"SUC" (space) message & send to 7575

ہوا کی سرگوشی

سکون ‘اطمینان ‘خامشی‘ شانتی۔ایری جھیل (Erie lake)کلیو لینڈ‘ اوہائیو ‘امریکہ کو آپ کوئی بھی نام دے دیں اسے جچتا ہے۔ہوا کی سرسراہٹ اور لہروں کی سرگوشیاں نہ ہوں تو یہ سکون مکمل سکوت میں ڈھل جاتا ہے۔حدِ نظر تک پھیلی ہوئی ایری جھیل جو شمالی امریکہ کی مزید چار بڑی قدرتی جھیلوں سے جڑی ہوئی ہے اور جو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کا تعین کرتی ہے۔اس پار کی نصف جھیل امریکہ کی اور اُس پار کی آدھی جھیل کینیڈا کی۔پانی پر یہ سرحدی لکیر کیسے کھنچی ہے معلوم نہیں۔اس جھیل کے بے پایاں حسن سے فرصت ملے تو تکنیکی معاملوں پر دھیان دیا جائے۔
جھیل کنارے یہ شہر بسا ہے ۔ جھیل کیا سمندر ہی کہیے جس کا دوسرا سرا نظر ہی نہیں آتا۔اورکیا خوبصورت پارک ہے اس کے کنارے۔ یہاں لوگ ٹک بیٹھ کر دل شاد کرنے آتے ہیں اور تازہ دم ہوکر اٹھتے ہیں ۔ منچلے واٹر سکوٹر‘سپیڈ بوٹس اور کشتی رانی سے لطف اٹھاتے ہیں ۔ خنک پانی کو چھو کر آتی ہواسرگوشیاں کرتی ہے ‘قصے سناتی ہے اور ہر ایک کو چھیڑتی چلی جاتی ہے ۔ ایری جھیل کا نام اس کے مقامی لوگوں یعنی ایری قبیلے کے نام پر ہے جو اس کے جنوبی کنارے پر اسی جگہ آباد تھے جہاں اب کلیو لینڈ بسا ہوا ہے اورجو ایروکوئین ( iroquoian )زبان بولتے تھے۔اس زبان میں ایریل ہونان (erielhonan) کا لفظی مطلب ہے لمبی دم۔ایری اسی لفظ کا مخفف ہے ۔
میں نے دور تک پھیلے ایری جھیل کے نیلے پانیوں کو دیکھا اور اس کی سطح کو چھو کر مجھ تک پہنچتی یخ بستہ ہوا کی سرگوشی سنی۔اس سرگوشی میں کہیں ایری قبائل کی صدائیں اور سسکیاں بھی شامل تھیں۔کلیو لینڈکی تاریخ میں کم از کم چار ایسے ریکارڈملتے ہیں جن میں سفید فام یورپی اقوام نے مقامی قبیلوں کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔مردوں‘ عورتوں اوربچوں سمیت۔اس سفید چمڑی پر جو لہو رنگ چھینٹے ہیں کیا وہ کبھی دھل سکیں گے؟ شاید کبھی نہیں۔تاریخ بدلی نہیں جاسکتی ۔ظلم پھر ظلم ہی رہتا ہے ۔ چاہے امریکی ریڈ انڈینز کے لیے سہولیات سے مزین علیحدہ بستیاں ہی کیوں نہ آباد کردی جائیںیا چاہے صدیوں بعد آسٹریلیا کا وزیر اعظم سفید فام مظالم پر مقامی ابورجینیز سے معافی ہی کیوں نہ مانگ لے ۔
یہ تو گرمیاں تھیں لیکن خزاں کے رنگ ریاست اوہائیو میں زیادہ شوخ ہوتے ہیں اور زیادہ بے صبرے بھی۔اکتوبر کے آخری ایام میں زرد‘ نارنجی ‘گلابی ‘شہابی اور عنبری رنگ درختوں پر دہکنا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ آگ آتشی رنگ پکڑتی ہے اور آگ کے پاس بیٹھنے کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔
22جولائی 1796ء کو کنکٹی کٹ لینڈ کمپنی نے اس شہر کا نام اپنے لیڈر جنرل موسس کلیو لینڈ کے نام پر رکھا ۔ 1832 ء میں کلیو لینڈ میں تیزی سے آبادی کا اضافہ اس وقت ہوا جب ایک نہر اوہائیو‘ ایری کنال کے ذریعے کلیو لینڈبحر اوقیانوس سے جڑ گیا ۔ بعد میں کلیو لینڈ سٹیل کی صنعت اور برآمد کے لیے اہم شہر بن گیا او رریاست اوہائیو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دیگر ریاستوں پر فوقیت حاصل کرگئی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ غیر ہسپانوی آبادی یہاں نوے فیصد سے زیادہ ہے جبکہ دیگر ریاستوں میں ہسپانیہ نژاد نسلوں نے اکثریت حاصل کی ہوئی تھی ۔1960ء کی دہائی میں امریکی کالی نسل نے جو صدیوں سے پستی چلی آئی تھی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جد و جہد تیز کردی اور کلیو لینڈ میں بھی 18 جولائی 1966ء کو نسلی فسادات پھوٹ پڑے ۔نومبر 1967ء کو کلیو لینڈ وہ پہلا بڑا امریکی شہر بن گیا جہاں سیاہ فام میئر شہر کا انتظام کرتا تھا۔
