کسی گم گشتہ البم سے ایک تصویر نکلی اور جیسے گرد و پیش پر محیط ہوگئی ۔خدا یا! ہمارے گم شدہ عکس کیسے وہ آئینہ دکھاتے ہیں جو وقت کے غبار سے اَٹ چکا ہے۔تصویر جناب احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ کی ہے۔ 20نومبر 1996ء۔ ایک بڑے سے کیک کے سامنے ہم کھڑے ہیں ۔ قاسمی صاحب کے دائیں میں ہوں ۔ بائیں طرف جناب حفیظ تائب ۔ ان کے ساتھ فیصل عجمی ۔ پیچھے محبوب ظفر اور دیگر احباب بھی موجود ہیں ۔اس لمحے نے جو جگنو کی طرح جلتا بجھتا اب تک میرے ساتھ ہے ‘قاسمی صاحب کی شخصیت اور ان کے ساتھ پچیس تیس سال کا گزرا وقت ایک لمحے کی شکل میں کشید کرکے میرے سامنے رکھ دیا۔کسی طرح بوند میں سمندر سمٹ آئے تو اس کی گہرائی اور وسعت باقی تو رہتی ہے کہ وہ رہتا توسمندر ہی ہے ۔سو اس لمحے کی حدود بھی سمندر ہی کی طرح ہیں ۔
زندگی ایک ایک ساعت ‘ایک ایک انچ آگے بڑھتی بلکہ کھسکتی ہے ۔لیکن انسان کچھ عرصے کے بعد پلٹ کے دیکھے تو حیران رہ جاتا ہے کہ پس منظر‘ پیش منظر اور ساتھ چلنے والے کتنے بدل چکے ہیں ۔صرف منظر اور ہم سفر ہی نہیں بدلتے ‘ رہ گزرکے دونوں طرف ماحول بھی یکسر بدل جاتا ہے ۔جو سفر ابتدا میں پہاڑی راستوں کا تھا اب وہ ایک دریا کنارے بل کھاتا چل رہا ہے۔یاجہاں پہاڑ اور جھیلیں تھیں ‘ ان کی جگہ صحراؤں نے لے لی ہے۔ انسان خود کو صرف آئینے میں دیکھ پاتا ہے ورنہ جو اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘وہ شاہد ہوتے ہیں کہ وہ خود بھی کتنا بدل گیا ہے۔
عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے تو خاندان ‘ گھربار‘ کاروباریاملازمت الگ الگ مگرمتوازی راہیں ہوتی ہیں ۔صحافتی اور ادبی سفر ایک الگ راستہ ہے جو ان دیگر راہوں کے ساتھ لپٹا ہوا چلتا ہے ۔میرا ادبی سفر شروع ہوا تو شاعروں‘ادیبوں کی ہم سے اوپر لگ بھگ تین نسلیں موجود تھیں (عمروں کے چند سالہ فرق کے ساتھ)۔یعنی جناب فیض احمد فیض‘ احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد ‘ جمیل الدین عالی وغیرہ کے ہم عمر ‘پھرشہزاد احمد ‘منیر نیازی ‘جون ایلیا ‘احمد فراز‘خورشید رضوی ‘انور مسعود‘مستنصر حسین تارڑ اور ان کے ہم عمر اور پھرافتخار عارف‘امجد اسلام امجد‘پیر زادہ قاسم ‘سحر انصاری‘ عطا الحق قاسمی کے ہم عمر لکھنے والے۔پہلی نسل کے کم و بیش تمام لوگ رخصت ہوچکے ۔دوسری نسل کے بھی کافی لوگ جاچکے ۔جو نایاب لوگ باقی ہیں ان کے لیے دعا نکلتی ہے ۔ہم سے بالکل متصل اوپر کی نسل کے لوگ بھی اب اتنے فعال نہیں رہے جتنے ہم نے آغاز میں دیکھا تھا‘کچھ رخصت بھی ہوگئے مثلاخالد احمد‘ نجیب احمد۔یہ بیش قیمت لوگ ہیں اور ان میں ہر ایک کا کوئی بدل نہیں۔
اس سینئر ترین نسل میں میرا تعلق جناب اشفاق احمد اور جناب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ سب سے زیادہ رہا۔اشفاق صاحب اور ندیم صاحب میرے والد کے دوستوں میں بھی تھے اور ابتدا میں اگرچہ انہیں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ میں زکی کیفی کا بیٹا ہوں تاہم جب انہیں علم ہوا تو میرے لیے ان کی محبت اور توجہ اور بڑھ گئی ۔اشفاق صاحب اور ندیم صاحب تو انارکلی میں ہماری کتابوں کی دکان پر بھی بہت آیا کرتے تھے ۔یہ دکان بہت سے ادیبوں اور شاعروں کا مدت تک مرکز بنی رہی ہے۔ایک زمانے میں فنون کا دفتر انارکلی کے ایک بالاخانے میں بھی رہا‘ اور اس وقت جناب یوسف حسن صاحب مرحوم نے‘ جوسمن آباد کے ایک سکول میں ہمارے اردو کے استاد تھے‘اپنی کچھ غزلیں ہمارے ہاتھ فنون کے دفتربھجوائی تھیں ۔ یہ ندیم صاحب کو دیکھنے کا پہلا اتفاق تھا۔لگ بھگ اسی زمانے میں مہدی حسن نے وہ غزل گائی تھی جس کا مطلع میرے والد کا بھی پسندیدہ تھا اور میرے لیے ان کی پسندیدگی سند تھی ؛
انداز ہوبہو تری آوازِ پا کا تھا/ دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اسی زمانے میں ندیم صاحب کی وہ نعت بہت مشہور ہوئی تھی جو کسی بھی شاعر کیلئے وجۂ افتخار ہوسکتی ہے ۔اس وقت دائیں اور بائیں بازو کی تفریق بہت شدت کے ساتھ ہوا کرتی تھی لیکن مجیب الرحمن شامی صاحب نے بطور مدیر اپنے رسالے زندگی میں یہ نعت بہت اہتمام سے شائع کی تھی۔
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا‘ ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
زمانہ کچھ اور آگے بڑھا ۔ میں نے خود شعر کہنے شروع کیے۔ سخن کا شعلہ تو شروع ہی سے میرے دل میں جلتا تھا لیکن میں شروع شروع میں مشاعروں‘محفلوں میں بطورخاموش سامع شریک ہوتا تھا۔خاص طور پر وہ محفلیں جو چائینز لنچ ہوم‘ٹی ہاؤس‘وائے ایم سی اے اور پرانی انارکلی میں ہوا کرتی تھیں۔میں نے ایسے ہی ایک مشاعرے میں ندیم صاحب کو بہت مدت کے بعد پھر دیکھا۔اچھا شعر‘خواہ کسی کا ہو‘ہمیشہ میرے ساتھ رہتا اور مجھ سے گفتگو کرتا رہتا ہے۔اس وقت جب مصروفیت اور ذمے داری ذر اکم تھی ‘ یہ مکالمہ دن رات جاری رہا کرتا تھا۔ایسی ہی کسی محفل میں جو ندیم صاحب ہی کی صدارت میں تھی ‘کسی دوست کے اصرار پر میں نے بھی شعر سنائے ۔اور ایک دم حاضرین کی اور خاص طور پر ندیم صاحب کی توجہ اور داد حاصل کرلی ۔ لیکن اس کے بعد پھرمحفلوں میں عدم شرکت اور ندیم صاحب سے ملاقات میں لمبا وقفہ۔ حیرت ہوئی کہ ایک دو سال بعد ایک بار انہوں نے کہیں مجھے سر راہ دیکھا تومیں انہیں یاد تھا۔ میرے لیے یہی بات بڑی تھی ۔مزید ایک دو سال بعد کی بات ہے‘ جناب مظفر وارثی مرحوم کے گھر پر ایک شعری نشست دہلی سے آئے ہوئے مہمان جناب گلزار دہلوی کے لیے منعقد ہوئی ۔ ندیم صاحب اس کی صدارت کر رہے تھے ۔ لاہور کے نمائندہ اور ہر نسل کے شعرا کی منتخب نشست تھی ۔ مجھے ایک دوست وہاں لے گئے ۔پہنچا تو محفل اختتام کے قریب تھی ‘ جناب عارف عبد المتین پڑھ رہے تھے۔ان کے بعد پڑھنا خلافِ ادب تھا لیکن مجھے پڑھنے کے لیے بلا لیا گیا۔والد گرامی کے دوست جناب کلیم عثمانی مرحوم نے ندیم صاحب اور حاضرین سے میرا تعارف کروایا تو ندیم صاحب نے کہا میں انہیں جانتا ہوں ۔اس شام مجھے بے پناہ داد ملی ۔ ایک نووارد شاعر کے لیے تو یہ ہواؤں پر اڑنے جیسا دن تھالیکن انسان اپنے مزاج کو کہاں لے جائے ۔غلط یا صحیح کی بات الگ لیکن ہمیشہ سے میرا مزاج رسالوں میں شائع ہونے کا بھی نہیں تھااور مشاہیر سے بہت قریب ہونے کا شوق بھی کبھی نہ رہا۔فنون جو ادبی رسائل کے سر فہرست ناموں میں تھا‘ اس میں چھپنے کے لیے لوگ بہت جتن کیا کرتے تھے۔مجھے اپنے معیار پر اعتماد تھا لیکن کبھی ندیم صاحب کے پاس اس مقصد کے لیے نہیں گیا۔ندیم صاحب بھی بھول بھال گئے ہوں گے اور ایسے برخود غلط لکھنے والے کویاد بھی کیوں رکھا جائے ۔لیکن وہ جو سینے میں خوشبو سلگتی تھی وہ ‘بطور سامع ہی سہی ‘لاہور کے منتخب بڑے مشاعروں میں کھینچ کر لے جایا کرتی تھی ۔ ایسے ہی ایک یادگار مشاعرے میں ندیم صاحب نے کیا غزل پڑھی تھی ‘جو میں نے بعد میں ‘جب میں بطور شاعر مشاعروں میں شریک ہونے لگا‘ مشاعروں میں ان سے فرمائش کرکے بہت بار سنی
کوئی سنتا تو اک کہرام برپا تھا ہواؤں میں
شجر سے ایک پتہ جب گرا آہستہ آہستہ
پھر اس کے بعد شب ہے جس کی حد صبح ابد تک ہے
مغنی !شام کا نغمہ سنا آہستہ آہستہ
میں شہرِ دل سے نکلا ہوں سب آوازوں کو دفنا کر
ندیم اب کون دیتا ہے صدا آہستہ آہستہ