امریکہ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو شمال مشرقی ریاستوں میں نیو جرسی بحر اوقیانوس یعنی اٹلانٹک کے کنارے بہ آسانی نظر آجانے والی ریاست ہے۔ اسی ریاست میں ایک نسبتاًجدید بسایا جانے والا شہر اٹلانٹک سٹی ہے جو ایڈیسن سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ 14جولائی کو ہمیں شمالی امریکہ کے ڈاکٹرز کے بلاوے پرایسو سی ایشن پاکستانی آف فزیشنز آف نارتھ امریکہ (APPNA) کے مشاعرے میں شرکت کے لیے اٹلانٹک سٹی جانا تھا۔ موسم قدرے گرم تھا لیکن ہم لاہوریوں کو جس قیامت خیز گرمی کا عادی ہونا پڑتا ہے اس کے سامنے یہ گرمی خوشگوار موسم ہی محسوس ہورہی تھی۔ امریکہ اور کینیڈا کے حالیہ سفر میں گرمی کافی تھی یعنی درجہ حرارت بھی 75 سے 105 ڈگری فارن ہائٹ تک کا اوپر نیچے سفر کرتا رہا۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ بہت زیادہ گرمی تھی۔ چنانچہ حکومتوں نے ہیٹ وارننگ جاری کر رکھی تھی۔ اس زیادہ سے زیادہ یعنی105 ڈگری فارن ہائٹ کا مطلب ہے 40 ڈگری سنٹی گریڈ۔ اب ایک مسافر لاہوری یہاں کیا بتاتا کہ ہمارے یہاں سخت گرمی میں درجہ حرارت 48 تا 50 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ جانا بھی کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور وہ وقت بھی کئی بار بجلی کے بغیر گزارنا پڑتا ہے۔ اُس گرم ترین دوپہر میں بھی تیز گرم روشنیوں والے بلب جلائے دکان دار کپڑے کے تھان کھول رہے ہوتے ہیں۔ اسی تپتی دوپہر میں ٹریفک وارڈنز موٹی گرم وردی پہنے چوک کے بیچ کھڑے گرد پھانکتے ہیں اور ایک گیلا رومال ان کا ایئر کنڈیشنر ہوتا ہے۔ اسی تپش میں پیاز سے روٹی کھانے والے مزدور سر پر اینٹوں کا سہ منزلہ بوجھ لے کر تین تین منزل چڑھتے ہیں اور اسی تپش میں بیبیاں بارہ پندرہ افراد کے گھرانے کے لیے روٹیاں پکاتی ہیں۔ وہ روٹی جس کے جل جانے یا کچی رہ جانے کا عذاب انہیں الگ بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان تو اس برس بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ایسے حالات عام ہو چکے ہیں اور تقریباً ہر سال ہی عوام کو ان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بات کہاں نکل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ فرح کامران کی گاڑی اور ڈرائیونگ کے ساتھ امجد اسلام امجد‘ سعود عثمانی اور شوکت فہمی پر مشتمل یہ قافلہ دوپہر دو بجے کے لگ بھگ اٹلانٹک سٹی کے لیے نکلا تو گرم دوپہر جوان تھی۔ لیکن سڑک کے دونوں سمت ہریالی اور شادابی نے اس منظر کو تازگی بخشی ہوئی تھی۔ سچ یہ کہ سفر اچھا خاصا ہونے کے باوجود ایسا اچھا کٹا کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ سہ پہر کے قریب اٹلانٹک سٹی کے خوب صورت ساحلی شہر میں داخل ہوئے۔ دائیں بائیں خوب صورت عمارتوں‘ پارکوں اور سڑکوں سے گزرتے ہوئے اندازہ ہونے لگا کہ یہ شہر دراصل ایک بہت بڑی تفریح گاہ ہے۔
اٹلانٹک سٹی جسے اے سی (AC) بھی کہا جاتا ہے‘ کا رقبہ قریب 45 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی تقریباً 39 ہزار نفوس ہے۔ یہ شہرجوئے خانوں (کیسینوز) ہوٹلوں‘ ریتلے ساحلوں‘ بورڈ واکس اور شبانہ سرگرمیوں یعنی نائٹ لائف کا بڑا مرکز ہے۔بورڈ واک لکڑی سے بنے پیدل چلنے کے راستے کو کہتے ہیں اور یہاں یہ راستہ میلوں لمبے ساحل کے ساتھ ساتھ میلوں چلتا چلا جاتاہے۔ یہ نیو جرسی میں اسی طرح کا ایک شہر ہے جیسے ریاست نیواڈا میں لاس ویگاس ہے۔ بحر اوقیانوس کا نیلا پانی اس کی سنہری ریت کو چومتا ہے اور گرمیوں کے موسم میں یہ شہر خاص طور پرسیاحت کا مرکز بنا رہتا ہے کیونکہ شدید گرمی سے ستائے امریکی اسی سیاحتی منزل کا رُخ کرتے ہیں جولائی اس شہر کو دیکھنے کا سب سے بہتر مہینہ ہے۔ اور ہم اسی مہینے میں پہنچے تھے۔
