ان دنوں ملکی حالات کی خبریں ہی اتنی ہوشربا ہیں کہ انسان اور کس طرف دیکھے۔ روزگار‘ ملازمت اور زندگی کی ضروریات سے کچھ وقت نکال کر اخبارات اور کالم پڑھے جائیں یا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے کچھ دیر کا بھی واسطہ پڑ جائے تو شام تک بلڈ پریشر بھی ہائی ہو جاتا ہے اور شوگر لیول بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ نڈھال ہو جانے کے بعد بندہ عالمی اخبارات کیا پڑھے اور کیسے پڑھے؟ لیکن کبھی کبھار کوئی ایسی خبر نظر سے گزر جاتی ہے جو بہت سے ڈھکے چھپے تاریخی حقائق واضح کر دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ کے ایک نامور اور بڑے اخبارThe Guardian کی ایک ایسی ہی خبر نظر سے گزری۔
14 فروری کو The Guardian نے جلی سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ بھارتی حکومت کشمیر کے معاملے کی خاص دستاویزات ڈی کلاسیفائی کرنے سے روک رہی ہے۔ یہ وہ خط و کتابت ہے جو 1948ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو‘ دیگر حکومتی زعما اور سر فرانسس رابرٹ رائے بُچر کے درمیان ہوئی تھی۔ بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ ان دستاویزات کو جو بُچر پیپرز کے نام سے معروف ہیں‘ عام کردینے سے بھارت کے غیرملکی تعلقات اور دیگر حساس معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام حکومتیں ایک خاص مدت گزرنے کے بعد بہت حساس نوعیت کے سوا باقی سرکاری دستایزات عام کر دیتی ہیں۔ اس کے لیے سرکاری منظوری دی جاتی ہے۔ بھارت میں 25سال پرانی دستاویزات پبلک کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ اس لیے چھہتر سال پہلے کے بُچر پیپرز میں ایسا کیا ہے جس کے لیے یہ منظوری نہیں مل رہی۔ اس کا پس منظر سمجھنے کے لیے کچھ باتیں جاننا ضروری ہیں۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ فارمولا طے ہوا تھا کہ آزاد ریاستیں‘ جو راجگان اور نوابوں کے تحت قائم تھیں‘ اپنی مرضی کے مطابق بھارت اور پاکستان‘ کسی بھی ملک سے الحاق کر سکتی ہیں۔ ان ریاستوں کی تعداد 1947ء میں 584بتائی جاتی ہے۔ ان میں کچھ ریاستوں میں راجہ مسلمان اور رعایا کی اکثریت ہندو تھی‘ جیساکہ ریاست حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارت نے فوج کشی کرکے اس بنیاد پر ان پر قبضہ کر لیا کہ آبادی میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ کشمیر میں معاملہ الٹا تھا۔ یہاں مسلم اکثریت تھی لیکن راجہ ہندو تھا۔ یہاں بھارت نے یہ مؤقف اپنایا کہ راجہ نے الحاق کا اعلان کر دیا ہے‘ اس لیے یہ بھارت کا حصہ ہے۔ یہ کھلی دوغلی پالیسی تھی۔ پاکستانی سرحدوں اور حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے بیچ بھارتی علاقہ تھا اور پاکستان اپنے بے شمار مسائل میں گھرا ہوا تھا لیکن ریاستِ کشمیر کا معاملہ مختلف تھا۔ دوسری طرف ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ہندوستانی اور پاکستانی افواج کے سربراہ ابتدا میں انگریز جرنیل تھے۔ بھارتی فوج میں اگست 47ء سے 49ء تک جنرل رابرٹ لوک ہارٹ پہلے اور جنرل رائے بُچر دوسرے سربراہ تھے۔ پاکستانی فوج کے پہلے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی تھے۔ ظاہر ہے کہ انگریز جرنیلوں کی بنیادی وفاداری اور معاملات پر نظر‘ برطانوی پالیسی اور سوچ کے مطابق ہی ہونی تھی۔ 1948ء میں جب کشمیر کا تنازع اور لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرف ہی انگریز جرنیل سربراہ تھے۔ جواہر لال نہرو بھارتی وزیراعظم تھے اور رائے بُچر سے ان معاملات پر خط و کتابت اور مشاورت کرتے رہے۔ یہ خطوط اور دیگر وزرا کے خطوط بُچر پیپرز کے نام سے معروف ہیں۔ بعد ازاں جنرل بُچر کے یہ سارے خط بھارتی وزارتِ خارجہ نے‘ اس تاکید کے ساتھ نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کے حوالے کردیے کہ انہیں خفیہ رکھا جائے۔ اسی لائبریری میں یہ اب تک محفوظ ہیں۔ کئی افراد نے ماضی اور حال میں ان دستاویزات تک رسائی چاہی لیکن سرکار نے منظوری نہیں دی۔ جنرل بُچر نے ریٹائرمنٹ کے بعد کئی انٹرویوز میں بھی ان کاغذات اور کشمیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس میں جہاں نہرو کے کشمیر کے معاملات پر ان کے نقطۂ نظر کا اعتراف ہے‘ وہیں جنرل بچر کی تنازعِ کشمیر کے بارے میں رائے بھی شامل ہے۔ ان کے الفاظ میں‘ میرے خیال میں بھارت کو کشمیر کا پاکستان سے الحاق تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ مسائل بھارت سے الحاق کے بعد پیدا ہونا شروع ہوئے۔ دستاویزات میں جنرل بُچر کی یہ رائے بھی شامل تھی کہ کشمیر کے مسئلے کا سیاسی حل ہونا چاہیے نہ کہ عسکری یا اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانا چاہیے‘ وہیں اس کا بہتر تصفیہ ہو سکے گا۔ جواہر لال نہرو نے جواب میں لکھا کہ مجھے نہیں علم کہ اقوام متحدہ کا مؤقف کیا ہوگا؟ ممکن ہے وہ سیز فائر تجویز کریں۔ کیا صورت بنے گی مجھے نہیں معلوم‘ لیکن اگر سیز فائر نہ ہوا تو ہمیں پاکستان کے اندر پیش قدمی کرنی ہوگی اور اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ یہ تو انہوں نے لکھا لیکن بالآخر جواہر لال نہرو یہی رائے مانتے ہوئے از خود یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گئے۔ یہ الگ بات کہ یہ فیصلہ بھارت کے گلے میں اٹک گیا۔ اور اقوام متحدہ نے قرار دادیں منظور کیں کہ کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دیا جائے اور وہاں رائے شماری کرائی جائے۔
جنرل بُچر کی یہ رائے اور دیگر عوامل نے وزیراعظم نہرو کو 1952ء میں کشمیر کو ایک خاص درجہ دینے پر مجبور کیا جس میں خارجہ پالیسی اور دفاع کے علاوہ تمام معاملات میں خود مختاری شامل تھی۔ نہرو نے اعلان کیا تھا کہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف کشمیری ہی کر سکتے ہیں‘ ہم سنگین کی نوک کے ذریعے خود کو ان پر مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ معاملات یونہی آگے چلتے رہے حتیٰ کہ 2019ء میں ہندو قوم پرست نریندر مودی نے کشمیرکے اس خصوصی درجے کا خاتمہ کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے اور کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یعنی کشمیریوں کی اپنی رائے‘ جواہر لال نہرو کے اعلان اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے علی الرغم حل کی طرف بڑھنے کے بجائے اسے مزید تکلیف دہ اور پیچیدہ بنا دیا۔
پاکستان نے مسلسل کشمیریوں کا مقدمہ لڑا ہے اور اس کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں‘ جنگیں لڑی ہیں اور معاشی تکالیف برداشت کی ہیں۔ اب تک ہمارا مؤقف یہی ہے لیکن میں جب بھی اس معاملے کو سوچتا ہوں‘ اس میں عالمی برادری کی چشم پوشی کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کی بے حسی کا سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ یہ انگریز تھے جو برصغیر چھوڑ کر اور بعد کے انتظامی فیصلے کرکے گئے تھے۔ یہ برطانیہ تھا جنہوں نے طے کیا تھا کہ ریاستیں اپنی مرضی کے مطابق کسی سے بھی الحاق کر سکتی ہیں۔ زمانے بھر میں انگریز اپنے عدل و انصاف کی کہانیاں سناتے آئے ہیں۔ تقسیم ہندوستان صدیوں پرانی نہیں‘ صرف 76 برس پرانی بات ہے۔ اس کا تمام ریکارڈ محفوظ ہے۔ وہ تمام فیصلے فریقین کے دستخطوں کے ساتھ محفوظ ہیں جن پر عملدرآمد ہونا تھا۔ یہ کسی جگہ طے نہیں ہوا تھا کہ کچھ ریاستوں کو راجہ کی اور کچھ کو پَرجا کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ اس چشم پوشی‘ بے حسی اور ناانصافی کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو ایٹمی طاقتیں ہر کچھ سال کے بعد لڑائی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں انسان محبوس رکھے جاتے ہیں۔ انہیں قید و بند‘ تفتیش‘ قتل اور تشدد سے روز گزرنا پڑتا ہے۔ اسی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ چھ لاکھ کشمیری جدوجہدکے نتیجے میں اپنی جانوں سے چلے گئے۔ لاکھوں نوجوان عین جوانی میں قبروں میں جا سوئے۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیاں گزر گئیں‘ نو لاکھ بھارتی فوج مسلسل کشمیر میں موجود ہے۔ عالمی میڈیا پر بھی اس کی رپورٹس موجود ہیں‘ انسانی حقوق کے اداروں میں بھی۔ کتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ کشمیر نسل کشی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ فیضؔ کا شعر یاد آتا ہے :
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے