شہرِ کراچی پر مجھے کئی حوالوں سے رشک آتا ہے ۔ کئی حوالوں سے جو فضیلتیں اس کے اور اس کے شہریوں کے پاس ہیں وہ کسی اور کو نہیں مل سکیں ۔اور76 برس میں نہیں مل سکیں تو آئندہ بھی امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔صرف یہ نہیں کہ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔صرف یہی نہیں کہ یہ سمندر کے کنارے واقع ہے۔صرف یہی نہیں کہ یہ ملک کا پہلا دارالحکومت ہے۔صرف یہی نہیں کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور تجارتی راستہ ہے۔صرف یہی نہیں کہ یہ شہر سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔صرف یہی نہیں کہ سب سے زیادہ مخیر برادریاں اور اہلِ دل یہیں پائے جاتے ہیں ‘اس کی ٹوپی میں جو پر لگے ہوئے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں ۔
میرے مرحوم چچا مفتی محمد رفیع عثمانی کہا کرتے تھے کہ کراچی غریب پرور شہر ہے۔پاکستان کا سب سے غریب پرور شہر۔پورے ملک سے ہر طرح کے لو گ یہاں کاروبار اور مزدوریوں کے لیے پہنچتے ہیں ۔متوسط‘نچلا اور پسا ہوا طبقہ جو روٹی کی تلاش میں یہاں آتا ہے اور یہ شہر اسے اپنے فراخ دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔کسی نہ کسی طرح اس کے روزگار کا بھی بندوبست کرتا ہے اوراس کی روٹی کا بھی ۔ کچھ بھی ہوجائے اسے رات کو بھوکا نہیں سونے دیتا۔ ممبئی کی طرح فٹ پاتھوں پر نسل در نسل بسیرا کرنے نہیں دیتا۔
میں نے چچا جان مرحوم سے یہ بات کئی بار سنی اور خود عملی طور پر اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ میری رہائش لاہور میں رہی ہے لیکن لاہور کے بعد جتنا کراچی نے مجھے بسر کیا ہے اتنا کسی اور شہر نے نہیں ۔یہ ہمارا(اور ہمارا کے لفظ میں میرے خاندان کے لوگ اور احباب وغیرہ بھی شامل ہیں)برس ہا برس کا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کراچی میں روزمرہ اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوتی ہیں‘مکینک‘پلمبر‘مستری اور دست کاروں کا معاوضہ بھی‘ڈاکٹروں کی فیس بھی اور کھانے پینے کی چیزوں کے دام بھی ۔لاہور سے کراچی جاکر ہم حیران ہوجاتے ہیں جب کئی گنا کم قیمت میں وہی کام اچھے طریقے پرہوجاتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ مجھے یہی لگتی ہے کہ کراچی میں یہ معاشرتی چلن ہے کہ منافع جائز رکھا جائے او ر لوگوں کا بھی احساس کیا جائے۔یہ بات نہیں کہ ناجائز منافع خور وہاں نہیں ہیں لیکن ہر شہر کا ایک عمومی مزاج بھی ہوا کرتا ہے اور کراچی کا مزاج دوسرے شہروں کی نسبت سادگی اور کم منافع کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔آپ جیسے جیسے شمال کی طرف سفر کرکے دوسرے شہروں کی طرف بڑھتے جائیں نمائش پسندی اور زیادہ منافع کمانے کا رجحان بھی بلندی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔اسی لیے کراچی میں ایسے لوگ بھی زیادہ تعداد میں موجود ہیں جو عام لوگوں کے مفاد کے لیے بے لوث کام کرتے رہتے ہیں۔میں نے کچھ دن پہلے وہ خبر یں دلچسپی سے پڑھیں اورویڈیوز دیکھیں جن میں ایک رفاہ عامہ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ نے پھلوں کی بے تحاشا مہنگائی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے احباب تین چار دن تک ہر طرح کے پھلوں کا بائیکاٹ کریں گے۔اس تنظیم کے لوگوں نے کراچی کے علاقے واٹر پمپ کے بازار میں بنائی جانے والی وڈیوز میں دکھایا کہ کس طرح مثلاً سرکاری نرخ کے مطابق 53روپے کلو گرام قیمت کی گاجریں 65 روپے کی ایک پاؤ بیچی جارہی ہیں اور لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔فروٹ چاٹ جو افطاری کا ایک اہم جزو ہوا کرتا ہے‘وڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک متوسط گھرانے کی فروٹ چاٹ کے لیے لگ بھگ 2700روپے کے پھل خریدنے پڑے جو سرکاری نرخ سے تین سو گنا زیادہ ہیں۔ اس بائیکاٹ سے مجھے یاد آیا کہ کئی سال پہلے بھی کراچی میں اسی طرح پھلوں کا بائیکاٹ کیا گیا تھا جس کے مثبت اثرات نکلے تھے اور نرخ چند دن میں نیچے آگئے تھے۔کراچی ہی کے ایک اور نوجوان نے دس روپے کلو گرام کا اعلان کرکے پھلوں کی جو ریڑھی لگائی ہے وہ بھی اسی عوامی شعور اور گرانی کے خلاف اپنی سی جد و جہد کا ایک مظہر ہے۔ ان اعلانات کا حشر جو بھی ہو‘اس کا کوئی اثر پڑے یا نہ پڑے‘یہ بات تو مانیں کہ کسی اور شہر کے لوگوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی ۔ کئی سال پہلے بھی کراچی ہی نے اس کی ابتدا کی تھی اور اب بھی کراچی ہی اس کا محور بنا ہے۔کیا ہم دوسرے شہروں کے لوگوں کو ‘جو اس سے زیادہ مہنگائی میں پس رہے ہیں‘ان اعلانات سے کچھ شرم آتی ہے؟
غیر معمولی مہنگائی کے دو اسباب ہو ا کرتے ہیں ۔ ایک وہ عالمی مسائل جو عوام اور حکام کے بس میں نہیں ‘دوسرے وہ جو ناجائز منافع خوری اورچور بازاری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور جس کا سدباب انتظامیہ کا کام ہے۔ وہ انتظامیہ جو اس پورے منظر میں کہیں نظر آتی ہی نہیں۔ بائیکاٹ کے مخالف خوانچہ فروشوں اور ریڑھی والوں کی دہائیاں دے رہے ہیں کہ اصل نقصان ساہوکار کا نہیں غریب پھل فروش کا ہوگا۔ مزیدار بات یہ سننے میں آئی ہے کہ سرکاری پرائس کنٹرول کمیٹی اور کمشنر سمیت انتظامیہ جو قیمتیں ٹھیک رکھنے پر مامور ہے وہ بھی بائیکاٹ کی حامی ہے اور لوگوں کیساتھ اس مہم میں شریک ہے۔خبر نہیں کہ یہ خبر درست ہے یا نہیں لیکن ان سب کو ان کے عہدوں سے فارغ کرنا چاہیے۔گر تین دن کے مقاطعے سے قیمتیں ٹھیک سطح پر واپس آسکتی ہیں تو سرکاری اختیار سے ایسا کیوں نہیں ہوسکا اور یہ بزرجمہر پھر کس مرض کی دوا ہیں۔صرف اپنا مال بنانے کے لیے ؟اور سچ یہی ہے کہ سرکاری اہلکار بس اپنی جیبیں بھرنے کا کام ہی ٹھیک سے کرپاتے ہیں باقی کاموں کے لیے وہ نااہل ہیں ۔اگرچہ ہم سب کو معلوم ہے کہ صارف عدالتوں (Consumer Courts)کے نام کا ایک انصاف بھی پایا جاتا ہے لیکن اس کا اب تک کیا فائدہ ہوا ہے اور کتنے لوگوں کو وہاں سے ریلیف مل سکا ہے.یہ اگر کسی کو پتہ ہے تو بتائے۔
با شعور معاشروں نے مل کر بہت سی بائیکاٹ مہمات میں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔مجھے بچپن کا پڑھا ہوا ایک مضمون یاد ہے جس میں کسی یورپی ملک کے ایک قصبے میں ڈبل روٹی فروش کے یہاں خریداروں کی قطاریں موجود ہیں۔کاؤنٹر پر موجود ایک گاہک عورت ڈبل روٹی سونگھ کر باسی ہونے کی شکایت کرتی ہے اور کچھ خریدے بغیر دکان سے نکل جاتی ہے۔اگلی عورت اور پھر اگلی عورت اور پھر اگلا گاہک۔ہر ایک کا طرز عمل یہی ہے۔دوپہر تک ایک بھی ڈبل روٹی نہ فروخت ہونے پر نان بائی صاحب کا دماغ ٹھکانے آجاتا ہے اور اسے قیمتیں سابقہ نرخ پر لے جانی پڑتی ہیں۔
مہنگائی اور پھر مصنوعی مہنگائی تو براہ راست ہر ایک کی جیب سے متعلق ہے ۔سرکاری اہل کار اور مافیاز کا کھیل جو ہر رمضان اور ہر تہوار پریہ سمجھ کر کھیلا جاتا ہے کہ عوام مجبوری میں اسے بھی قبول کرلیں گے۔اور سچ یہ ہے کہ کوئی راستہ نظر نہ آنے کے باعث عوام ہر ایسے ناجائز بوجھ کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا یہ دباؤ کتنا مؤثر ہوتا ہے ‘ ابھی کہنا مشکل ہے لیکن اس اپیل اور اس تحریک کے نتائج اگر دس فیصد بھی حاصل ہوگئے اور قیمتیں کم ہوگئیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی ۔ لیکن میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ نتائج سے قطع نظر اس طرح کی ایک تحریک متوسط طبقے کی طرف سے پیدا ہوجانا اصل فائدہ ہے جو آگے چل کر بڑے بڑے کام انجام دے سکتی ہے ۔ تجربہ یہی ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور اس کے ثمرات بہت رسیلے۔یہ تحریک خوش آئند سہی صبر آزما بھی ہے ۔بسا اوقات سال ہا سال کا صبر۔ کیا یہ صبر کیا جاسکے گا؟ کیا اس کے ثمرات مل سکیں گے؟ کچھ بھی ہو۔دعا کیجیے کہ اہلِ کراچی کامیاب ہوں کہ ان کی تقلید میں یہ لہر مزید میٹھے پھل لا سکے۔