ہم حرّاہ ریزارٹس میں داخل ہوئے جہاں APPNA کی سہ روزہ تقریبات منعقد ہورہی تھیں۔ یہیں ہمارے قیام کا انتظام بھی تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ریزارٹس ساحلی مقام پر خالص تفریحی اور چھٹیاں گزارنے کے مقصد کے تحت بنائی جانے والی عمارت یا ہوٹل ہوتے ہیں جبکہ عام ہوٹل خالص تفریحی مقاصد کے لیے نہیں ہوتے۔ حرّاہ ریزارٹس دراصل کئی ٹاورز اور عمارتوں پر مشتمل ایک خوب صورت اور جدید کمپلیکس تھا۔ غالب کا مصرع سنا ہے نا:
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
تو بس ری سیپشن پر چیک اِن کے لیے پہنچتے پہنچتے پورا کیسینو ہمارے سامنے کھل گیا۔ جابجا مشینوں پر بیٹھے خواتین و حضرات اپنی اپنی قسمت آزما رہے تھے۔کچھ کے چہروں پر خوشی اور کچھ کی پیشانیوں پر لکیریں دیکھ کر ان کے موجودہ لمحات کی قسمتوں کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ یہیں ہماری ملاقات ہمارے میزبان سعید نقوی سے ہوئی اور دیگر دوستوں سے بھی جو انہی سہ روزہ تقریبات کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سب اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہوئے جو دراصل خوب صورت سویٹس تھے اور ان کی کھڑکیوں کا رخ بھی سمندر کی طرف تھا۔ چمکیلی دھوپ میں نیلا سمندر لہریں لیتا تھا تو کرنوں کی چھوٹ کھڑکی کے بڑے شیشے پر پڑتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں سورج کا رنگ زرد ہونے لگا اور اب یہ طلائی تھال سمندر میں غرق ہونے جا رہا تھا۔ کیا کمال شعر کہا تھا احسان دانش صاحب نے :
شام آئی سمندر میں چلا ڈوبنے سورج
اک روز ترے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی
ڈاکٹر حنا خان‘ جو نیشول‘ ٹینیسی ریاست سے یہاں شرکت کے لیے آئی تھیں‘ دیرینہ دوست ہیں۔ صاحبِ مطالعہ‘ تخلیق کار اور عمدہ شاعرہ ہیں۔ انہوں نے اپنے چینل کے لیے میرے انٹرویو کی ریکارڈنگ پہلے سے طے کر رکھی تھی۔ انٹرویو کے سوال عام ڈگر سے ہٹ کر تھے اور ان موضوعات پر‘ جو اہم بھی ہیں اور ان پر بات بھی قدرے کم ہوتی ہے۔ اس لیے اس انٹرویو اور بعد کی گپ شپ کا لطف رہا۔ مشاعرے سے پہلے عشائیہ تھا۔ اس میں مزید شعراء سے ملاقات ہوئی لیکن جناب افتخار عارف سے ملاقات کا ہنوز انتظار تھا۔ افتخار بھائی نے بہت ہمت کی تھی کہ علالت اور کمزوری کے باوجود اسلام آباد سے اس مشاعرے کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان جیسے باکمال شاعر اور صاحبِ مطالعہ حرف کار ہمارے یہاں ہیں ہی کتنے۔ افتخار حسین عارف ریڈیو پاکستان اورپاکستان ٹیلی وژن سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ''کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبیداللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ ہر بار ملاقات میں ان سے کوئی نکتہ سیکھنے کو ملتا ہے اور اسی لیے ان سے ملاقات کا انتظار بھی رہتا ہے۔ سو یہ خواہش طعام گاہ میں نہیں مشاعرہ گاہ میں پوری ہوئی۔ لیکن ملاقات بعد میں کرواتا ہوں پہلے ان کے ان اشعار سے مل لیجیے :
بس ایک خواب کی صورت کہیں ہے گھر میرا
مکاں کے ہوتے ہوئے لا مکاں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے