مائی باپ! میں ایک کم پڑھا لکھا عام شہری‘ قانون کی سمجھ نہ رکھنے والا‘ غیر سیاسی‘ عام پاکستانی کی حیثیت میں آپ سے مخاطب ہوں۔ ایک درخواست دل میں ہے اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں مخاطب کسے کروں؟یہ درخواست کہاں بھیجوں؟کمشنر کے دفتر‘ وزیراعلیٰ صاحب کے پاس یا وزیر اعظم کے پاس ؟رہنے والا تو میں لاہور کا ہوں‘لیکن معاملہ ایک شہر‘ایک بستی کا نہیں‘ پورے ملک اور کروڑوں لوگوں کا ہے۔ اس لیے یہ کیس تو میرے خیال میں ہر شہر‘ہرصوبے اور ہر افسر کا بنتا ہے۔ میری استطاعت میں کوئی تگڑی سفارش ہے نہ وکیل۔ اس لیے یہ گزارش ہی میرا دائر کردہ مقدمہ سمجھ لیں‘اسی پر دادرسی کر دیں تو میں بہت ممنون ہوں گا۔اور'' میں‘‘ کے لفظ کو بھی ''ہم‘‘سمجھا جائے یعنی مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی۔
مائی باپ! آئے دن ہم یہ دیکھتے‘ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کی تان بالآخر بنیادی حقوق پر آکر ٹوٹتی ہے۔ لانگ مارچ کرنا ہو تو احتجاج کے بنیادی حق کی دہائی دی جاتی ہے۔ لانگ مارچ روکنا ہو تو عوام کے بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے۔ سیاسی گرفتاریاں ہوں تو وہ بھی عوام کے فائدے میں۔ کوئی معاملہ بھی ہو‘ خواہ وہ کتنا ہی سیاسی ہو‘ بنیادی حقوق کی بات سبھی کرتے ہیں۔ معاملات فوری اور اہم ہوں تو رات کو بھی سرکاری دفاتر کھل جاتے ہیں۔ یہ سب ہورہا ہے‘ ہوتا رہا ہے او رہوتا رہے گا۔مجھے تو یہ پتا ہے کہ یہ سب رہنما اپنے معاملات نہ باہر بیٹھ کر نمٹانے کے اہل ہیں‘ نہ ایوانوں میںطے کرسکتے ہیں اس لیے یہی سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔ اب جو عمران خان صاحب دوبارہ لانگ مارچ کے لیے درخواستیں اٹھائے پھرتے ہیں اور جو حکومت والے اسلام آباد میں جلسے جلوس اور دھرنے ممنوع کر رہے ہیں‘ ان سب کا فیصلہ بالآخرآئین اور قانون کے مطابق ہی ہوگا۔مجھ جیساکم پڑھا لکھا یہ پوچھتا ہے تو کیا آپ کے دل سے یہ سوال نہیں اٹھتا ہوگا کہ کیا واقعی یہ لڑائیاں ملک‘ قوم بنیادی حقوق اورآئین کی ہیں یا انا کی جنگیں ہیں؟ خیر‘ یہ بات آپ بہتر جانیں۔ اس وقت تو بات یہ ہے کہ میں بھی کافی دن سے سوچ رہا ہوں کہ اپنا کم از کم ایک بنیادی حق تو آپ کے سامنے رکھوں۔
میں‘ ایک عام شہری‘ ملک سے محبت رکھنے والا‘قوم کے دکھ درد میں شریک ہونے والا‘قانون اورآئین کا احترام اور پاسداری کرنے والا‘یہ مسلسل سوچتا ہوں کہ شاید میری بھی کوئی سن لے۔میں سوچتا ہوں کہ کیا میرے بھی کچھ بنیادی حقوق ہیں ؟کیا میں بھی کسی طرح قابلِ توجہ ہوں ؟کیا میں بھی کوئی مقدمہ اپنے حقوق کے لیے دائر کر سکتا ہوں ؟کیا میں بھی اس سانس گھونٹ دینے والے نظام کے خلاف اپنی سانسوں کے لیے اپیل کرسکتا ہوں؟اور کیا فوری نہ سہی‘کبھی نہ کبھی کوئی بڑا افسر میری تکلیف محسوس کرسکتا ہے ؟
عزت مآب ! میں میٹرک پاس‘ ایک دہاڑی دار مزدور‘لاہور کی نواحی بستی‘شاہدرہ میں رہتا ہوں اور لاہور کے گنجان علاقوں میں روز آکر مزدوری کرتا ہوں۔ دہاڑی نہ لگے تو میرے بچوں کی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔25مارچ کے دن جب میں اپنے روزی کے اڈے پر جانے کے لیے راوی کے پل پر پہنچا تو دیکھا کہ پل پار کرنے کا راستہ بند ہے۔ موٹر سائیکل گزرنے کا بھی راستہ نہیں تھا۔ کسی بھی جگہ سے اور کسی بھی پل سے۔ میری طرح ہزاروں لوگ وہاں بے بس کھڑے تھے۔جب ہم روزی کے اڈے پر نہ پہنچیں تو ہماری اس دن کی مزدوری بھی گئی اور مالک کی ڈانٹ الگ۔ لیکن ان بڑے بڑے کنٹینرز کو پھلانگنا ناممکن تھا۔ اپنے بیوی بچوں کے چہرے ہم سب کے سامنے تھے جو اس امید پر تھے کہ ہم گھر سے نکلے ہیں تو کچھ کما کر لائیں گے۔نہ ہمارا تعلق لانگ مارچ والوں سے تھا نہ ان کو روکنے والوں سے‘لیکن روک ہم پر لگائی گئی۔ ہمارا وہ دن اکارت گیا۔ بس میں یہ سنتا‘ پڑھتا اور کڑھتا رہا کہ میرے انسانی حقوق کے آگے کنٹینر لگانے اور لگوانے والے‘ دونوں انسانی حقوق کی دہائیاں دے رہے ہیں اور سب ان کی بات سن بھی رہے ہیں۔ اور میں‘ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہوں‘میری بات سننے والا کوئی نہیں۔
عالی جناب! کیا راستہ میرا بنیادی حق نہیں ؟ وہ راستہ جو کسی کے لیے بند نہیں کیا جاسکتالیکن ہر سیاسی جماعت‘ ہر حکومت‘ ہر گروہ آئے دن بند کردیتا ہے۔ کیا اپنی دکانوں‘ اپنے روزی کے اڈوں پر جانا میرا بنیادی حق نہیں ہے جو بز ورِ بازو کبھی پولیس‘ کبھی سیاسی جماعتیں‘کبھی جلسے جلوسوںسے بند کروا دیے جاتے ہیں۔ پولیس کی دلیل ہوتی ہے کہ توڑ پھوڑ کا اندیشہ ہے ا س لیے آپ گھر رہیں۔بھلا بتائیے توڑ پھوڑ کا اندیشہ جن کی طرف سے ہوتا ہے‘وہ کھلے اور سڑکوں پر پولیس کے پورے احترام اور پروٹوکول میں چل رہے ہوتے ہیں اور ہم سہمے ہوئے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
حضور! کمزور کی کیا بساط ہوتی ہے۔ یاوہ ظالم کے سامنے سے بھاگ جاتا ہے‘یا روتا ہے۔ہم یہ بار بار کرتے ہیں۔ لیکن اس سے اگر مسئلے حل ہوئے ہوتے تو ہم آنسوؤں کا دریائے راوی بنا دیتے۔ لیکن راستہ بند ہونا‘روزی روٹی سے محروم ہونا تو صرف ایک مسئلہ ہے۔ اس دن راستہ پار کرنے کی کوشش میں ہم نے جو پولیس کی لاٹھیاں کھائیں‘جو گالیاں سنیں‘میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ بھی ان کے اور میرے بنیادی حقوق میں شامل ہے ؟ یہ سب تومجھ جیسوںکی زندگی کا معمول ہے۔میں نے اپنے باپ کو دیکھا تھا‘وہ بھی دہاڑی دار مزدور تھا۔ وہ مالک کی گالیاں بھی سنتا تھا اور ایسے ہی موقعوں پر حکومت کے تھپڑ بھی کھاتا تھا۔ یہی میرا مقدر ہے اور یہی میرے بچوں کا بھی ہوگا۔ شایدیہ بھی ہم سب کے بنیادی حقوق ہیں۔
حضور! حضرت میاں محمد بخش صاحب نے فرمایا تھا: لسے دا کی زور محمدؔ ، نس جانا یا رونا (کمزور کی کیا طاقت ہے بھلا‘یا بھاگ جاتا ہے یا روتا ہے )۔مائی باپ ! میں کمزور بندہ‘ میرے پاس بھاگ جانے اور رونے کے سوا اور کیا راستہ ہے ؟ اگر یہ فریاد آپ کی نظر سے گزرتی ہے اور آپ مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کی بات اور دکھ سمجھ سکتے ہیں تو شاید ہمیں کوئی ایک آدھ حق مل جائے۔ کیا آپ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ جن لوگوں کی دہاڑیاں حکومت اور اپوزیشن کی وجہ سے ماری گئیں‘یہ دونوں ان کی دہاڑی کی رقم ادا کریں؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ لانگ مارچ‘جلسوں‘جلوسوں کی اجازت ہی اس صورت میں دی جائے کہ پہلے ان مزدوروں کا حق ادا کیا جائے جن کے بچے اس دن بھوکے رہیں ؟عالی جناب!مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کرسی پر کون بیٹھتا ہے۔ مجھے اس سے بھی کوئی تعلق نہیں کہ وہ کون سی سیاسی جماعت سے ہے‘ بس وہ راوی کا پل کھلا رکھے‘بس میرا روزی کا اڈہ بند نہ کرے‘ بس وہ مجھے بچوں کے لیے دہاڑی کمانے سے نہ روکے‘ یہ میرے بنیادی حقوق میں ہے۔
لیکن یہ بات کہتے کہتے مجھ ان پڑھ کو شک ہوگیا ہے کہ کیا یہ واقعی میرا حق ہے ؟ اس لیے مائی باپ ! فیصلہ آپ ہی کریں۔یہ میرا وہم تو نہیں؟ کیا بچوں کے لیے کمانا میرے بنیادی حقوق میں آتا ہے ؟