اس بار یومِ آزادی امریکہ میں گزرا۔ میں نے یومِ آزادی پر بہت بار امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی تصویریں اور وڈیوز دیکھیں اور ہر بار اُس خوشی اور طمانیت کا احساس ہوا جو اپنی شناخت رکھنے والی ایک قوم کے فرد کو ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تجربہ نیا اور منفرد تھا۔ شکاگو میں قونصل جنرل پاکستان جناب طارق کریم سے مارچ 2022ء میں تعارف ہوا تھا جب اردو انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر شکاگو آنا ہوا تھا۔ اس تقریب میں جناب طارق کریم مہمانِ خصوصی کی حیثیت میں اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ میری شاعری کو بہت پسند کیا تھا اور مجھے اردو انسٹیٹیوٹ کی طرف سے دیا گیا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عنایت کیا تھا۔ ان سے اس وقت یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگلی بار شکاگو آمد پر میں قونصل خانے کی دعوت پر ان کے ہاں بھی جاؤں گا۔ اب میری آمد 14اگست کے موقع پر ہوئی تو انہوں نے مجھے گلینڈل ہائٹس میں یومِ آزادی کی تقریب میں شریک ہونے اور وطن کے حوالے سے شاعری سنانے کی دعوت بھی دی۔ شکاگو میں ڈیوون سٹریٹ پر 14اگست کی صبح ایک ریلی میں پاکستانی مرد و خواتین اپنے جھنڈوں‘ اپنے نعروں اور اپنے بچوں کے ساتھ بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ یہ تقریب بڑی روح پرور اور شاندار ہوتی ہے۔ شام کو گلینڈل ہائٹس کے ایک پارک میں ایک اور اجتماع ہوتا ہے جو یومِ آزادی پر ایک میلے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستانی گھرانے اس میں بھی بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ شاعری‘ قومی ترانوں سمیت یہ ایک رنگا رنگ ثقافتی اجتماع ہوتا ہے۔ میں اس اجتماع میں شریک تھا اور سوچ رہا تھا کہ مٹی کا رشتہ بھی کیسا عجیب رشتہ ہے۔ ہزاروں میل اور سال ہا سال کے فاصلوں پر بسے ہوئے لوگ مٹی کی اس خوشبو کو یاد کرتے اور زمین کے اس ٹکڑے پر اپنی ملکیت کا جشن مناتے ہیں جو ہمارا اور صرف ہمارا ہے۔ شکاگو کے دوست بھی بتا رہے تھے کہ اس سال یہاں پاکستانیوں کی تعداد اور جوش و خروش سابقہ سالوں سے زیادہ رہا۔ 14اگست کو یہاں موسم ہلکی رم جھم کا تھا اور قدرے خنک ہوا چل رہی تھی۔ خدشہ تھا کہ بارش ہونے کی صورت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے سینکڑوں پاکستانیوں کے لیے مشکل ہوگی اور تقریب درہم برہم ہو جائے گی لیکن گھٹائیں رم جھم سے آگے نہیں بڑھیں۔ گلینڈل ہائٹس کے خوب صورت وسیع پارک میں جوق در جوق پاکستانی چلے آرہے تھے۔ قونصل جنرل پاکستان جناب طارق کریم نے‘ جو شکاگو میں پاکستانیوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہیں‘ تقریب میں پاکستانی پرچم لہرایا۔ تقریب کی نظامت ہمارے شاعر دوست نظر نقوی نے بہت عمدگی سے کی۔ تقریب میں پاکستانی ہی نہیں بلکہ امریکی شہری‘ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے نمائندے بھی کافی تعداد میں شریک تھے۔ اور میئر گلینڈل ہائٹس سلمان اقبال‘ جو پاکستانی ہیں‘ بھی اس تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ ان سب کی مختصر گفتگو میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ کانوں سے روح تک اترتا تھا۔ جب مجھے بھرپور تعارف کے ساتھ سٹیج پر دعوت دی گئی تو زیادہ گفتگو کا تو موقع تھا ہی نہیں لیکن میں نے درج ذیل پیغام بہت اختصار کے ساتھ حاضرین کو پہنچایا۔ یہاں میں وہ تفصیل کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم پاکستانی پاکستان کے صرف سکھ کے ساتھی نہیں ہیں‘ ہم اس کے دکھوں کے ساتھی بھی ہیں۔ ہم اس کے زخموں‘ اس کی تکلیفوں اور اس کی بھرپور مخالفتوں کے جواب میں بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ان خود غرضوں میں نہیں ہیں جو صرف اپنے آپ کو اور صرف اپنے مستقبل کو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی دھرتی ماں کے ساتھ اس وقت بھی موجود ہیں جب اس کو اپنے باسیوں کی شدید ضرورت ہے۔ ہم ان موقع پرستوں میں نہیں ہیں جو اس ملک سے فائدہ اٹھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن جب اس کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ دور کھڑے ہوکر اس پر تبرا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ان بے حسوں میں نہیں ہیں جو سرکاری اور نجی اداروں میں اسی ملک سے رزق اور سایہ حاصل کرتے ہیں‘ پوری مراعات حاصل کرتے ہیں لیکن اس ملک اور اس قوم سے محبت کی رمق تک دل میں نہیں رکھتے۔ ہم ان مفاد پرستوں میں نہیں ہیں جو جھوٹے کاغذات دے کر مختلف ممالک کی رہائشوں‘ بے روزگاری الاؤنس اور دیگر اقسام کی سرکاری امداد پر گزارہ کرتے ہیں اور پاکستانی قوم کو خودداری کے درس دیتے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہیں جو پاکستان کو صرف سستی شاپنگ‘ اپنے اعزاز میں تقریبات‘ کانفرنسوں اور مشاعروں کی جگہ سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ اس مٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم ان بے ضمیروں میں نہیں ہیں جو ذاتی مفاد کے لیے سوشل میڈیا پر ملک اور قوم کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ ہم ان میں بھی نہیں ہیں جو جان بوجھ کر صرف کالا ہی کالا دیکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے دن بھی اُن مخالفوں اور حریفوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھا جن کی تمام تر چیخ و پکار‘ شور‘ واویلے‘ سازشوں اور گٹھ جوڑ کے باوجود یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ آج بھی 14اگست ان تمام مخالفوں‘ منافقوں اور حریفوں کے منہ پر 2022ء کا طمانچہ ہے جو پورا سال کسی نہ کسی طریقے سے اس کے وجود پر طعن و تشنیع اور اس میں بسنے والوں سے نفرت کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ چند سو یا چند ہزار لوگ خواہ ہمارے درمیان موجود ہوں یا اپنی کمیں گاہوں میں مقیم ہوں انہیں ہر باشعور پاکستانی پہچانتا ہے اور ان کے ہر طعن و تشنیع‘ مخالفت‘ سازش اور استہزا کا ایک ہی جواب دیتا ہے۔ اور وہ جواب ہے ''پاکستان زندہ باد‘‘۔
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آبا نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا
گھر سے نکلے تھے تو اِک دشتِ فنا کی صورت
راہ میں صرف سفر، صرف سفر رکھا تھا
دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا
جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اِسی خاک میں زر کھا تھا
روح پر نقش تھے وہ نقش ابھی تک جن میں
رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا
دل میں سر سبز تھے اُس پیڑ کے پتّے جس پر
دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا
کٹتے دیکھے تھے وہ برگد بھی، جنہوں نے خود کو
مدتوں دھوپ کی بستی میں شجر رکھا تھا
چوڑیاں ٹوٹ کے بکھری تھیں ہر اک آنگن میں
اک کنواں تھا کہ تمنّاؤں سے بھر رکھا تھا
راہ تھی سُرخ گلابوں کے لہو سے روشن
پاؤں رکھا نہیں جاتا تھا، مگر رکھا تھا
قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے
خواب کے پار کوئی خوابِ دگر رکھا تھا
تیرگی چیر کے آتے ہوئے رستوں کے لیے
ایک مہتاب سرِ راہ گزر رکھا تھا
حرفِ اظہار میں حائل تھیں فصیلیں لیکن
رکھنے والے نے خموشی میں اثر رکھا تھا
لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے سعودؔ
میرے آبا نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا