر پہلے سے زیادہ ایمان لے آیا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ پیچھے رہ جانے والی نری لفظیات اور کھوکھلے لفظوں کا برتاؤ ایسی گیلی مٹی کی دیوار کی طرح رہ جاتے ہیں جو اپنے معمار پر گرا چاہتی ہو۔ اور ایسی دیوار کا معمار پر گرجانا ہی بہتر ہے۔
سجاد جہانیہ کے اصیل تخلیق کار ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ فرضی نہیں حقیقی دنیا میں رہتا ہے۔اس کے کردار بھی حقیقی ہیں اور مقامات بھی۔ اور یہ دو چیزیں حقیقت پر مبنی ہوں تو مشاہدات اور بیانات تو حقیقی ہوں گے ہی۔ میں یہ کہوں کہ وہ ملتان میں بستا ہے یا ملتان اس میںبستا ہے‘ تو دونوں باتیں ہی درست ہوں گی۔ بومن جی چوک‘نصرت روڈ‘رشید آباد چوک‘ شاہ شمس روڈ‘مسلم ہائی سکول‘گلگشت کالونی‘جلال مسجد چوک‘اشرف آباد‘وحدت کالونی‘یہ سب اسی دنیا کے مختلف بر اعظم اور سمندر ہیں۔ اس کے کرداربھاجی پیجا‘بھاجی جیدااور بھاجی بھاؤ ہیں۔ اس کے کرداراسی کے نہیں ہم سب کے ہیں اس لیے کہ وہ جیتے جاگتے‘سانس لیتے‘ ہنستے‘گریہ کرتے ہمارے کردار ہیں۔بارہ سالہ علشبہ ہو‘ لال خان مالی ہو‘ رانا اعجاز محمود ہوں‘ کوئی بھی کردار اور اس کا نام اٹھا لیں‘ وہ جیتا جاگتا کردار ہے۔ ہمارے گرد وپیش میں رہتا ہوا اور ہمارے دکھ سکھ بسر کرتا ہوا۔
دیکھا جائے تو سجاد جہانیہ کالم نگار‘ادیب کا ہائی برڈ امتزاج ہے۔ ایک خاص رفتار سے اوپر کالم نگار کی بیٹری چپ ہوجاتی ہے اور ادیب کا پٹرول کام کرنا شروع کردیتا ہے۔وہ حالات حاضرہ پر بات کرتا ہے لیکن اس طرح کہ وہ حالات ہمیشہ کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ پھر اس کی خاکہ نگاری اپنی الگ انفرادیت رکھتی ہے۔وہ کردار کی تجسیم کرتا ہے۔ میں نے اس کی کتاب ادھوری کہانیاں پر لکھا تھا کہ خاکہ نگاری تو مجسمہ سازی ہے‘ مجسمہ سازی۔ذرا سی چوٹ اوچھی پڑی نہیں اور چہرے کے خد و خال مسخ ہوئے نہیں۔ممدوح کی تعریف یا تنقیص سے بالاتر ہو کر ایک ادبی اظہار کے ساتھ ممدوح کے خصائل اور خدوخال کی تجسیم کردینا ہی تو خاکہ نگاری ہے۔خاکے کی تو پہلی شرط ہی یہ ہے کہ نہ قصیدہ پڑھا جائے نہ اس شخصیت کو مسخ کرنا مقصد نظر نہ آئے اورخاکے کے ذریعے شخصیت سمجھی جاسکے۔قاری کو مداح اور ممدوح دونوں پرپیار آنا چاہیے۔محض زیبِ داستاں کے لیے تحریر کو انسانی خون سے رنگین کردینا بھلا کون سی خاکہ نگاری ہے۔
میں انہی الفاظ پر اس تحریر کا اختتام کرنا چاہتا ہوں جو پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘اور وجہ یہ ہے کہ یہی میرے بہترین ترجمان ہیں۔ سجاد کا اور میرا قبیلہ ایک ہی ہے۔ہم ایک ہی الاؤ کے گرد بیٹھتے ہیں۔ایک ہی چنگیر سے روٹی توڑتے اور ایک ہی پیالے میں ڈبوتے ہیں۔کیا عجب کہ یہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہونا اس کی برکت سے میرے عشق اور رزق میں بھی اضافہ کردے۔
عجب نہیں کہ مرا عشق و رزق بھی بڑھ جائے
وہ اجنبی ہی سہی‘ ہے تو ہم پیالہ مرا