کل کی بات لگتی ہے جب پہلی بار یہ سنا تھا کہ مستقبل میں گاڑیاں بجلی سے چلا کریں گی۔ اس بارے میں سنتے اور پیش رفت کی خبریں پڑھتے رہے۔ پھر یہ کل آج میں اتنی تیزی سے تبدیل ہوا جیسے ایک دن بھی نہ گزرا ہو‘ صرف چند گھنٹے گزرے ہوں۔ پہلی برقی گاڑی عام آدمی کی دسترس میں آئی تو یہ ایک تہلکہ خیز خبر لگتی تھی لیکن برقی گاڑیاں ترقی پذیر ملکوں کی دسترس سے بہت دور تھیں۔ اس کے لیے جو نظام درکار تھا وہ ان ملکوں میں دستیاب نہیں تھا تو گاڑی لے کر کوئی کیا کرتا۔ پھر ایلون مسک کی تیار کردہ بجلی سے چلنے والی کار نے چونکا دینے والی خبروں میں جگہ بنا لی۔ چند سال پہلے امریکہ جانا ہوا تو اس کار کو دیکھنے اور اس پر سفر کرنے کا اتفاق بھی ہوا۔ بغیر انجن کے اس گاڑی کا بونٹ کھولا گیا تو وہاں سامان کا خانہ تھا۔ انجن کی آواز نہ ہونے سے شور بھی نہیں‘ پٹرول بھی نہیں‘ وہ سارے پرزے بھی نہیں جو عام گاڑیوں میں ہوتے ہیں لہٰذا مکینک اور ورکشاپ بھی نہیں۔ پھر اس کار کے جدید ترین ماڈل آنے لگے۔ ہربار امریکہ جانے پر یہ نئے ماڈل اور ان میں مزید اضافے نظر آتے رہے۔ گاڑی والے رات کو اپنی گاڑی گیراج میں چارجنگ پر لگا دیتے اور دن میں سفر کرتے۔ ایک چارجنگ میں 300کلومیٹر تک گاڑی چل سکتی تھی۔ درمیان میں گیس سٹیشنز پر بھی چارجنگ کا انتظام تھا۔ مزید سہولت یہ کہ نیوی گیشن سسٹم کے باعث گاڑی کو بغیر ڈرائیور کہیں بھی بھیجا یا بلایا جا سکتا تھا۔ راستے کے سگنل‘ موڑ اور اتار چڑھاؤ کے معاملات گاڑی خود سنبھال لیتی تھی۔ میں نے جتنے لوگوں سے پوچھا‘ یہی معلوم ہوا کہ گاڑیوں کے مالکان بھی مطمئن اور خوش تھے۔ اس کامیابی نے انسان کا حوصلہ بڑھا دیا اور ذرا سے فاصلے کی بات سہی لیکن یہ بھی سوچا جانے لگا کہ مستقبل میں ہوائی جہاز اور بحری جہاز بھی بجلی سے چلا کریں گے۔
برقی سواریوں کے فوائد چومکھے تھے اور ایک فائدے سے دوسرا فائدہ حاصل ہو رہا تھا۔ یہ جو ماحول کی آلودگی ہے اس میں 16فیصد حصہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں اور پٹرول کے بطور ایندھن استعمال کا ہے۔ پٹرول کی روز افزوں قیمتیں اور اس پر اقوامِ دیگر کی اجارہ داری ہونا تو بہت سے ملکوں کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ خود اپنے ملک کو دیکھ لیں۔ ہر سال کتنا کثیر زرِمبادلہ پٹرول اور ڈیزل وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی لیے کوششیں کی جاتی ہیں کہ پٹرول ابھی مل جائے مگر ادائیگی مؤخر ہو جائے کیوں کہ یہ بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ پھر گاڑیوں کے پرزہ جات بہت بڑی تعداد میں درآمد ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد انجن کے پرزہ جات کی ہوتی ہے۔ اگر انجن ہی نہ ہو تو پرزوں کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ یہ تو محض چند فائدے ہیں۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو ماحولیاتی آلودگی کم ہو جانا ہی بہت بڑا فائدہ ہے۔
لیکن ہر نئی ایجاد نئے مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ بجلی ذخیرہ کرنے اور ساتھ لیے پھرنے کا آسان طریقہ بیٹریاں ہیں۔ اب موبائل سے لے کر لیپ ٹاپ تک ہر چیز بیٹری پر ہے۔ اس لیے اگر بیٹری ہے تو بجلی ہے۔ اس بیٹری کی عمر اور ذخیرے کی صلاحیت کیسے بڑھائی جائے‘ یہ بذاتِ خود ایک تحقیقی میدان ہے۔ اسی کی ایک جہت یہ ہے کہ کم وقت میں بیٹری چارج ہو سکے۔ ان میدانوں میں ان کی روز افزوں ضرورت کے مطابق تحقیق جاری ہے اور کئی نئی خبریں ہماری دلچسپی کی ہیں۔ ان میں تازہ ترین خبر ایک نئی قسم کی بیٹری کی ہے جو سابقہ لیتھیم بیٹری سے مختلف ہے اور اسے مستقبل کی بیٹری قرار دیا جارہا ہے۔ برقی گاڑیوں کا اب تک سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ بیٹری چارجنگ کا وقت بہت زیادہ ہے‘ یعنی کئی گھنٹے۔ آپ فرض کر لیجئے کہ آپ گھر سے ایک ہزار کلو میٹر کے سفر پر نکلے ہیں اورگھر واپس بھی آنا ہے تو ہر تین سوکلو میٹر کے بعد آپ کو گاڑی چارج کرنے کے لیے تین گھنٹے رکنا ہے تو نو گھنٹے تو ایک طرف کا یہی وقت ہوا۔ سفر کا وقت الگ۔ اسی طرح واپسی کا سفر بھی اندازہ کر لیجئے۔ یہ عملی طور پر اس تیز رفتار دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ تنہا یہ مسئلہ برقی گاڑیوں کو ناکام بنا دینے کے لیے کافی ہے۔ چارجنگ کے یہ مسائل کیوں ہیں؟ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے۔ اس وقت جو بیٹریاں بنائی جارہی ہیں وہ لیتھیم بیٹریاں کہلاتی ہیں۔ لیتھیم ایک قدرتی کیمیکل عنصر ہے جو قدرتی طور پر زمین کے کچھ خطوں میں پایا جاتا ہے۔ لیتھیم سے بنائی جانے والی بیٹریوں کے فائدے بھی ہیں لیکن کئی نقصانات بھی اسی کے ساتھ ہیں۔ ایک تو بیٹری تیار کرنے کے بعد اس کی عمر چند سال رہ جاتی ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے اور کئی سال پڑی رہے تو بیٹری بالکل جواب دے جاتی ہے۔ لیتھیم بیٹری مہنگی بھی پڑتی ہے۔ اسے تیزی سے چارج کرنے کی کوشش بیٹری کو نقصان پہنچاتی ہے‘ اس لیے اس کی ایک حد ہے۔ یہ سب ایک طرف لیکن بڑا نقصان خاص طور پر حفاظت کے نقطۂ نظر سے ہے۔ ہائی وولٹیج پر اس بیٹری میں آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ دھماکے سے پھٹ سکتی ہے۔ ایسے کئی واقعات کے بعد بوئنگ طیاروں نے بڑی تعداد میں یہ بیٹریز کارگو کی شکل میں لے جانے سے انکار کردیا تھا۔ اور یہ مسئلہ تو میں بتا ہی چکا ہوں کہ ایک خاص حد سے زیادہ تیز چارج کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لیتھیم بیٹری کی طلب نے اس کی قیمت کو ایک سال کے اندر آسمان پر پہنچا دیا۔ اندازہ کریں کہ ایک سال کے اندراس بیٹری کی 450فیصد قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔
میں ان چیزوں پر تحقیقی کام کی رپورٹس پڑھتا رہا ہوں اور اس معاملے پر تحقیق بھی ایک دو سال کی نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہے۔ چار مسئلوں کو ایک ساتھ حل کرنا ضروری تھا۔ اوّل محفوظ بیٹری ہونا‘ دوم لمبی عمر ہونا‘ سوم تیز چارجنگ کی صلاحیت ہونا اور چہارم آسانی سے دستیاب ہونا۔ اگرچہ یہ تکنیکی معاملات عام آدمی کے بس کے نہیں تاہم :جب 2022ء کے اواخر میں یہ اطلاع آئی کہ ایک ایسی بیٹری ایجاد کر لی گئی ہے جو سستی بھی ہوگی‘ پائیدار بھی اور دیگر خصوصیات میں بھی بہتر ہوگی تو یہ یقینا چونکا دینے والی خبر تھی۔ معلوم ہوا کہ سوڈیم آئن بیٹری بنائی گئی ہے جو لیتھیم اور لیڈ ایسڈ بیٹریز کے مقابلے میں بہتر ہے۔ یہ بیٹری بجلی کی موٹر سائیکل‘ سکوٹر‘ فورک لفٹر وغیرہ میں کامیابی سے استعمال کی گئی ہے اور اس سے بہت اچھی توقعات وابستہ ہیں۔ سوڈیم کے ذخائر وافر ہونے کے باعث یہ سستی اور با آسانی دستیاب ہو سکے گی۔ اندازے کے مطابق یہ لیتھیم بیٹری سے تیس فیصد کم لاگت پر بن سکے گی۔ یہ زیادہ محفوظ اور تیزی سے چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ میاں! یہ کس تفصیل میں پڑ گئے۔ سوڈیم بیٹری سے ہمارا کیا لینا دینا۔ برقی گاڑیاں ابھی ہم سے کافی سالوں کی دوری پر ہیں لیکن یقین کیجئے‘ اس تیزرفتار دنیا میں سال مہینوں اور مہینے دنوں میں بدل رہے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے جب ہم اپنی سڑکوں پر برقی سواریاں ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ اور یہ نہ بھی ہو تب بھی‘ جب کبھی شدید ضرورت کے وقت آپ کے موبائل کی بیٹری جواب دے جائے‘ چارجر ساتھ نہ ہو اور کوئی راستہ نہ ملے‘ تب پوچھنا پڑے گا کہ آپ کا کچھ لینا دینا ہے یا نہیں؟ حضور والا! یہ ہماری لائف لائن ہے۔ حضور! بیٹری ہی مستقبل کا وہ طوطا ہوگی جس میں دیو کی جان ہے۔