اگر مجھ سے ایک جملے میں لانگ مارچ کے اختتام کے بارے میں پوچھا جائے تو میں کہوں گا خان صاحب دوسری مرتبہ کنٹینر سے گرے ہیں اور زیادہ زور سے۔ پہلی بار وہ جسمانی اور حادثاتی طور پر گرے تھے۔ اس بار معنوی اور اختیاری طور پر۔ لیکن انہیں اس بار زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ ان کے حامی بھی کافی زور سے گرے ہیں۔
یاد ہوگا کہ 2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان خطاب کے لیے کنٹینر سٹیج پر لفٹر کے ذریعے چڑھ رہے تھے کہ بے قابو ہونے پر خان صاحب کافی بلندی سے زمین پر آگرے تھے۔ انہیں کافی دن ہسپتال میں رہنا پڑا تھا‘بلکہ انتخابی نتائج بھی انہوں نے وہیں سنے تھے۔ 2013ء میں بھی اس حادثے پر ان کے مداحوں اور حامیوں کو دلی رنج پہنچا تھا۔ اس باراللہ نے انہیں جسمانی طور پر گرنے سے محفوظ رکھا ‘لیکن 2022ء کے اس لانگ مارچ کا اختتام ایسا ہی تھا جیسے وہ زمین پر آگرے ہوں۔ ان کے مداحوں کو اس بار بھی شدید دکھ پہنچا ہے اور وہ تذبذب کی حالت میں ہیں کہ یہ اچانک کیا ہوا۔
اس کا دکھ اپنی جگہ لیکن ان انسانی جانوں کا دکھ ناقابلِ تلافی ہے جو اس لانگ مارچ کے نتیجے میں اپنے گھروں کو سونا کرگئے۔ لاہور کا پولیس کانسٹیبل کمال احمد ہو‘ جو گولی لگنے سے شہید ہوا‘یا اٹک میں مدثر عباس اور محمد جاوید ہوں جو ڈیوٹی پر جاتے ہوئے بس الٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔ جو سو اہل کارزخمی ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں ‘ جبکہ تحریک انصاف کے کارکن لاہور کے فیصل عباس چوہدری ہوں یا مردان کے سید احمد جان ‘جانے والوں میں سے اب کوئی لوٹ کر اپنے گھر نہیں آئے گا۔ پی ٹی آئی کے نوجوان حکومت کے نزدیک توڑ پھوڑ کرنے والے اورمفسد تھے ‘ اور پولیس اہل کار پی ٹی آئی کے نزدیک مجرم اور گناہ گار۔ خیر جو چاہے ان میں تقسیم کرکے بتاتا رہے کہ یہ فلاں جماعت اور فلاں ادارے کا تھا‘میرے نزدیک یہ سب ہمارے بھائی‘سب مسلمان اور سب پاکستانی تھے۔ یہ سب بے گناہ تھے‘ یہ سب اپنی زندگیوں کے بہترین حصوں میں اپنے پیاروں کو چھوڑ کر گئے۔ ان سب کو ان کے گھروں سے حکم پر نکالا گیا۔ ان سب کا خون سرخ تھا‘اس سفید رنگ کے برعکس جو ان کو بے گناہ مروانے والوں کے خون کا رنگ ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت ‘ ان کی دیکھ بھال کے وعدے بعد از وقت ہیں۔ ان سب کی جان کی قیمت کوئی بھی نہیں ہو سکتی لیکن اسی جملے کو سیاست کی نظر سے دیکھیں تو وہ یہ ہو گا کہ ان سب کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ لیڈروں کا وقتی فائدہ تھا۔ کچھ جماعتوںکو ہر وقت لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے‘خواہ وہ کسی تحریک یا لانگ مارچ کے حق میں ہوں یا مخالف۔ لاشیں انہیں وہ بنیاد فراہم کرتی ہیں جن سے سیاسی مخالف کو گندا کیا جاسکتا ہے۔ تعزیتی ملاقات اور بیانات سے کیا ہوتا ہے ‘ جو لوگ قوم سے وعدے نہ نبھا سکیں وہ کسی سسکیاں بھرتے گھرانے سے کیا وفا کرسکتے ہیں۔ یہ جان سے جانے والے اپنی زندگی میںبھی ان جماعتوں کا ایندھن بنے رہے اور مرنے کے بعد بھی انہی کے فائدے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ اور وہ بھی محض کچھ عرصہ ‘ اس کے بعد سب فراموش کردیا جائے گا۔ داغ رہ جائیںگے تو صرف ان کے گھر والوں کے دلوں میں۔
