لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد رضا قریشی نے اس مظلوم زبان کے حق میں حکم جاری کیا جسے آج تک اس سلطنت کی سرکاری زبان بننے کا حق حاصل نہیں ہوا۔ سمندر پار سے آئی ہوئی زبان اس کی جگہ پر قابض ہے‘ جس کی اہلیت بس یہ ہے کہ وہ اُس زمانے کے حاکموں کی زبان تھی۔ اس ملک کے بنانے والے یہ بات طے کر چکے‘ آئین یہ فیصلہ کر چکا‘ عدالتِ عظمیٰ حکم جاری کر چکی‘ لاکھوں تحریریں لکھی جا چکیں‘ درخواستیں دائر کی جا چکیں اور پتا نہیں کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟ اب کس چیز کا انتظار ہے؟ وہ لوگ جنہوں نے اس پر عمل کرنا ہے‘ اسے نافذ کرنا ہے‘ وہ ہم میں سے ہیں‘ اسی ملک کے شہری ہیں‘ اسی معاشرے کا حصہ ہیں لیکن لگتا نہیں کہ واقعی وہ ہم میں سے ہیں۔ ہم میں سے ہوتے تو کیا پچھتر قیمتی سال ضائع ہوتے؟ نسلیں یہ خواب دیکھتے دیکھتے ہمیشہ کی نیند سو گئیں مگر یہ خواب پورا نہ ہوا۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ملک میں صرف دو طبقات ہیں‘ ایک وہ جو مسلسل اس کے اصرار پر ڈٹا ہوا ہے اور ایک وہ جو مسلسل اس کے انکار پر بضد ہے۔
ایسے میں جسٹس محمد رضا قریشی نے 13فروری کو ایک پٹیشن پر‘ جو کچھ اہلِ دل نے ہم سب کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے دائر کی تھی‘ فیصلہ دیتے ہوئے حکومت پنجاب کو تیس دن کے اندر نفاذِ اردو کے اقدامات کرنے اور عدالتِ عُلیا میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ یاد رہے کہ عدالت کی حکم عدولی توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے جس کی ہر حکومت مرتکب ہوتی رہی ہے۔ ہر سابقہ حکومت کا چہرہ داغوں سے بھرا ہے۔ کون سا وزیراعظم ہے جس نے اس آئینی تقاضے اور عوامی مطالبے پر توجہ دی ہو؟ کون سی جماعت ہے جس نے نفاذِ اردو کے راستے میں پھاٹک نہ لگائے ہوں؟ ہم نے وہ دور بھی دیکھے ہیں جن میں سرکاری کانفرنسوں میں نفاذِ اردو کی قرارداد پیش نہیں کی جا سکتی تھی‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید نہیں کی جا سکتی تھی حتیٰ کہ کئی کانفرنسز کے بینرز میں اردو کا کوئی لفظ ڈھونڈا نہیں جا سکتا تھا۔ اور اس طرف توجہ دلانے پر وہ لوگ خفا ہو جاتے تھے جن کی شناخت ہی اردو تحریریں تھیں‘ لیکن فیصلے کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد انہیں اپنا ہی کہا ہوا‘ لکھا ہوا کچھ یاد نہیں تھا۔ اس دور میں ادب اور ثقافت کے نام پر ہر میلے ٹھیلے میں‘ ہر ایرے غیرے کو شرکت کی اجازت تھی لیکن اردو کو خاص طور پر باہر رکھا گیا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کم ترین مدت کے لیے منصف اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے۔ صرف 23دن‘ لیکن اس مدت میں انہوں نے عوام کے دلوں میں اس فیصلے کے ذریعے ٹھنڈک ڈال دی۔ اب جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کو پھر زندہ کیا ہے‘ بہتر ہو گا کہ ہم اس فیصلے کے خاص نکات پر ایک نظر ڈال لیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت تین رکنی بنچ نے 8ستمبر2015ء کو حکم صادر کیا کہ1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251پر عملدرآمد کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ آرٹیکل تین ذیلی دفعات پر مشتمل ہے اور اس کی اصل عبارت یہ ہے:
قومی زبان 251(1):پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے پندرہ سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اس کو سرکاری اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ 251(2): ذیلی دفعہ ایک کے اندر رہتے ہوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔ 251(3): قومی زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ہوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ‘ تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی عبارت بھی درج ذیل ہے جس میں آئین کے آرٹیکل5کا بھی ذکر ہے‘ جس کے تحت ہر شہری پابند ہے کہ وہ آئین کی ہر دفعہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ ان دستوری احکامات کے پیش نظر‘ جو آرٹیکل5اور آرٹیکل251میں بیان کیے گئے ہیں اور جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے‘ اور اس امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ دستور کا لازمی تقاضا ایسی بات نہیں ہے جس سے صرفِ نظر کیا جا سکے اور پھر عشروں پر پھیلی ہوئی حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے‘ ہمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم مندرجہ ذیل ہدایات اور حکم جاری کریں۔
(1): آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلاغیر ضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔ (2): جو میعاد (مذکورہ بالا مراسلہ مورخہ 6 جولائی 2015ء) میں مقررکی گئی ہے اور جو خود حکومت نے مقرر کی ہے‘ اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے جیسا کہ اس عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے۔ (3): قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔ (4): تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔ (5): بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔ (6): وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔ (7): ان عدالتی فیصلوں کا‘ جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جو آرٹیکل 189 کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں‘ لازماً اردو میں ترجمہ کرایا جائے۔ (8): عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کرا سکیں۔ (9): اس فیصلے کے اجرا کے بعد‘ اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا‘ اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔ (10): اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5 کی روشنی میں آرٹیکل251 پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدام کریں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ہدایت پر عمل درآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار ہوکر عدالت میں پیش کی جائے۔
درج بالا فیصلے پر لاہور ہائیکورٹ نے 30 دن کے اندر عمل درآمد کا حکم دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کو تو اس تحریر کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کرنا مقصد ہے ہی‘ اُن شہریوں کو بھی ہم سب کی طرف سے داد اور مبارک‘ جنہوں نے ہماری ترجمانی کی اور اس مقصد کی طرف مزید پیش قدمی کرا دی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں پھر انہی تاخیری حربوں سے کام لیں گی یا تاریخ میں اپنا نام ثبت کرنے کی طرف بڑھیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف‘وزرائے اعلیٰ اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان! یہ کام تو بہرحال ہونا ہی ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اعزاز کس کے حصے میں آئے گا۔ یہ وقت ہے کہ آپ اس کام کا کریڈٹ‘ اعزاز سمیٹ لیں اور تمغہ اپنے سینے پر سجا لیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رکاوٹیں ڈالنے والوں کو کسی نے یاد نہیں رکھا اور اس مقصد میں شامل ہو جانے والوں کے نام جگمگا رہے ہیں۔ آپ اپنا نام کس صف میں شامل کرائیں گے؟