ایبٹ آباد سے نتھیا گلی اوردیگر گلیات سے ہوکر مری پہنچنا ہمیشہ سے ایک خوش کن تجربہ رہاہے ۔ایک تو آٹھ ہزار فٹ کی اچھی خاصی بلندی تک یہ چوڑی سڑک بہت سہج طریقے سے پہنچاتی ہے ۔وہ سارے مسائل ،وہ سارا دور تو پیچھے رہ گیا جس میں پہاڑوں کا سفر ایک بڑی آزمائش تھی۔ وہ پہاڑی راستوں کے خطرناک موڑ،وہ تنگ گزرگاہیں، وہ سڑک کے کنارے پر چلتی گاڑیاں،جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ اب کھائی میں گریں اور اب گریں‘بڑے سیاحتی مقامات پر یہ سارے مناظرپیچھے رہ گئے۔ ایبٹ آباد کی طرف سے بتدریج بلند ہوتی سڑک پرپہلے ذرا کم بلندی کی خوش رنگ جھاڑیاں ،پیڑ ساتھ چلتے ہیں۔ذرا اور بلند ہوں تو دونوں طرف چیڑ،اوک،سلک اوک، دیودار،شاہ بلوط ،اور پھلاہی کے درخت آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دراز قامت درخت۔جتنی بلندی ،اتنی درازیٔ قامت۔پہاڑوں کے ساتھ بلند ہوتے ،اپنی مخصوص خوشبوئیں بکھیرتے ،اپنے نیچے نم آلود زمین میں رنگ رنگا پھولوں کو سایہ دیتے یہ درخت دل اور آنکھیں ٹھنڈی کرتے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔اسی سڑک پر ایک جگہ وہ خوشبودار ،میٹھا اور تازہ دم کردینے والا چشمہ بھی آتا ہے جواس علاقے میں صحت افزا تاثیر کے لیے مشہور ہے اورجہاں رُک کر ،چلو میں بھر کر پانی نہ پئیں تو لگتا ہے کہ کوئی فرض ادا ہونے سے رہ گیا ۔
ہم سورج بلند ہونے کے بعد نکلے تھے لیکن ابھی دائیں بائیں گھاٹیوں میں ہنگی، کائیں، زیتون، کنڈ، گل بنفشہ، گل سرنجان، گل ترنی اور ڈیزی کے جنگلی پھول شبنم میں بھیگے ہوئے تھے۔ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں تو دو بلند پہاڑوں کے درمیان گہری کھائیوں کو عبورکرنے کے لیے ڈولی لفٹ چلتی نظر آسکتی ہے ۔ہر ایسی جگہ جہاں پہاڑوں کے درمیان فاصلہ ہو اور ملانے والا پل نہ ہو تو مقامی لوگ ڈولی پر سفر کرتے ہیں۔ لوہے کے رسوں پر چلنے والی یہ لفٹ دس افراد کی گنجائش رکھتی ہے۔ سستا اوروقت بچانے والا طریقہ ہے اور اس علاقے کی ثقافت کا ایک خوبصورت مظہر ۔کبھی کبھار کسی ڈولی لفٹ کے حادثے کی خبر اخبارات میں آجاتی ہے لیکن زندگی پھر رواں ہوجاتی ہے ۔ویسے بھی حادثوں سے کہیں بھی مفر کہاں ہے ؟خواہ آپ محفوظ ترین راستے پر سفر کر رہے ہوں۔راستوں کے دائیں بائیں کھلی جگہوں پر وہ سب رنگ اور وہ سب لوگ نظر آجاتے ہیں جو اس منظر کا حصہ ہیں۔ ہر کچھ دیر کے بعد راستے کے ایک طرف رنگ برنگی چادروں کے پھول نہ کھلے ہوں تو گویا اس راستے پر سفر ہی نہیں کیا۔ ایک رسی پر لٹکی ہوئی مقامی ثقافت کی ترجمان یہ حسین چادریں ٹھنڈی ہوا میں لہرا لہراکر آپ کو خوش آمدید اور خدا حافظ کہتی ہیں۔
موسم ہو تو ہر کچھ دیر کے بعد انجیر کی ایک قسم کے خوانچے نظر آتے ہیں جسے ہندکو میں پھگوڑی کہتے ہیں اور یہ بہت ذائقے دار ہوتی ہے ۔اسی طرح گلیات کا مخصوص سیب جو قدرے چھوٹے سائز کا ہوتا ہے،جابجابکتا نظر آتا ہے ۔مکئی کے بھٹے کی ریڑھیوں اور اڈوں کی دو خصوصیات ہیں ۔ ایک تو یہ کہ بھنی ہوئی مکئی کی رسیلی چھلیاں اس سفر کا لطف بڑھا دیتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کے قریب بہت سے بندر جمع ہوجاتے ہیں ۔انہیں پتہ ہے کہ رکنے والے مسافرانہیں بھی یہ بھٹے خرید کر پیش کریں گے ۔یہ ان کے بھی رزق کا وسیلہ ہے اور ریڑھیوں والوں کے بھی ۔ان کی فروخت دگنی ہوجاتی ہے ۔
نتھیا گلی میں ہمراہی بچوں کو وہ میوزیم دیکھنے کا شوق تھاجہاں گلیا ت کی نمائندہ چیزیں اور حنوط شدہ جنگلی جانور رکھے ہیں ۔اور جہاں وہ چیتا بھی منہ کھولے کھڑا ہے جس نے کئی عشروں پہلے گلیات میں قیامت مچا رکھی تھی ۔کئی انسانی جانیں لے چکا تھا اور آخر اسے گولی مار کر ختم کرنا پڑا۔ نتھیا گلی ،باڑہ گلی ، خیرا گلی ،ڈونگہ گلی سے گزرتے ،خنک فضا کا لطف لیتے چھانگلہ گلی پہنچے جو مجھے ہمیشہ ڈیزی کے پھولوں اور اس کے بنے ہوئے تاجوں کے حوالے سے یاد رہتی ہے۔
ڈیزی کا موسم گزر چکا تھا۔ورنہ اس کے تختوں کے تختے کھلے دیکھنا بھی ایک مسحور کن نظارہ ہے ۔چھانگلہ گلی سے کچھ آگے سڑک کے پی کے سے پنجاب کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم ادھر آگئے ہیں ۔اچھی بھلی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہوجائے ، مناسب کشادگی والے پہاڑی قصبوں کے بازار تنگ ہوجائیں تو جان لیں کہ یہ صوبہ پنجاب کا علاقہ ہے۔ معلوم نہیں یہ فرق کس وجہ سے ہے لیکن ہے بہرحال ہمیشہ سے اورشاید ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔
مری کا ہمسایہ کلڈنہ کا جنگل ایک زمانے سے میرا دوست اور ہم راز ہے ۔ ہم نے آپس میں زندگی کے بہت سے موسموں میں باتیں کی ہیں۔ شاہ بلوط، اوک، سلور اوک، سلکی اوک، دیودار، پلندر، بائٹر، پڑتل، چیڑ ،کیل، چیل، پھلاہی، رہن، بھرنگی، پالودار، شیشم ،اخروٹ اور کاؤکے پیڑ ہمارے سامعین اور ناظرین ہوتے ہیں۔جوتوں تلے چرمراتے پتے اور بلوط کے کھنگر اورکہیں کہیں بہتے چشمے کا پانی اس راستے کے نشان پا ہیں۔برف گری ہو تو اس پر جابجا جنگلی جانوروں اور کہیں کہیں چیتے کے نقشِ پا نظر آجاتے ہیں۔لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ مری صرف گرمیوں میں ٹھنڈ کا نام نہیں ہے۔مری صرف بلندی کا نام نہیں ہے۔مری صرف برفباری کا نام بھی نہیں ہے۔مری اس حسین قدرتی جنگل کا بھی نام ہے جس کا بدل عمارتوں کا جنگل کبھی نہیں ہوسکتا۔
اصل مری ختم ہورہا ہے اوراسے فطرت نے نہیں انسانوں نے ضابطے توڑ کر ختم کیا ہے۔مری میں مسطّح جگہ کم ہے اور انگریز کے دور سے شہر میں خاص طور پر مال روڈ پر یہ ضابطہ بنا دیا گیا تھا کہ سڑک کے صرف ایک طرف تعمیر ہو سکتی ہے۔دوسری سمت کھلے منظر، سنہری دھوپ اور کھلِکھلاتی ہواکے لیے مخصوص تھی۔اب ہوس ِ زر نے دونوں اطراف میں عمارتیں اور دکانیں بنا کر جی پی او چوک سے تقریباً لنٹوٹ ریسٹورنٹ تک ایک گلی بنا دی ہے۔مجھے یاد ہے کہ یہ دکانیں بننے سے پہلے مال روڈ کی خوبصورتی کیا تھی ۔جن اہل کاروں کا کام ہی قاعدوں اور ضابطوں پر عمل کروانا تھا ،وہ جیبیں سنبھالتے، آنکھیں بند کیے اس گلی سے گزرتے رہے ۔جو لوگ مری کا وہ روپ دیکھ چکے ہیں ان کا اب مری جانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔اگرچہ مری کی کشش بہت سے لوگوں کے لیے کم نہیں ہوئی ۔
یہ سارے علاقے،اس راہ میں پڑنے والی ساری بستیاں،تمام پہاڑی قصبے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ضرورت تھی کہ یہاں کے مقامی باشندوں کے مسائل کا ادراک ہوتا اور ان کاحل ۔ یہ بستیاں بنیادی طور پر اپنے روزگار کے لیے سیاحوں کا انتظار کرتی ہیں۔ ہم میدانی علاقوں کے باشندے چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے یہاں جاتے ہیں تو ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ لگتی ہے ۔ہم اپنے اپنے شہروں سے ان قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں ۔لیکن مسائل کا موازنہ کرنا بھول جاتے ہیں ۔ یہاں نہ عمارت بنانا آسان ہے ،نہ مسطح زمین تلاش کرنا۔نہ پہاڑ کاٹنا۔چھ ماہ برف کے سناٹے میں وہ واحد سرگرمی بھی کم کم ہوتی ہے جسے سیاحت کہتے ہیں اور جس پر یہاں کا دارومدار ہے ۔سارا سال کمائی کے متعدد ذریعے رکھنے والے میدان یہ بھول جاتے ہیں کہ پہاڑ چھ ماہ بے روزگار اور نیند کی حالت میں رہتے ہیں ۔جاگتے ہیں تو سال بھر کی بھوک بھی جاگتی ہے۔ آپ اپنے وسائل و مسائل کی عینک اتاریے ،حقیقی آنکھ سے ان کے وسائل اور مسائل پر نظر کیجیے ۔آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