کتنے ہی مشاہیر ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر ان سے ملنے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے لیکن یہ خواہش اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب ٹائم مشین ایجاد ہوجائے۔ اس لیے کہ میرے شعور کی عمر تک پہنچنے تک یہ مشاہیر یا تو دنیا سے رخصت ہو چکے تھے یا کسی ایسے شہر میں آباد تھے جو فقط چشمِ تخیل ہی میں دیکھا جا سکتا تھا۔ خواہشِ ملاقات تیز تر ہوئی اور کچھ نہ بن پڑا تو ان کے تذکرے پڑھنا شروع کیے۔ ان تذکروں کا اپنا لطف تھا۔ چشمِ تصور نے دیکھا کہ اچھا! تو میر انیسؔ کا رہن سہن ایسا تھا۔ جگرؔ مراد آبادی اس وضع قطع اور عادات کے مالک تھے۔ رشید احمد صدیقی علی گڑھ میں اس طرح زندگی گزارتے تھے اور اشرف صبوحی کے دن رات دلّی میں اس طرح گزرتے تھے۔ تشنگی مٹی تو نہیں لیکن تذکرے اور واقعات پڑھ کر کسی حد تک کم ضرور ہوئی۔ یہ تو بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ تذکرے تو پوری شخصیت کا بس ایک دو فیصد ہی بیان کر پاتے ہیں۔ ان کی بساط بس اتنی ہی ہے۔ اور یہ اندازہ بھی اس وقت ہوا جب ان مشاہیر کے تذکرے اور حالات پڑھے جن سے میں خود نہ صرف مل چکا تھا بلکہ اچھی خاصی قربت بھی رہی تھی۔
سراپا کتنی بھی دقت نظر سے کھینچا جائے‘ بات کتنی ہی جزئیات کے ساتھ بیان کی جائے۔ لفظ کتنے ہی سچے اور موزوں ہوں‘ ممدوح کے خد و خال‘ لہجہ‘ آواز کی خصوصیات‘ چال ڈھال‘ عادات اور پسند ناپسند۔ کسی ایک چیز کو بھی اس کے حق کے مطابق بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ ہی نہیں تصویر اور فلم بھی اپنی محدودیت کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ انسانی بساط میں بس یہی کچھ ہے۔
یہ خیال مجھے ہمارے عہد کی نایاب اور باکمال شخصیت جناب ڈاکٹر توصیف تبسم پر اکادمی ادبیا ت پاکستان کی تازہ شائع شدہ کتاب 'توصیف تبسم: شخصیت اور فن‘ پڑھتے ہوئے بار بار آیا۔ یہ بہترین کام مقامی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو جناب ڈاکٹر شیر علی نے بہت عمدگی سے کیا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے اکادمی ادبیات کے ان فیصلہ سازوں کو‘ جنہوں نے پاکستانی ادب کے معمار کے نام سے یہ بہت عمدہ سلسلہ شروع کیا جس میں پاکستان کے نمایاں اور قابلِ فخر ادیبوں اور شاعروں پر نامور اہلِ قلم سے کتابیں لکھوائی گئی ہیں اور اس سلسلے کی بہت سی کتابیں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ اکادمی ادبیات کا وہ دور بھی سب کے سامنے ہے جس میں کام مکمل ہوئے پڑے رہتے تھے اور برسوں اشاعت پذیر نہ ہوتے۔ جب بھی پوچھا جاتا‘ پیسوں کی قلت کا بنا بنایا ایک ہی جواب پکڑا دیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر یوسف خشک خود صاحبِ علم اور محقق تخلیق کار ہیں۔ ان کے آتے ہی اکادمی میں جیسے نئی جان سی پڑ گئی۔ بہت سی آن لائن اور عملی تقاریب ہوئیں۔ رکے ہوئے کام چھاپے گئے اور نئے کام شروع کروائے گئے۔ ایوانِ اعزاز کے نام سے ہال آف فیم کا افتتاح بھی انہی کے دور میں ہوا۔ سابقہ ادوار میں شروع کیے گئے کاموں کا کریڈٹ ان صاحبان کے حصے میں بھی آتا ہے لیکن یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں اکادمی بہتر طور پر فعال ہوئی ہے۔