کیا پی ٹی آئی میں کوئی ایسا شخص ہے جو عمران خان صاحب کو یہ سمجھا سکے کہ سیاست میںہر بات سختی اور زور سے منوانے کے علاوہ بھی اپنے مؤقف کو منوانے کے کچھ راستے ہوتے ہیں؟ لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک تو وہ آخری راستہ ہے جو بند گلی پر ختم ہوتا ہے۔ 2014ء میں جب طاہر القادری اور عمران خان نے مل کر لانگ مارچ اور دھرنا دیا تھا تو اگرچہ نواز شریف پر سخت دباؤ تھا اور حکومت بہرحال لڑکھڑا گئی تھی ‘لیکن اس کا سبب دھرنے سے زیادہ مقتدر حلقوں کی عمران خان کی پشت پناہی تھی۔ بالآخر اس سب کے باوجود دھرنا اپنا مقصد حاصل کیے بغیر ختم ہوگیا تھا۔ اسی دھرنے میں پی ٹی آئی نے جاوید ہاشمی جیسے قد آور سیاست دان کو بھی کھودیا تھا۔ اسی طرح اقتدار سے نکالے جانے کے بعد نواز شریف کا سڑک پر لانگ مارچ بھی بے نتیجہ ختم ہوا تھا۔ مولانافضل الرحمن نئے انتخابات اور عمران خان حکومت کے خاتمے کے لیے نکلے لیکن انجام بے نتیجہ رہا۔ عمران خان کو گرایا اس وقت جاسکاجب ان کی کمر اور ٹیک کے پیچھے سے گاؤ تکیہ اچانک نکال لیا گیا۔ اس لیے جلسے جلوسوں اور بالآخر لانگ مارچ کا اب تک نتیجہ یہی ہے کہ وہ کتنے ہی ہوش ربا ہوں‘حکومت ان کے ذریعے گرائی نہیں جاسکتی۔
اب تک مصدقہ اعداد و شمار نہیں ملے کہ لانگ مارچ میں کل کتنے لوگ شریک تھے۔ خان صاحب نے بیس‘ تیس لاکھ لوگوں کا دعویٰ کیا تھا‘لیکن وہ لوگ جو اسلام آباد سری نگر ہائی وے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے وہ خان صاحب کے دعوؤں کا عشر عشیر بھی نہ تھے۔ وجہ راستوں کی رکاوٹ ہو ‘ پولیس کی پکڑ دھکڑ ‘یا سخت گرمی میں لوگوں کا نہ نکلنا‘ حتمی نتیجہ بہرحال یہی تھا کہ چند لاشیں چھوڑ کر یہ لانگ مارچ بے نتیجہ رہا اور پی ٹی آئی کو موجودہ جلسوں کے بعد ایک دھچکا بھی لگا۔ یہ اچانک اور بے گمان ختم کیسے ہوا؟ڈی چوک پر انتظار کرتے لوگوں تک عمران خان کیوں نہ پہنچے؟انتخابی تاریخ لینے کے برعکس مزید چھ دن کا اعلان کیوں کیا گیا؟ ان سب معاملات پر قیاس آرائی جاری ہے لیکن یہ طے ہے کہ بااثر حلقوں کا ڈر نتیجہ خیز تھا۔ کیا عمران خان خود اس لیے ڈی چوک نہیں گئے کہ سپریم کورٹ نے اس سے منع کردیا تھا؟تو پھر شرکا کو وہ بار بار کیوں کہتے رہے کہ ڈی چوک پہنچیں؟ حکومت اور پی ٹی آئی کے بیچ مذاکرات کی بھی مسلسل خبریں چلتی رہیں اور بظاہر پس پردہ معاملات بھی ساتھ چل رہے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اس بات پر راضی کیا جارہا ہے کہ وہ دوبارہ اسمبلیوں میں آئے اور اس وقت آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں مدد کرے۔ یہ بدقسمتی ہی سہی لیکن بہرحال زمینی حقائق تو اپنی جگہ ہیں کہ آئی ایم ایف سے نئی قسط پر ہی ملک کی معاشی بحالی کا بڑا نحصار ہے اور اس بات کی تشویش ہر طرف تھی کہ اگر یہ نہ ہوسکا تو پھر گزارہ کیسے ہوگا۔ کیا اس بات نے خان صاحب کو بالآخر مجبور کردیا کہ وہ مارچ کو جلسے میں تبدیل کرکے ختم کریں ؟ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے سنجیدہ طبقات کو بھی ‘ اچھے کاموں کے باوجود ‘ اپنے دورِ حکومت سے بڑی حد تک مایوس کیا تھااور آخری چند ماہ سے اب تک تو اس مایوسی کو پر لگ گئے ہیں ‘ لیکن سنجیدہ طبقات کی بھی خیر ہے۔ بادشاہ گر طبقات میں یہ مایوسی غصے میں بدل گئی ہے اور یہ خان صاحب نے اپنے لیے بہتر راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ تو آخراس رات ایسا کیا ہوا کہ لانگ مارچ بے توقع اور بے مراد ختم ہوا؟ کیا کوئی ترغیب ‘ کوئی ترہیب یا کوئی یقین دہانی ؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کنٹینر سے گریں تو چوٹ بہت لگتی ہے۔ اللہ کرے کہ پی ٹی آئی ان چوٹوں سے جلد صحت یاب ہو۔