"SUC" (space) message & send to 7575

شجر کھڑے ہیں ترا انتظار کرتے ہوئے

لمحۂ موجود میں جناب افتخار عارف اردو زبان وادب کا نایاب اور منفرد اثاثہ ہیں ۔نہایت صاحبِ مطالعہ ‘ باکمال شاعر اورمشاہیر کے بیچ اور ان کی ہمراہی میں بھرپور ادبی زندگی گزارنے والے۔ان تینوں اوصاف سے مزین اور کون ہوگا ؟ اٹلانٹک سٹی میں ''اپنا‘‘ کے مشاعرے کی صدارت انہی کو سونپی گئی اور آفرین ہے ان پر کہ علالت‘ کمزوری اور صحت کے دیگر مسائل کے باوجود اسلام آبا دسے اٹلانٹک سٹی کا لمبا سفر کرکے مشاعرے میں شریک ہوئے اور آخر تک شریک رہے ۔ بہت معذرت کے ساتھ کہنا ہوگا کہ عموماً مشاعرے کے صدور دیگر شعرا اور مشاعرے کی کارروائی سے بے نیاز بلکہ بیزار نظر آتے رہنے میں اپنی بڑائی سمجھتے ہیں اور دیگر شعرا کو دلچسپی سے سننے کے بجائے اونگھتے رہناانہیں زیادہ مرغوب ہوتا ہے ۔ لیکن میں نے جناب احمد ندیم قاسمی کو دیکھا ہے کہ وہ بطورِ صدر مشاعرے یا نشست کے آخر تک پڑھنے والے کی طرف متوجہ رہتے تھے۔یہی وصف جناب افتخار عارف میں ہے ۔ وہ مکمل حاضری کے ساتھ مشاعرے اور محفل میں موجود رہتے ہیں ۔ اللہ انہیں مکمل صحت اور توانائیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔
اس مشاعرے میں پاکستانی اور بھارتی شعرا اور امریکہ میں مقیم اردو شاعروں کی کہکشاں موجود تھی اور ظریفانہ شاعری کی نمائندگی بھی۔ چونکہ مشاعرہ ''اپنا‘‘ کی سہ روزہ تقریبا ت کا حصہ تھا اور بیک وقت دو دو تین پروگرام ہورہے تھے اس لیے موسیقی کا ایک پروگرام بھی مشاعرے کے متوازی منعقد ہورہا تھا۔ اس بنا پر بجا طور پر خدشہ تھا کہ مشاعرے میں سامعین کی تعداد کم ہوگی ‘ لیکن مشاعرہ ہونے سے پہلے ہی سامعین کی خاصی بڑی تعداد ہال میں موجود تھی اور دورانِ مشاعرہ مزید سامعین مسلسل شامل ہوتے رہے ۔ حتیٰ کہ کرسیاں کم پڑگئیں اور لوگ کھڑے ہوکر اپنے پسندیدہ شاعروں کو سنتے رہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات تھی لیکن ایک ستم ظریف نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ وجہ یہ ہے کہ مغنیہ برا گاتی ہے اور شکل بھی جاذبِ توجہ نہیں۔ظاہر ہے یہ جملہ برائے جملہ تھا‘ اصل بات یہ ہے کہ نامور شعرا کی کشش آج بھی اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو کھینچتی ہے ۔
عمدہ اور بھرپور مشاعرہ رات گئے ختم ہوا توسب کو بھوک لگ چکی تھی۔ شکم سیری ہوئی اور کمروں کا رخ کیا تونیند کی دیوی نے جلد ہی آغوش میں لے لیا۔اگلے دن ہمیں ناشتے کے فورا بعد نیو جرسی کا رخ کرنا تھا کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی مصروفیت تھی ۔نیو آرک ایئر پورٹ سے میری شام کی فلائٹ تھی جس سے مجھے ٹورنٹو پہنچنا تھا۔اٹلانٹک سٹی سے نیو جرسی تک کا سفر بہت یادگار تھا ۔گاڑی میں جناب افتخار عارف بھی ساتھ تھے؛ چنانچہ واپسی کا تمام راستہ ادبی چٹکلوں ‘ علمی نکتوں اور پُرلطف تبصروں میں گزرا۔گاڑی کا یکجا سفر جسے لطف ِ رواں کہنا چاہیے ‘ تا دیر یاد رہے گا۔ اسی شام ایک خوش ذوق نوجوان نے مجھے ایئر پورٹ پہنچایا۔ایئرکینیڈا کے کاؤنٹر پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ سامان کے ایک بیگ کی فیس 30ڈالرز دینی ہوگی۔اور یہ فیس نقد رقم کی شکل میں نہیں دی جاسکتی ۔ خیر میرے پاس کارڈ تو موجود تھا لیکن مزید پریشانی یہ تھی کہ ایئر کینیڈا کی اپیلی کیشن جو میں نے اپنے میزبان دوست کی تاکید کی وجہ سے ڈاؤن لوڈ تو کرلی تھی ‘لیکن اس فارم کو پر کرنا بھول گیا تھا۔ اس کاؤنٹر پر اس کی فوری ضرورت تھی ۔بہرحال یہ مرحلہ بھی سر ہوا اور سکیورٹی وغیرہ کے مراحل سے گزرتا ہوا گیٹ تک پہنچا۔ کینیڈا کا یہ میرا پہلا سفر تھااور ایک اجنبی زمین کو دیکھنا ہر مسافر کے لیے تجسس اور دلچسپی کا ایک نیا باب ہوا کرتا ہے ۔
EWR-Liberty Intl یعنی نیو آرک ایئر پورٹ سے YYZ-Pearson intl. یعنی ٹورنٹو ایئر پورٹ تک ایک گھنٹہ پینتیس منٹ کی فلائٹ ہے۔ لیکن جہاز میںایک گھنٹہ دیر تھی یعنی پہلے 8:20پر ٹورنٹو پہنچنے والی فلائٹ کو اب 9:20پر پہنچنا تھا۔میں وقت سے کافی پہلے پہنچ گیا تھا اوراب بس انتظار۔ہماری تو شاید قسمت ہی میں انتظار ہے۔کبھی کسی کا اور کبھی کسی کا۔
ٹھہر ٹھہر کے زمیں سایہ دار کرتے ہوئے
شجر کھڑے ہیں ترا انتظار کرتے ہوئے
مجھے خیال آیا کہ ہم پاکستانی ایئر لائنز کی اس طرح کی تاخیر پر سخت غصہ کیا کرتے ہیں ‘ طرح طرح کے نقائص نکالتے ہیں اور بات بات پر غیر ملکی مثالیں ڈھونڈتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم غیر ملکوں کی وہ بری مثالیں نہیں دکھاتے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آتی ہیں اور جو نہایت ناقص کارکردگی ‘اور بد انتظامی کی مثالیں ہوتی ہیں ۔ میرے تجربے میں بار بار مختلف بین الاقوامی ‘مقامی ‘بڑی اور چھوٹی ایئر لائنز کے واقعات ہیں جن کا کوئی دفاع نہیں کیا جاسکتا۔میں گزشتہ تحریروں میں ٹرکش مثالیں پیش کرچکا ہوں اس لیے اس جھوٹ سے باہر آجانا چاہیے کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔
اس شام ٹورنٹو کی فلائٹ کے انتظار میں گیٹ پر بیٹھے ہوئے‘اور آلو کے چپس کی دھار سے وقت کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے عجیب منظر دیکھا۔ ایئر کینیڈا کی ایک خاتون نے سب مسافروں کو حکم دیا کہ جو کیبن بیگ مسافروں کے پاس ہیں‘انہیں سٹیل کے ایک فریم میں فٹ کریں جس کی لمبائی ‘چوڑائی اور موٹائی ان کے معیار کے مطابق تھی ۔ سب باری باری اس حکم کی تعمیل میں اپنے اپنے کیبن بیگ اس فریم میں فٹ کرتے رہے ‘ جن کے بیگ فٹ نہیں آسکے‘خواہ ایک انچ یا اس سے کم کا بھی فرق تھا‘ ان کی قطار الگ کردی گئی۔ شکر ہے کہ میرا بیگ فٹ آگیا اور مجھے جہاز میں داخلے کا پروانہ مل گیا ۔الگ قطار والوں پر کیا گزری ‘شاید انہیں ایئر لائنز کو جرمانہ ادا کرنا پڑا ہوگا اور یہی اس ساری کارروائی کا مقصد بھی تھا۔اگر آپ پر یہی سب پاکستانی ایئر لائنز کی پرواز میں گزرے تو آپ کیا کریں گے؟ سچ سچ بتائیے گا۔جہاز میں داخل ہوکر بھی ابھی انتظارِ ساغر مزید کھینچنا تھا۔کافی دیر بیٹھے رہنے اور ٹیک آف نہ ہونے پر اعلان کیا گیا کہ سامان کی ایک ٹرالی کا مسئلہ ہے اس لیے مزید دیر لگے گی۔ میں میزبانوں کواس تاخیر کا بتا چکا تھا‘لیکن اس مزید تاخیر کے بعد مجھے یقین تھا کہ مجھے ایئر پورٹ سے لینے کے بعد جو پروگرام انہوں نے بنا رکھا ہے ‘ وہ اس سامان کی ٹرالی نے چوپٹ کردیا ہوگا۔آخرجہاز رات کی تاریکی میں اڑا اور رات کے اندھیرے میں ضم ہوتا چلا گیا۔پونے دو گھنٹے بعد اس نے ٹورنٹو کی روشنیوں کی طرف اترنا شروع کیا ۔
جہاز سے نکلے اور اس کیروسل کی طرف چلے جہاں سامان آنا تھا۔ الیکٹرانک بورڈ کے اعلان کے مطابق11نمبر کیروسل پر اس فلائٹ کا سامان آنا تھا۔اب انتظار کررہے ہیں اور سامان نہیں آرہا ۔ باہر دوست انتظار کر رہے ہیں اور ان سے شرمندگی ہورہی ہے‘ لیکن سامان جو ایک ہی بیگ تھا‘ اس کی کچھ خبر نہیں ۔ آدھ گھنٹے انتظار کے بعد کسی نے خوشخبری دی کہ نہیں صاحب! اب11نمبر پر نہیں 8نمبر پر سامان آئے گا۔ مسافر ادھر لپکے۔اب بھوک بھی لگ چکی تھی۔ مزید دس منٹ انتظار کے بعد میرا بیگ دور سے خراماں خراماں اس طرح آتا دکھائی دیا جس طرح کوئی بے فکرا رات کھانے کے بعد چہل قدمی کرنے نکلا ہو۔میں نے ایسے اسے پکڑا جیسے کوئی قربانی کا بکرا کان سے پکڑا جاتا ہے اور اسے کھینچتا اور گھسیٹا ہوا باہر نکلا‘جہاں کئی پیارے دوست میرا انتظار کر رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں