"SUC" (space) message & send to 7575

اونٹ یا گدھا

یہ تحریر کینیڈا اور امریکہ کے بیچ سفر کے دوران لکھی جارہی ہے۔یہاں سفر‘ ملاقاتیں‘مشاعرے‘نشستیں‘انٹرویوز وغیرہ سب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن دل اور دماغ پاکستان میں اٹکے ہوئے ہیں۔ایک طرف مون سون کی بارشوں نے پورے ملک میں جل تھل ایک کر رکھا ہے۔برسات کی بہاریں مچی ہوئی ہیں دوسری طرف سیاست کی موسلا دھار تڑاتڑ نے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ملکی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔جو لوگ اونٹ پر کبھی بیٹھے ہیں اور اپنے اونٹ کے بیٹھنے کا مشاہدہ کیا ہے‘ وہ محاورتاً نہیں حقیقتاً اس کامطلب سمجھتے ہیں۔اونٹ کی لمبی ٹانگوں میں دو گھٹنے ہوتے ہیں؛چنانچہ گھٹنوں کے دو جوڑ وں سے اسے اپنی ٹانگیں عام چوپایوں کی نسبت دوہری تہہ کرلینے میں آسانی ہے۔جب ناواقف سواری یہ سمجھتی ہے کہ اب اونٹ مکمل بیٹھ چکا ہے اس وقت اس کی ٹانگوں کی صرف ایک تہہ دہری ہوئی ہوتی ہے اور ایک باقی رہتی ہے۔یہ دوسری تہہ لگانے کے بعد بھی اس کی کروٹیں باقی ہوتی ہیں اور بالآخرمکمل طور پر وہ کس طرح‘کس کروٹ بیٹھے گا‘ یہ فقط اونٹ ہی کو پتہ ہوتا ہے۔بس یہی حال اس وقت پاکستانی خاص طور پر پنجاب کی سیاست کا ہے۔اس وقت جب ضمنی انتخابات کے نتائج حیران کن طور پر پی ٹی آئی کی جھولی میں آگرے ہیں اور وزارت اعلیٰ کا پھل تقریباً پرویز الٰہی کے ہاتھ میں آچکا تھا‘ آصف زرداری متحرک ہوئے اور چوہدری شجاعت کے گھر ڈیرے ڈال لیے۔مجھے تو یہ سوچ کر اور دیکھ کر ہی افسوس اور دکھ ہوتا ہے کہ چوہدری ظہور الٰہی کے گھرانے میں اس طرح دراڑیں پڑی ہیں کہ چوہدری صاحبان جو یک جان اور کئی قالب تھے‘ اب الگ الگ اپنی سیاستیں چمکا رہے ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے کے خلاف۔زرداری صاحب اس دراڑ سے فائدہ اٹھانے پہنچ گئے اور صورت حال یہ بنی کہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی ہی جماعت کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے کی ہدایت کر رہے ہیں۔قاف لیگ کے ارکان بھی مشکل اور تذبذب میں تھے اور دیکھنے والے بھی انتظار میں تھے کہ
ادھر آتا ہے دیکھیں یا اُدھر پروانہ جاتا ہے
رخ ِروشن ڈپٹی سپیکر کے سامنے تھی اور انہوں نے یہ رولنگ دی کہ قاف لیگ کے 10ووٹ جو چوہدری پرویز الٰہی کو ڈالے گئے تھے‘ مسترد کیے جاتے ہیں۔اکثریت ایک دم اقلیت میں بدل گئی۔حمزہ شہباز جیت گئے ‘یہ ایک دھوبی پٹخا تھا۔لیکن یہ کوئی آخری داؤ تھوڑی تھا۔ہارنے والے سپریم کورٹ چلے گئے اور سپریم کورٹ اب اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔حمزہ شہباز جو اپنے تئیں مکمل وزیر اعلیٰ بن چکے تھے‘ایک بار پھر عبوری وزیراعلیٰ بنائے جاچکے ہیں۔منصفوں کے تبصروں سے تاثر یہی ابھر رہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط قرار پائے گی اور چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھ وہ پھل آجائے گا جسے وہ کافی مدت سے توڑنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو پی ڈی ایم کے لیے مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔اہم ترین صوبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو عبوری مدت میں بھی مرکزی حکومت کو شدیدمشکلات پیش آئیں گی۔گویا بظاہر پنجاب کا حکو متی منصب طے ہوجانے کے بعد اصل کشمکش شروع ہوگی اور دونوں فریق جو حکومتوں میں بیٹھے ہوں گے‘ ایک دوسرے کومسلسل گھائل کرتے رہیں گے۔
یہ جنگ دراصل کن فریقوں کے درمیان ہے؟کیا صرف پی ڈی ایم اتحاد اور پی ٹی آئی کے بیچ؟ کیا سٹیج پر جو کردار نظر آ رہے ہیں وہی تمام تر کردار ہیں؟ کیا جو واقعات رونما ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘وہ اسی طرح ہیں یا سٹیج کے پیچھے بھی ایک ڈرامہ ہورہا ہے؟ مقتدر قوتیں اب کھیل میں کس حد تک شریک ہیں اور آئندہ ان کا پلان کیا ہے؟ عمران خان کی غیر معمولی کامیابی نے کہاں کہاں اضطراب کی لہر دوڑائی ہے؟ اورکیا یہ لہر آئندہ انتخابات کے نتائج کی غمازی کرتی ہے؟ میرے خیال میں تو یہ سب سوال اپنے اندر مکمل جواب بھی رکھتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ کھیل کھیلنے والے خواہ کتنی بے نیازی اور لاتعلقی کا اظہار کریں‘کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔اس بار یہ کھیل سب کی توقع کے برعکس تھا اور بہت سوں کے لیے اطمینان نہیں پریشانی لے کر آیا ۔عمران خان کی طاقت ناقص کارکردگی‘ مہنگائی‘ اور اہم عہدوں پر باموزوں لوگوں کے تقرر کی وجہ سے بہت کمزور پڑچکی تھی‘ اور انہیں ہٹانے والوں کا خیال تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اس ناگہانی وقوعے کے صدمے سے گھٹنوں کے بل آگریں گے۔لیکن یہ توقع نہ صرف یہ کہ پوری نہیں ہوئی بلکہ عمران خان کے لیے ایک طاقتور لہر نے مخالفین کو پریشان کرکے رکھ دیا۔یہی لہر ضمنی انتخابات میں عمران خان کی حیرت انگیز کامیابی کا سبب بنی اور یہی لہر اب بڑے انتخابات تک جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ڈرامے بیک وقت دو ہیں۔ روشنیوں کے بیچ کرداروں کا ڈرامہ اور منظر کے پیچھے تاریکی میں ہیولوں کا ڈرامہ ۔ان ڈراموں میں کردار ایک دوسرے پر مسلسل وار کر رہے ہیں اور مسلسل ایک دوسرے کو گھائل کر رہے ہیں۔
اس وقت پی ڈی ایم اور مقتدر حلقوں کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ عمران خان کی سٹریٹ پاور اور اس کی عوامی پذیرائی کیسے نیچے لائی جائے۔ یہ ایک مسئلہ ہے جو آئندہ انتخابات سے پہلے حل ہونا ضروری ہے ۔ اور اس کا فوری حل کسی کے بھی پاس نظر نہیں آتا۔ اب کہا جارہا ہے کہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف جارحانہ سیاست کرنے پر متفق ہوگئے ہیں ۔ کیسی جارحانہ سیاست؟ کیا اب اس میں کچھ کمی ہے ؟ عمران خان نے تو خیر برا بھلا کہنے کا علم اٹھا رکھا ہے لیکن ان کے مخالفوں نے کون سی کمی کی ہے ؟لیکن اس لڑائی میں لہولہان تو اصل میں پورا ملک ہوگا۔پوری قوم ہوگی ‘بلکہ اس وقت بھی ہورہی ہے۔ اس لہولہان معیشت کے ساتھ جس میں روپے کی قدر گھٹتے گھٹتے بالشتیے جیسی رہ گئی ہے۔اس طرح کی مہنگائی جو پہلے کم از کم ایک عشرے میں اتنے اضافوں کے ساتھ نازل ہوا کرتی تھی‘ اب ہفت روزہ بنیادوں پر اس سے زیادہ اضافوں کے ساتھ سر پر کسی بلا کی طرح آموجود ہوتی ہے۔آئی ایم ایف سے صرف بیانات‘ اعلان اور مطالبے آرہے ہیں۔اس قرض کی قسط آ ہی نہیں رہی جس کا انتظار محبوب کے انتظار کی طرح طویل اور جان لیوا ہوچکا ہے۔جن لوگوں کو قوم کے لیے فوری اور اہم فیصلے کرنے ہیں‘ انہیں اپنے تا دیر اقتدار کے لیے فوری فیصلوں سے ہی فرصت نہیں۔میں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں سے مسلسل مل رہا ہوں اس لیے بتا سکتا ہوں کہ ہر شخص دل گرفتہ اور پریشان ہے۔آنے والے خدشات دلوں کو سہمائے ہوئے ہیں اور گزرتے لمحے دلوں کو زخماتے گزر رہے ہیں۔کچھ معلوم نہیں کیا ہوگا اور یہ اونٹ بالآخر کس کروٹ بیٹھے گا؟
مولانامودودی کا جملہ یاد آتا ہے۔جب ان سے اس وقت کی کروٹیں بدلتی سیاسی صورت حال کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا تو انہوں نے کہا تھا:بھئی!یہ اونٹ ہے ہی نہیں کہ کسی کروٹ بیٹھے۔یہ تو گدھا ہے اور گدھا بیٹھتا نہیں بلکہ لوٹتا اور لیٹتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں