ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں گھٹن اور بہت صورتوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی تو ایسے مظاہر ہیں جن کا بچپن سے مشاہدہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی تکلیف دہ مناظر دیکھتے دیکھتے عمر گزر جاتی ہے۔ یہ ایسا عام چلن ہے کہ جسے دیکھتے ہوئے لڑکیوں کے بارے میں‘ خاص طور غیرشادی شدہ لڑکیوں کے بارے میں ہر طرف سے نصیحتیں ابتدائی عمر سے سنتے آئے ہیں اور ان کا تسلسل کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ وہ نصیحتیں کیا ہیں۔ چند ایک دہرانے میں حرج نہیں۔ لڑکیوں کو خود اعتمادی دیں تاکہ وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دیں تاکہ وہ معاشرے کا بہتر حصہ بن سکیں اور معاشی خود کفالت حاصل کر سکیں۔ لڑکیوں کو معاشرتی جبر سے نجات دیں تاکہ وہ بھی وہ تمام حقوق حاصل کر سکیں جو لڑکوں کو حاصل ہیں۔ لڑکیوں کو اپنا ساتھی چننے کے فیصلوں کی آزادی دیں تاکہ خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار سکیں۔ لڑکیوں کو... ۔
یہ باتیں اور نصیحتیں جن میں اکثر بلکہ تمام کا میں ذاتی طور پر قائل ہوں اور ان سے جزوی اختلاف کے علاوہ متفق ہوں‘ ہم تو سنتے ہی رہے ہیں۔ شاید نور مقدم اور سارہ انعام نے بھی سنی ہوں گی۔ اگر انہوں نے نہیں تو ان کے ماں باپ نے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ نہ سنی ہوں اس لیے کہ اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کے جن گھرانوں سے ان کا تعلق ہے وہ نسلوں پہلے نصیحتوں کے دائروں سے نکل کر اپنی الگ دنیا بسا چکے ہیں۔ یہ طبقہ جن مالی‘ معاشرتی‘ رہن سہن‘ سیر و سفر‘ رشتوں ناتوں اور پسند‘ ناپسند کی آسودگیوں کا عادی ہے‘ اس ملک کے ننانوے فیصد لوگ محض اس کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ سفیروں‘ امیروں اور وزیروں سے قریبی تعلقات‘ بیرونِ ملک مراسم اور رشتے داریوں سے یہ طبقہ مالا مال ہے اور ان کی جوان اولادیں اپنے فیصلوں میں مشوروں کی تو کیا اطلاع کی بھی خوگر نہیں۔ چھوٹے فیصلے نہیں‘ بڑے بہت بڑے فیصلے بھی۔ مقتولہ نور مقدم ہو یا سارہ انعام‘ بہیمانہ قتل کا ملزم ظاہر جعفر ہو یا شاہ نواز‘ یہ ان اولادوں کے محض چار چہرے ہیں۔ انہیں وہ سب کچھ ملا تھا جس کی نصیحتیں کی جاتی تھیں اور کی جاتی ہیں۔ کیا تعلیم‘ مال‘ آزادی‘ خود مختاری‘ خوش صورتی اور خوش لباسی سمیت کسی مادی چیز کی کمی تھی؟ اگر کوئی مادی کمی تھی تو بتائیے براہِ کرم۔
مقتولہ سارہ کا واقعہ تازہ ہے اور دکھ بھی۔ جس بہیمانہ طریقے سے اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا اس طرح تو جاہل اور اجڈ ترین لوگ بھی نہیں مار سکتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بہت سستا اور بہت گھٹیا نشہ کرنے والے مرد بھی اسی معاشرے میں ہیں۔ اپنی عورتوں پر ان کے تشدد کی تکلیف دہ خبریں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن جس بھیانک طریقے سے سارہ کو قتل کیا گیا اس بھیانک واقعے کی اس نچلے ترین طبقے میں بھی مثال نہیں ملتی۔ میں جیسے جیسے سارہ کی زندگی کے میں بارے میں پڑھتا گیا‘ میرے اعصاب جھنجھناتے گئے۔ یہ آغاز اور یہ انجام‘ اللہ اللہ۔
کینیڈین شہریت کی حامل سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے 2007ء میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہتر تعلیمی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے بعد سارہ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوایشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا۔ 2010ء میں انہوں نے ابوظہبی میں بزنس کنسلٹنسی کی ایک کمپنی میں شمولیت اختیارکر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعدازاں سینئر کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اس نوکری کے بعد انہوں نے ابوظہبی کے ایک اور ادارے میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں ملازمت کے دوران انہوں نے ابوظہبی میں ''تعلیم ہر بچے کے لیے‘‘ جیسے بڑے منصوبے پر کام کیا اور اسی منصوبے کے تحت پہلی مرتبہ ایک چارٹرڈ سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 2021ء میں سارہ نے ابوظہبی کے ہی معیشت سے متعلقہ ادارے میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا تھا۔
سابقہ عہدوں کی طرح یہ بھی ایک بڑا عہدہ تھا۔ ان کی ماہانہ تنخواہ ملینز میں بتائی جاتی ہے۔ ان کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ وہ کتابوں کی شوقین‘ نرم خو‘ دوستوں کی مدد کرنے والی‘ خاندان اور ماں باپ سے محبت کرنے والی‘ اپنی ثقافت کا پاس رکھنے والی خاتون تھیں۔ ان کے دوست انہیں مدبر کہتے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے والدین ان پر فخر کریں۔ ان کی ایک دوست بتاتی ہیں کہ عمر کے اس حصے میں اب وہ اپنی فیملی لائف شروع کرنا چاہتی تھیں۔ ''میں جانتی ہوں کہ اگر وہ ماں بن جاتی تو وہ کتنی عظیم ماں ہوتی۔ وہ اپنے مستقبل اور اپنی فیملی لائف کے حوالے سے ہم سے بات کرتی تھی‘‘۔
37سالہ سارہ کا ملزم شاہ نواز کے ساتھ کیسے رابطہ اور ملاقات ہوئی۔ اس کے بارے میں کچھ متضاد سی باتیں بتائی جارہی ہیں۔ بعض کے مطابق وہ کچھ مدت ساتھ پڑھتے رہے اور کچھ کے مطابق سوشل میڈیا پر رابطہ ہوا۔ جولائی 2022ء میں یعنی قتل سے تین ماہ پہلے ان کی شادی ہوئی لیکن سارہ کے خاندان‘ ماں باپ اور دوستوں کو اس کی اطلاع نہیں تھی۔ سارہ کی شخصیت دیکھتے ہوئے یہ بات بذاتِ خود حیرت انگیز ہے۔ ملزم کی یہ تیسری شادی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ملزم کی سابقہ شادیوں اور ڈرگز کا عادی ہونے کے بارے میں سارہ کو بتا دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی کم حیرت انگیز نہیں کہ اس کے باوجود سارہ نے اسے کیوں قبول کیا اور وہ بھی کسی اپنے کو بتائے بغیر؟
شادی کے صرف 3 ماہ بعد ملزم نے اپنے فارم ہاؤس واقع چک شہزاد اسلام آباد میں سارہ کو پہلے ورزش کے آہنی ڈمبل مار کر قتل کیا۔ پھر اس کی لاش ٹب میں پھینکی۔ کرائم سین کو صاف کردیا تاکہ شہادتیں مٹائی جا سکیں۔ سارہ کا کینیڈین پاسپورٹ قینچی سے کاٹ کاٹ کر پرزے پرزے کر دیا۔ سارہ کے قتل کی اطلاع اپنے قریبی افراد کو دینے کے بعد خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ پولیس کی حراست میں ملزم نے کبھی یہ کہا کہ مقتولہ کسی ملک کی ایجنٹ تھی‘ کبھی یہ کہ اس کے کسی اور سے تعلقات تھے۔ کبھی یہ کہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتی تھی اور قتل کی صبح اس نے اس کی کوشش بھی کی۔ پولیس کے مطابق وہ کبھی خود کو محبوط الحواس ظاہر کرتا ہے اور کبھی مکمل پاگل۔ لیکن یہ سب ڈرامے ہیں۔
میں سر پکڑے بیٹھا ہوں۔ ایک سفاکانہ قتل نے کتنے ہی سوالات کے در کھول دیے ہیں۔ کچھ جواب تو نور مقدم اور سارہ کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔ دو بڑے سوال بہرحال ہر سو پھنکارتے پھرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ لڑکی کو بہترین تعلیم‘ عہدہ‘ تربیت‘ خود اعتمادی اور آزادی سے فیصلے لینے کی طاقت دینے کے بعد کون سی چیز کم رہ جاتی ہے کہ انجام نور اور سارہ جیسا ہوتا ہے؟ بہترین آسائش‘ تعلیم‘ پیسہ‘ آزادی حاصل ہونے کے بعد کیا خرابی ہوتی ہے کہ مرد ظاہر جعفر اور شاہ نواز بن جاتے ہیں؟ میں اس سوالوں کے جوابات ڈھونڈ رہا ہے۔ اور مجھے جواب نہیں مل رہے۔
میں بہت سے معاملات میں بہت پرانا اور قدیم ہوں۔ وہ قدامت جو میری رائے میں جدید ترین دور کی اہم ترین ضرورت ہے مجھے اپنی طرف رہ رہ کر کھینچتی ہے اور میں اس کشش سے باہر نہیں آسکتا۔ یہ کشش مجھے بتاتی ہے کہ رشتے ناتے میں اور زندگی بھر کے ساتھی کو پسند کرنے میں کیوں دل کی نیکی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ظاہری نیکی نہیں دل کی نیکی۔ کیوں دل کی نرمی کو مکمل خیر کہا گیا ہے۔ صرف لہجے کی نہیں دل کی نرمی۔ کیوں خوش اخلاقی کو سب سے اوپر رکھنا چاہیے۔ ظاہری اور کاروباری خوش اخلاقی نہیں حقیقی خوش اخلاقی۔