عام طور پر ہمارا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ رفتگاں کے فضائل بیان کیے جائیں اور ان کے مقام و مرتبے کا ذکر بھی ہوتا رہے‘ لیکن جو مشاہیر ہمارے بیچ بفضلِ خدا موجود ہیں‘ ان کے اعتراف کی صورتیں کم کم ہی دیکھی جاتی ہیں۔ اللہ ڈاکٹر توصیف تبسم کوصحت بھری لمبی عمر عطا فرمائے‘ وہ ہمارے عہد کی باکمال اور نایاب شخصیت ہیں۔ شاعری‘ شعری تربیت‘ نثر‘ تحقیق‘ بچوں کے لیے نظمیں‘ حمد و نعت‘ سلام‘ منقبت‘ یاد داشتیں‘ ان کے دامانِ سخن میں کیا نہیں ہے۔ ان کی یادداشتیں 'بند گلی میں شام‘ ایک طرف ان کے ادبی سفر اور اس عہد کی گویا مصور دستاویز ہے‘ دوسری طرف ان کی کمال نثر اور دلچسپ واقعات نے کتاب ایسی پُر لطف بنا دی ہے کہ پوری پڑھے بغیر رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ان کے شعری کلیات 'آسماں تہ آب‘ چھپ کر آئے تو میں نے جھیل پر جھکا گلاب کے نام سے اس کی تحریری پذیرائی میں اپنا حصہ شامل کیا تھا۔ لیکن بات وہی ہے کہ اظہار کی انسانی بساط ہے ہی کتنی؟
کتاب کے مصنف ڈاکٹر شیر علی خود صاحب مطالعہ‘ صاحبِ قلم شخص ہیں چنانچہ انہوں نے کتاب میں سوانح حیات‘ شاعری‘ تحقیق و تنقید‘ مختلف اصناف اور معاصرین کی آرا کے نام سے جو ابواب قائم کیے ہیں‘ وہ خشک تحریریں نہیں ہیں۔ جابجا توصیف تبسم صاحب کے اپنے اقتباسات سے کتاب مرصع ہے اور پوری کتاب میں یہ تشنگی نہیں ہے کہ فلاں جہت نظر انداز کردی گئی۔ میں کتاب پڑھتا رہا اور میرے سامنے گزرے ماہ و سال کے وہ مناظر گھومتے رہے جن میں میری جناب توصیف تبسم سے ملاقاتیں رہی ہیں اور میں ان سے محبتیں‘ شفقتیں اور داد و تحسین سمیٹتا رہا ہوں۔ اسلام آباد‘ لاہور‘ مشاعرے‘ نشستیں‘ آثار‘ ملاقاتیں سبھی ان منجمد لمحوں کے گواہ ہیں۔ شاید کچھ لوگوں کو یہ علم نہ ہو کہ توصیف تبسم صاحب کا تعلق بدایوں سے ہے اور ہندوستان کے معروف شاعر جناب عرفان صدیقی مرحوم ان کے عزیز تھے۔ وہ وقت مجھے بھولتا ہی نہیں جب عرفان صدیقی مرحوم پاکستان آخری بار آئے تھے‘ اسلام آباد میںعرفان صدیقی‘ ڈاکٹر توصیف تبسم‘ فیصل عجمی‘ ڈاکٹر ریاض مجید‘ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض‘ ثمینہ راجہ مرحومہ اور میں اکٹھے تھے اور کئی دن کمال سرشاری میں گزرے تھے۔ ایک اعلیٰ مشاعرے کا انعقاد بھی فیصل عجمی کی قیام گاہ پر کیا گیا تھا جس کی نظامت اور انتظام ڈاکٹر توصیف کے سپرد تھے۔ انہی دنوں میں عرفان صاحب کے کلیات 'دریا‘ کی بھی اشاعت ہوئی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بس ایک سنہرا خواب دیکھا تھا‘ جس کی لذت آنکھ کھلنے پر بھی باقی ہے۔ میرا یہ شعر ہی میرے حسبِ حال ہے :
وہ دن گزر گئے‘ وہ کیفیت گزرتی نہیں
عجیب دھوپ ہے دیوار سے اترتی نہیں
توصیف تبسم اس مٹی سے بنے ہیں جس میں خاندانی نجابت‘ موروثی اقدار‘ شعری تربیت‘ محبت‘ شفقت‘ ملائم گھلتا لہجہ اور انداز‘ اعلیٰ ذوقِ ادب‘ شاعری نثر بہترین توازن کے ساتھ گوندھے گئے ہوں اور ان سے ایک نایاب پیکر تخلیق کیا گیا ہو۔ کیا اعلیٰ شاعر ہیں اور کیا محبت بھرے انسان۔
زخمِ مضراب سے رستا ہے لہو پوروں کا
کتنا دشوار ہے آواز کو نغمہ کرنا
گھر جو لوٹے تو کہیں دفن کر آئے خود کو
یہ نہ کرتے تو یہاں دربدری تھے ہم بھی
پل پل روپ دکھاتی جاتی دنیا میں
ایک نظر کی فرصت ہے کیا کیا دیکھیں
تمہیں ہر اک سے شکایت سہی مگر توصیفؔ
بتاؤ! جی بھی سکوگے محبتوں کے بغیر
جہت اک اور جہاں میں ہوں اور کوئی نہ ہو
اک اور سمت اسی چار سو کے ہوتے ہوئے
سوال یہ ہے کہ ان آئنوں کی بستی میں
سفر تمام کرے کس طرح کرن اپنا
کر دیا شدتِ احساس نے پتھر توصیفؔ
کوئی روتا ہے تو اب دل نہیں دکھتا میرا
ڈاکٹر یوسف خشک! ایک گراں قدر کتاب کی اشاعت مبارک۔ ڈاکٹر شیر علی! ایک اعلیٰ اور نایاب شخص پر عمدہ کتاب مبارک۔ ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب! مبارک کیا پیش کروں کہ یہ تو آپ کا حق تھا اور اس عہد پر فرض بھی تھا۔ میرا حق اور فرض دونوں تھے کہ میں اپنی محبتیں لفظوں میں آپ کو بھیجوں۔ باقی جو کچھ کہنا چاہتا تھا‘ وہ کہاں کہا جا سکتا ہے۔ محبت کا پورا اظہار انسانی بساط میں ہوتا ہی کہاں ہے۔ آپ ہی نے تو میرے لیے مصرع کہا ہے
جو کہہ رہا ہوں وہ لفظ و بیاں سے باہر ہے