کلیو لینڈچھوٹا ‘خاموش اور پرسکون شہر ہے۔بھاگتے دوڑتے شہروں کی ہنگامہ خیزی سے دور۔ہجوم ‘شاپنگ مالز اور ٹریفک کی قطاروں سے الگ۔ایک شہر جو ایک زمانے تک آٹو موبائیل انڈسٹری کا بڑا مرکز رہا۔جہاں جنرل موٹرز اور فورڈ نے اپنی شہنشاہیت قائم کی اور جو اب دنیا بھر کے مشہور ترین صحت کے اداروں سے پہچانا جاتا ہے ۔ایسے شفا خانے دنیا بھر میں جن کی مثال کم کم ہے۔اس وقت کلیو لینڈ صحت اور علاج کے شعبے میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے.۔یہ امتیازی حیثیت اسے یونیورسٹی ہاسپٹلز (University Hospitals)اور کلیو لینڈ کلینک (Cleveland clinic)نامی اداروں نے دی ہے۔شہر میں جابجا انہی دو اداروں کی عمارتیں پھیلی نظر آتی ہیں۔ ماہر ترین ڈاکٹرز اور محقق ان اداروں سے وابستہ ہیں اور کلیو لینڈ ان اداروں پر بجا طور پر فخر کرتا ہے ۔اگرچہ کاروباری مراکز میں دنیا کی بڑی کمپنیاں بھی موجود ہیں لیکن ان خاموش عمارتوں میں گہما گہمی کم کم ہے ۔
ریاست اوہائیو کا دارالحکومت تو کولمبس ہے لیکن کلیو لینڈ اہم ترین شہر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایری جھیل کے ذریعے یہ بحر اوقیانوس سے منسلک ہے اور جہاز اس طرح یہاں آتے جاتے ہیں جیسے یہ شہر خود سمندر کے کنارے ہو۔چونکہ یہ شہر گاڑیوں کی صنعت کا بڑا مرکز رہا ہے اسی لیے یہاں ہنڈا اور ٹویوٹا نے بھی اپنے بڑے پلانٹس لگائے ہیں۔گاڑیوں کے شورومز کافی تعداد میں ہیں۔سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے ایک شوروم کے باہر Pre Owned Cars(پہلے سے ملکیتی کار) لکھا دیکھ کر لطف آیا کہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا کیا خوش نما عنوان رکھا ہے۔
یہاں اگرچہ پاکستانی برادری چھوٹی ہے لیکن ان میں اہم لوگ موجود ہیں۔ اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے شعرا یہ مشعل روشن رکھے ہوئے ہیں۔اردو زبان و ادب کے جو فوری خطرات لاحق ہیں اور جو اردو کی نئی بستیوں کوزیادہ درپیش ہیںجن میں امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک شامل ہیں ‘ یہی ہے کہ نئی نسل اردو زبان سے دور ہے اور اسے تعلیمی لحاظ سے تو اپنانے کی بات الگ ‘ مادری زبان کے طور پر بھی سینے سے لگانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہ مسئلہ اگرچہ پاکستان ہندوستان سمیت دنیا بھر میں درپیش ہے لیکن امریکہ میں خاص طور پر اس کی رفتار تیز ہے۔ ایسے میں معاشرتی میل جول ‘ ثقافتی تقاریب‘قومی دنوں اور تہواروں کا اہتمام اور مشاعرے ہی وہ دلچسپی کی چیزیں ہیں جن سے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا کام لیا جارہا ہے ۔ یہ الگ بات کہ مشاعروں میں نوجوان نسل کی موجودگی خال خال محسوس ہوتی ہے ۔سوال اور بہت بڑا سوال یہ ہے کہ جب یہ نسل جو اردو زبان و ادب کی پروردہ ہے ‘اس سے عشق رکھتی ہے اور اپنے وطن کی جڑیں اپنے اندر اب تک محسوس کرتی ہے ‘ ختم ہوجائے گی تو اس ثقافت کا کیا ہوگا ؟ کیا اگلی نسل یہ مشعل ہاتھ میں تھام کر دوڑ سکے گی ۔ اس کا جواب آسان نہیں اور سچ یہ ہے کہ جواب سے آنکھیں چرا لینے ہی میں عافیت محسوس ہوتی ہے ۔
ایری جھیل کی سطح کو چھو کر آتی ہوا نے مجھ سے سرگوشی میں کہا :یہاں اسی مٹی پر ایری قبیلہ آباد تھا ۔ان کی ایک زبان اور ایک تہذیب تھی ‘ ان کے اپنے تہوار اور اپنی خوشیاں تھیں۔پھر وقت نے ایک کروٹ لی اور سب مٹ گیا ۔ وہ وقت اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہ کرسکے ۔کیا تم اپنی زبان ‘ اپنی ثقافت‘ اپنی تہذیب اور اپنے تہوار بچا پاؤ گے ؟یخ بستہ ہوا میں جسم نے ایک جھرجھری لی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں کہ اس کا جواب میرا دماغ دیتا تھا ‘ میرا دل نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں