گہری نیند میں کوئی مجھے دور سے آواز دے رہا ہے ''سعود! اُٹھ جاؤ۔ سحری کرلو۔ وقت تھوڑا رہ گیا ہے‘‘۔ میں نیند کی گہری نیلی جھیل کی تہہ میں کہیں ہوں جہاں سے سطح پر ابھرنا بہت مشکل کام ہے۔ میں کچھ کہتا ہوں۔ غنودگی میں زیر لب کوئی بات جس کا مطلب صرف ایک ہے۔ مجھے تنگ نہ کرو‘ میں سو رہا ہوں۔ قدموں کی چاپ دور چلی جاتی ہے لیکن کچھ آوازیں مسلسل ہیں۔ ان میں روٹی پکانے کی آواز بھی ہے جو باورچی خانے سے آرہی ہے۔ میری بہنوں کی آوازیں ہیں جو دسترخوان لگا رہی ہیں۔ میں اس نیم بیداری میں جان جاتا ہوں کہ مجھے اٹھنا ہی پڑے گا۔ قدموں کی چاپ پھر قریب آتی ہے۔ میری بہن مجھے اس بار جھنجھوڑ کر اٹھادیتی ہے۔ ''سب دسترخوان پر آچکے ہیں۔ کب اٹھو گے تم؟‘‘۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھتا ہوں۔ بے دلی سے منہ دھوتا ہوں اور دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہوں۔ یہاں ہم چھ بہن بھائی اور ہمارے امی‘ بھائی جی (والد) سب موجود ہیں۔ گھی والی روٹی‘ سالن‘ آملیٹ سمیت کئی چیزیں دسترخوان کا حصہ ہیں۔ اس میں دودھ جلیبی یا پھینیاں تو سحری کا لازمی حصہ ہیں اور انہیں ہم بچپن سے سحری کہا کرتے ہیں۔ بچپن کا دور گزر چکا ہے‘ ہم سب بہن بھائی لڑکپن کے دور میں ہیں اور روزہ رکھنا لازمی ہے۔ سحری کے بعد پھر کچھ دیر سونا اور سکول جانا ہے۔ دوپہر کو کانٹے پڑتے حلق کے ساتھ پہلے گول چکر سمن آباد سے واپس پیدل آنا اور پھر افطاری کا انتظار کرنا ہے۔ بازار کا سودا سلف میری ذمے داری ہے‘ سو یہ ذمے داری بھی پوری کرنی ہے۔ بڑے بھائی جان محمود اشرف عثمانی قریبی بڑی مسجد میں تراویح سناتے ہیں‘ اس لیے سرِ شام ان کا قرآن کریم کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ میں انہیں برآمدوں میں پھرتے اور مخصوص لحن میں قرآن پڑھتے دیکھتا ہوں۔ کبھی کبھی وہ بتاتے ہیں کہ آج بہت مشکل پارہ ہے‘ دعا کرنا۔ کئی رشتے داروں کے گھر قریب قریب ہیں‘ اس لیے افطاری کا ایک دوسرے کے گھروں میں بھیجنا ایک لازمی روایت ہے۔ افطار کے وقت گھر سب کی موجودگی لازم ہے۔ گھر سے باہر افطار کا کوئی تصور نہیں۔ شربت‘ فروٹ چاٹ‘ چنا چاٹ‘ تلی ہوئی چیزیں اور پسند کا سالن افطار کا حصہ ہیں۔ افطار کا کافی اہتمام ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ سب کی پسند کا خیال رکھا جائے۔ تراویح کے وقت سب مل کر جاتے اور مل کر واپس آتے ہیں۔ کئی ہمسایے بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ وقت مزے کا ہے اور فراغت کا۔ اور واپسی پر ایک بار پھر کھانے پینے کا دور چلتا ہے۔ یہ اردو نگر سمن آباد موڑ کا کاشانۂ زکی ہے جو ہمیں ایک اہتمام کے ساتھ رمضان گزارتے دیکھتا ہے۔ سخت سردی اور سخت گرمی۔ بارش‘ برسات اور بہار۔ موسم کوئی بھی ہو‘ اس کا ایک ہی نام ہے رمضان۔ رمضان کا موسم ہر موسم پر غالب ہے۔
وقت ہر شے پر غالب ہے۔ زمانہ کروٹ اور منظر کب بدلتا ہے‘ پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ گھر اور وہی جگہ ہے۔ وہی دسترخوان ہے لیکن منظر بدل گیا ہے۔ تصویر سے امی اور بھائی جی (والد) رخصت ہو چکے ہیں۔ بھائی جان کی شادی ہو چکی ہے۔ ان پر بہت سی ذمے داریاں آپڑی ہیں لیکن اب وہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ماں باپ کی طرح بھی اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں۔ کس بہن بھائی نے اچھی طرح کھایا کہ نہیں؟ کس کی پسند کی چیز بنی ہے کہ نہیں؟ پسند کی چیزیں سب اسی دستر خوان پر موجود ہیں۔ کسی چیزکی کمی نہیں لیکن کمی ہے کہ جاتی نہیں۔ ایک بوجھل دل کے ساتھ سحری اور افطاری کرتے ہیں۔ ان پیاروں کو یاد کرتے ہوئے‘ جن کے بغیر سحری افطاری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان چاند سورج کی جدائی محسوس کرتے ہوئے‘ جن کے بنائے سائبان میں ہم آج بھی رہتے ہیں۔
وقت اور منظر ایک اور صفحہ پلٹ دیتے ہیں۔ گھر وہی ہے لیکن اس علاقے میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔ سارا علاقہ کمرشل ہوگیا ہے اور سکون ناپید۔ سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں‘ سب اپنے اپنے گھر میں ہیں اور ماشاء اللہ صاحبِ اولاد۔ بھائی جان علمی ضروریات کے پیش نظر کراچی جا چکے ہیں جہاں ایک بہن بھی شادی کے بعد جا چکی ہیں۔ کاشانۂ زکی میں ہم دو بھائی مقیم ہیں۔ دسترخوان بھی وہی‘ سحری افطاری بھی وہی‘ گھر بھی وہی لیکن تصویریں بدل گئی ہیں۔ کئی تصویریں رخصت ہوگئی ہیں اور کئی چہکتے‘ کھلکھلاتے‘ ہنستے ہنساتے بچوں نے اس تصویر میں جگہ بنا لی ہے۔ یہ ایک نیا دور ہے‘ نئے قہقہے ہیں اور نئے آنسو۔ اس زمانے کی اپنی مسکراہٹیں ہیں اور اپنے غم۔ ساتھ ساتھ ہمجولیوں کی طرح چلتی پھرتی یہ ہنسی اور خوشی تو ہر دور میں ساتھ رہتی ہیں۔ مالک نے کتنی خوشیوں‘ کتنی کامیابیوں سے نوازا لیکن کوئی کانٹا دل میں چبھا رہ جاتا ہے۔ نکلتا ہی نہیں۔
ایک دور ختم ہوتا ہے اور اگلے نئے دور کے لیے جگہ خالی کرتا ہے۔ منظر نامہ بالکل بدل جاتا ہے۔ گھر‘ علاقہ‘ مکین‘ سب کچھ۔ میں جوہر ٹاؤن لاہور کے اپنے نئے گھر میں منتقل ہو چکا ہوں۔ یہاں بہن بھائیوں میں کوئی ساتھ نہیں۔ میں رمضان سے چند دن پہلے اس گھر میں آیا ہوں اور ہر چیز نئی نئی دکھائی دیتی ہے۔ سڑکیں‘ ماحول‘ ہمسایے‘ دکانیں‘ سب کچھ نیا ہے۔ ایک ہی شہر میں بھی ایسا لگتا ہے کسی الگ دیس میں رہ رہے ہیں۔ بچے بڑے ہوکر بڑے تعلیمی دور میں ہیں۔ اسی طرح اپنے کاروباری ٹھکانے پر جانا ہوتا ہے اور شام کو واپسی ہوتی ہے۔ خوشیوں سے تو کوئی دور بھی الحمد للہ خالی نہیں رہا لیکن یہ الگ قسم کی خوشیاں ہیں۔ رمضان اسی طرح اپنی برکتیں اور حلاوتیں لاتا ہے۔ سحری افطاری اسی طرح سجتی ہے۔ تراویح کا اہتمام اسی طرح ہوتا ہے لیکن اس دور کی اپنی شکل ہے جو پہلی شکلوں سے مختلف ہے۔
6رمضان المبارک 1444ہجری کی سحری کے لیے جب کسی نے مجھے آواز دے کر اٹھایا تو میں ایک گہری نیلی جھیل کی تہہ میں کہیں تھا جہاں سے سطح پر ابھرنا بہت مشکل کام ہے۔ میں کچھ کہتا ہوں۔ غنودگی میں زیر لب کوئی بات جس کا مطلب صرف ایک ہے۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ میں سو رہا ہوں۔ قدموں کی چاپ دور چلی جاتی ہے لیکن میں اس نیم بیداری میں جان جاتا ہوں کہ مجھے اٹھنا ہی پڑے گا۔ دور سے کچھ آوازیں آرہی ہیں۔ باورچی خانے میں روٹی پکانے کی آواز۔ سحری کا دسترخوان سجانے کی آواز۔ میں اٹھتا ہوں‘ بے دلی سے منہ دھوتا ہوں اور دسترخوان پر پہنچتا ہوں۔ گھی والی روٹی‘ آملیٹ‘ دودھ جلیبی‘ سب سجے ہوئے ہیں۔ گزرا ہوا سال کئی نئے زخم اور نئی خوشیاں دے گیا ہے۔ نیا دور ہے‘ نئے قہقہے اور نئے آنسو۔ مالک نے کتنی خوشیوں‘ کتنی کامیابیوں سے نوازا لیکن کوئی کانٹا دل میں چبھا رہ جاتا ہے۔ نکلتا ہی نہیں۔ بھائی جان اور چچا رفیع ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ چہچہاتے‘ کھلکھلاتے‘ ہنستے ہنساتے بچوں نے تصویر میں جگہ بنا لی ہے۔ زکی کیفیؔ کے گھرانے کی اس شاخ میں دسترخوان کے گرد تصویریں بدل چکی ہیں۔ میز کے کونے سے میری دو سالہ پوتی مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے۔
بار الٰہا! کیا نظام ہے تیرا۔ موسم آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ سخت سردی‘ سخت گرمی‘ برسات اور بہار۔ موسم کوئی بھی ہو‘ اس کا ایک ہی نام ہے۔ رمضان۔ رمضان کا موسم ہر موسم پر غالب ہے۔ یہ آتا ہے اپنی برکتیں‘ حلاوتیں اور خوشیاں لیے۔ اپنا ماحول لیے۔ اپنا دسترخوان لیے۔ بار الٰہا! کل کے ناگزیر لوگ اب نہیں ہیں مگر سب کچھ اسی طرح ہے۔ کل جب ہم نہیں ہوں گے تب بھی یہ سب کچھ اسی طرح رہے گا۔ سب کچھ۔ رمضان آئے گا اور اس مکان میں دوسرے لوگ رمضان سجایا کریں گے۔ عرفان صدیقی مرحوم! آپ جانے سے پہلے کیا کہہ گئے تھے۔
بھول جائیں گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ
کل جب آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ
دَف بجاتی ہوئی صحراؤں سے آئے گی ہوا
اور پھر ہوں گے یہیں رقص کناں دوسرے لوگ