"SUC" (space) message & send to 7575

جاڑے کا جادو

جاڑے کی سرد راتوں کا طلسم ہمیشہ سے دل پر جادو کرتا رہا‘اور یہ جاڑا بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔لاہور برفباری کے لطف سے تو محروم رہتا ہے لیکن جاڑے کا باقی حسن اس کے حصے میں بھی کئی ماہ رہتا ہے۔برف کا بھی یہ ہے کہ دس بارہ سال بعد ایک سردی ایسی آتی ہے جس میںایک آدھ رات وہ سفید چادر سڑکوں‘میدانوں اور سیرگاہوں میں بکھیر دیتی ہے جسے اولے بہرحال نہیں کہا جاسکتا۔ بارش اور برف کی اس درمیانی شکل کو انگریزی میں سلیٹ (sleet) کہتے ہیں۔چند سال پہلے لاہور میں ایک ایسی ہی رات آئی تھی جس میں گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا کہ سڑک تا حدِ نظر براق ہوچکی ہے۔ ٹائر پھسلواں ہیں اور گاڑیاں گزرنے سے ایک بجری سی اڑ کر سڑک کنارے ڈھیر ہوجاتی ہے۔لاہور کے حوالے سے یہ یادگار بات تھی لیکن جاڑے کا طلسم بہرحال لاہور میں ہمیشہ رہتا ہے اور اس طلسم کا اسیر ہونے کا انتظار لگ جاتا ہے۔ لاہوری کے بس میں ہو تو نومبر سے فروری تک کے مہینوں میں جنوبی شہروں کا رخ ہی نہ کرے۔کئی شمالی شہروں کا‘مثلاً اسلام آباد اور ایبٹ آباد کی سردیوں کا اپنا جادو ہے اور وہ اس جادوگری میں لاہور پر فوقیت رکھتے ہیں۔
ان دنوں پشاور تا کراچی پورا ملک یخ کدہ بنا ہوا ہے۔مری سمیت سوات‘کاغان وغیرہ میں ہر چند دن بعد برفباری کی اطلاع آتی ہے۔ بلوچستان میں برف کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور نالیوں میں پانی نہیں برف ہے۔ادھر کراچی بھی کئی دن سے کوئٹہ کی ہواؤں میں دانت کٹکٹاتا پھر رہا ہے۔امسال لاہوردسمبر سے سانس کے ساتھ بھاپ اُڑا رہا ہے۔اور یہ رات جس میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے‘ایک ایسی ہی سرد رات ہے جس میں گرم کپڑوں میں مکمل ملفوف ہوکر بھی نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔سردیوں کی ایک خاص بات شور و شغب بہت کم ہوکر رات کا پرسکون ہوجانا ہے۔ گھروں کے اندر کا شور مثلا ًپنکھے‘ائیر کنڈیشنرز وغیرہ کا ہنگامہ تو ختم ہوہی جاتا ہے‘باہر کا شور بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ٹریفک کم‘ سڑکوں پر چہل قدمی کم‘تھڑوں پر محفلیں کم اور کتوں بلیوں کی آوازیں بھی کم کم۔ ایک پرسکون طمانیت بھری رات جس میں انگیٹھی‘ آتش دان یا ہیٹر جل رہا ہو اور آپ ہاتھ تاپتے ہوئے کتاب پڑھ رہے ہوں۔ آتش دان میں شعلوں کا رقص دیکھتے ہوں یا ان انگاروں کی لپٹ محسوس کرتے ہوں جو ادھ جلے یاقوتوں کی طرح لو دے رہے ہیں۔ یا روئی بھرے گرم لحاف میں دبکے ہوئے ہوں‘ کتاب یا موبائل یا لیپ ٹاپ گود میں اور چائے یا کافی کا مگ سرہانے دھرا ہو۔ جو خشک میوہ دسترس میں ہے وہ میسر ہو تو سبحان اللہ۔ہر چندکمر توڑ مہنگائی اور ملکی حالات اس سکون اور طمانیت میں مسلسل شگاف ڈالتے ہیں لیکن قدرتی تحفہ بہرحال میسر رہتا ہے۔ ایسے میں کچھ اچھا لکھنے کی توفیق ہو یا اچھا پڑھنے کو مل جائے تو مزید سبحان اللہ۔ایک بات اور۔ مجھے لگتا ہے کہ جو تخلیہ اور یکسوئی سردیوں کی راتوں میں ممکن ہے‘کسی اور میں نہیں ؛ چنانچہ خود سے ملاقات کا بہترین وقت بھی جاڑے کی راتیں ہیں۔
کچھ دن پہلے دھیان ادھر گیا کہ اردو شاعری میں اس موسم‘ اس منظر اور اس ماحول کا ذکر اتنا کم کم کیوں ہے جو میدانی یا پہاڑی علاقوں میں برفباری اور برفانی سردیوں سے مل کر بنتا ہے۔جاڑے‘سردیوں سے لے کر مہاوٹوں (سردیوں کی بارش) اور پکوانوں کا ذکر تو بہت مل جائے گا۔نظیر اکبرآبادی کی طویل نظم ' ' تب دیکھ بہاریں جاڑے کی‘‘ دو مصرعے سن لیں کہ یہ اسی موسم کی منظر کشی ہے۔
ہو فرش بچھا غالیچوں کا اور پردے چھُوٹے ہوں آکر
اک گرم انگیٹھی جلتی ہو اور شمع ہو روشن اور تس پر
یاناصر کاظمی کا وہ شعر
جاڑے کی رُت آئی ناصرـؔ
چھوٹے دن اور لمبی رات
اس لمبی کو جتنی لمبی کرکے پڑھیں‘جاڑے کی رات اتنی ہی طویل نظر آنے لگتی ہے۔ اور سب سے طویل رات یعنی شب یلدا22 دسمبر ہی کو تو گزری ہے۔ توبات یہ نہیں کہ جاڑے اور سردیوں کا ذکر اردو شاعری میں نہیں ملتا‘بات یہ ہے کہ برفانی موسموں‘ شہروں اور ماحول میں رہنے کا اظہارمیرے خیال میں اردو شعر میں بہت کم ہے۔ برف پوش پہاڑوں کا ذکر کم کم ہے۔اگرچہ کچھ مثالیں تو موجود ہیں جیسے شکیب جلالی کا وہ شعر؎
یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ گئی آفتاب میں
یا بلوچستان کے اعلیٰ شاعر عطا شاد مرحوم کے یہ شعر
یک لحظہ سہی عمر کا احسان ہی رہ جائے
اس خلوتِ یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے
مجھ شاخ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
٭......٭......٭
رس اس کے قرب گرم کا ہے حرف حرف میں
وہ خوش بدن گلاب کھلاتا ہے برف میں
٭......٭......٭
کیوں پگھلتی ہے مرے قرب سے اس جسم کی برف
آنکھ کیا عرض کرے اور زباں کیا بولے
یہ مثالیں اپنی جگہ درست لیکن مجموعی طور پر اُردو غزل میں خاص طور پر یہ منظر نہیں پایا جاتا۔کیا اس کی وجہ ہے کہ اردو جن مراکز میں پلی بڑھی مثلاًدہلی‘ لکھنؤ‘آگرہ‘میرٹھ‘بدایوں‘یوپی کے بڑے شہر‘ لاہور‘کراچی اور اکثر پاکستانی شہر‘ان کا یہ تجربہ کبھی نہیں رہا؟اور جن شہروں کا یہ موسم اور یہ تجربہ رہا وہاں اردو زبان کو بڑا لکھنے والا نصیب نہیں ہوا؟جو بھی وجہ ہو لیکن زیادہ حیرت اس پر ہے کہ کئی دہائیوں سے سرد ممالک میں مقیم اردو تخلیق کار اور غزل گو بھی اردو غزل کی روایت میں اس رنگ کا اضافہ نہ کرسکے جسے براق رنگ کہیے تو زیادہ مناسب ہے۔یورپ میں یا امریکہ یا کینیڈا میں رہنے والوں نے نثر میں تو یہ لینڈ سکیپ پھر بھی شامل کیا لیکن شاعری میں نہ ہونے کے برابر۔اکا دُکا مثالیں ہوں گی مگربس ایک آدھ پر بات ختم ہوجاتی ہے۔ انسان آدھی رات کے بعد لحاف میں دبکا ہوا لکھ رہا ہو اور خیال کی رو‘ تیز سردہوا کی طرح چل رہی ہو تو بات اسی طرح ادھر سے ادھر نکل جاتی ہے۔مجھے کہنا تو کچھ اور تھا لیکن ابھی ایک اور بات یاد آگئی جومیں کئی دن سے اہلِ ادب اور زبان دانوں سے پوچھنا چاہتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک عزیز دوست نے سرد رات میں لاہور کی مشہور تلی ہوئی مچھلی کا ذکر کرتے ہوئے پنجابی میں کہا۔کیا لذیذ مچھلی تھی۔کڑاہی سے نکل کر سیدھی پلیٹ میں آئی۔مچھلی سے گرم گرم' ' ہواڑیں‘‘ اُٹھ رہی تھیں۔ اس دوست نے یہ کہہ کر بات مکمل کردی لیکن دو مسئلے ہوگئے۔ ایک تو لاہوری مچھلی کی گرم طلب نے سرد رات میں بے چین کردیا۔ دوسرے اس لفظ ہواڑیں نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔کیسا خوبصورت لفظ ہے۔ کیا اردو میں اس کیفیت کے لیے کوئی لفظ اور مترادف ہے؟ اگر میں کہوں کہ مچھلی سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی تو کیا اس مفہوم کی ترجمانی ہوسکے گی ؟میرا خیال ہے نہیں ہوگی۔ تو پھر اردو میں اس کے لیے کون سا لفظ ہوگا؟یہی آپ سے سوال ہے۔اب یہ سوال نہ کردیجیے گا کہ پہلے گرم ہواڑوں والی مچھلی ہمارے سامنے پیش کرو تب بتائیں گے۔یاد رکھیں میرا جواب وہی ہوگا جو اکبر الہ آبادی کا تھا :
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں