لیجیے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا۔ ابھی اس کی سرخیاں سامنے آئی ہیں لیکن جو سرخیاں ہیں وہی کافی ہوش ربا ہیں۔ یعنی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا وہ حکم کالعدم قرار دیدیا ہے جس کے تحت پنجاب اور کے پی میں الیکشن 8 اکتوبر کو کرائے جانے طے کیے گئے تھے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ انتخابات 90 دن سے آگے لے کر جائے۔عدالت عظمیٰ نے اپنا سابقہ انتخابی شیڈول معمولی ترمیمات کے ساتھ بدستور رکھا ہے۔ پنجاب میں 14 مئی تک انتخابات کرانے ہوں گے جبکہ کاغذاتِ نامزدگی 10 اپریل تک جمع کرائے جا سکیں گے جبکہ ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی 10 اپریل ہوگی۔ 17 اپریل کو الیکشن ٹربیونل ان اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔ وفاقی حکومت کو عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے اور الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں اس پر رپورٹ جمع کرائے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے وقت ضائع کیا اور اس کی وجہ سے 13 دن کی تاخیر ہوئی۔ آئین و قانون انتخابات کی تاریخ ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ الیکشن پروگرام کے سٹیج 6 سے سٹیج 11 تک مراحل بحال کیے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے فیصلے کے بعد کہا کہ عدالت نے پنجاب کی نگران اور وفاقی حکومت کے تمام عہدے داروں کو الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کا پابند کیا۔ کہا گیا کہ وفاقی حکومت افواج‘ رینجرز‘ ایف سی اور دیگر اہل کار فراہم کرے۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو رقم فراہم کرنے کی پابند ہے۔ فنڈز کی فراہمی میں تاخیر اور نافرمانی پر عدالت کارروائی کرے گی۔
یہ تو ہوئیں فیصلے کی سرخیاں‘ تفصیلات تو آتی رہیں گی لیکن فی الحال کچھ دیگر معاملات بھی توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو‘ جنہیں حکومت نے ایک حکم کے ذریعے اس عہدے سے ہٹایا تھا‘ چیف جسٹس نے فی الحال چارج چھوڑنے سے روک دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کے بار ے میں‘ جس میں انہوں نے تمام از خود نوٹسز پر کارروائی روکنے کا فیصلہ دیا تھا‘ چیف جسٹس نے ایک لارجر بنچ تشکیل دیا جس نے اس فیصلے کو کالعدم کردیا۔ یہ بھی سن لیں کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس ایمرجنسی کا آپشن موجود ہے۔ وہ آرٹیکل کہیں گیا نہیں۔
واپس آئیے عدالتی فیصلے کی طرف! یہ فیصلہ متوقع بھی تھا اور اگرچہ ابھی گرما گرم ہے لیکن ٹھنڈا ہونے پر بھی بہت سے لوگ اس کا ایک لقمہ بھی حلق سے نہیں اتار سکیں گے۔ حکومتی اتحاد کو اس فیصلے کا یقین کی حد تک خطرہ تھا۔ یہ بے چینی اتحادیوں کے اجلاس‘ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس‘ تین رکنی بینچ کے بائیکاٹ‘ وزرا اور مولانا فضل الرحمن کے دھواں دھار بیانات سے واضح تھی۔ قومی اسمبلی میں بھی مسلسل کارروائی ہوتی رہی۔ سوموٹو کے حق اور بینچ بنانے کے فیصلوں پر بھی بہت عجلت میں قانون سازی کی گئی اور دونوں ایوانوں اور کابینہ سے منظور کروا لی گئی؛ تاہم صدرِ مملکت کی طرف سے ضابطے کی مدت پوری ہونے پر ہی اسے قانونی حیثیت مل سکے گی۔ یہ سب معاملات اہم بھی ہیں اور ان سب پر الگ الگ مفصل تبصرہ درکار ہے۔ فی الوقت یہ کالم اس کی گنجائش نہیں رکھتا‘ اس لیے 4 اپریل کے عدالتی فیصلے اور اس کے مضمرات پر ہی بات کرتے ہیں۔
دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب مئی تک مکمل کرنے کا یہ فیصلہ تحریک انصاف کی جیت ہے۔ دوسری طرف سیاسی و معاشی مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی اتحادی حکومت کے لیے یہ ایسی چھچھوندر ہے جو نہ اُگلے بن پڑتی ہے نہ نگلے۔ آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ ہے۔ اتحادی حکومت نے ہر وہ جتن کرکے دیکھ لیا جس سے انتخابات سے فرار ممکن ہو۔ اس کا ساتھ انہوں نے بھی دیا جنہیں آئینی طور پر غیرجانبدار رہنا تھا۔ ان تمام کوششوں کے ناکام ہونے کا ایک بہت بڑا نقصان پی ڈی ایم کو یہ ہوا ہے کہ ہر ایک کو صاف نظر آرہا ہے کہ وہ انتخابات سے‘ جو کسی سیاسی جماعت یا اتحاد کی بنیاد ہوتے ہیں‘ بھاگنا چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم کو جو سیاسی اور انتخابی نقصان ہوتا وہ تو تھا ہی‘ اس میں یہ بہت بڑا نقصان ہوا ہے کہ امیدواروں سے لے کر ووٹروں تک ہر ایک یہی سمجھ رہا ہے کہ ان کی شکست لکھی گئی ہے۔ ایسے میں فطری طور پر مضبوط امیدواروں کا رخ ان کی طرف نہیں ہوگا۔ بڑے بڑے رہنما اپنی نشست محفوظ نہیں سمجھ رہے تو ہما شما کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ دوسرا تاثر جو ہر عام آدمی کے دل میں بہت گہرا ہو چکا ہے‘ یہ ہے کہ یہ سب بڑی بڑی جماعتیں مل کر بھی عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ یہ اکٹھے اور وہ تنہا لیکن پھر بھی سب پر بھاری۔ ایک غیر جانبدار نظر سے دیکھیں تو سچ یہی ہے کہ تحریک انصاف کا مقابلہ جو سیاسی میدان میں کرنا چاہیے تھا‘ وہ انتظامی ہتھکنڈوں سے کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ بھی سب ناکام۔ ایک پہلوان اکھاڑے میں آنا ہی نہیں چاہتا‘ باہر کھڑے ہوکر بڑھکیں مار رہا ہے تو اس کی بڑھکیں کون قبول کرے گا۔ اگر پی ڈی ایم ایک وقار کے ساتھ انتخابات قبول کرتی طوعاً و کرہاً نہیں‘ اپنے امیدوار اتارتی تو پھر خواہ ہار ہوتی یا جیت‘ اس کا سیاسی بھرم رہ جاتا۔ یہ ایک عام سوچنے والا تو سوچتا ہی ہے لیکن کئی اراکینِ قومی اسمبلی نے بھی یہ بات کہنے کی جرأت کی ہے۔ اسی طرح تاثر یہ بھی بن گیا کہ پی ڈی ایم کو اس فرار کے لیے آئین کی بھی پروا نہیں ہے اور وہ ہر ایسا قدم اٹھا رہی ہے جس سے اسے مقابلے سے نجات مل سکے لیکن یہ مقابلہ پھر بھی اس کے سامنے موجود ہے۔
ایک بات پہلے بہت شد و مد سے عمران خان کے خلاف کہی جاتی تھی اور وہ یہ کہ مقتدرہ عمران کی مددگار ہے اور وہ عمران کے حق میں فیصلے لے لیتی ہے۔ سلیکٹڈ کہہ کر عمران کی عوامی مقبولیت پر پھبتی کسی جاتی تھی۔ اب وہ دلیل کہاں گئی؟ اس وقت تو عمران خان مقتدرہ کا ناپسندیدہ ترین سیاست دان ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت کے ماتحت ادارے عمران خان کے خلاف ہیں۔ تو پھر اب یہ معاملات اس کے حق میں کیسے جا رہے ہیں؟ کیا پی ڈی ایم اس کی کوئی توجیہ پیش کرے گی؟
حکومت نے سپریم کورٹ میں تقسیم کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آرا کا اختلاف سو موٹو اور اختیارات پر ہے اور یہیں مرکوز رہا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ اور حامی ججز نے رجسٹرار کے تقرر‘ سوموٹو اختیارات‘ بینچ کی تشکیل‘ منصف کے احتساب‘ اس پر تنقید وغیرہ پر بات کی ہے۔ انتخابات کا معاملہ تو ججز میں زیر بحث ہے ہی نہیں۔ کیا اس بارے میں کسی منصف کی کوئی رائے آئی ہے؟
تو اب حکومت کے پاس فرار کے کون سے راستے بچے ہیں؟ رات گئے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ میں اس فیصلے کو مسترد بھی کردیا گیا لیکن اس سے کیا ہوگا؟ ایمر جنسی کا ذکر بھی وزیر داخلہ نے کردیا لیکن کیا ایمر جنسی کے ذریعے پی ڈی ایم کو انتخابات سے مکمل نجات مل سکتی ہے؟ یقینا نہیں۔ یہ ان کا ایک اور سیاسی نقصان ہوگا۔
پی ڈی ایم کے لیے راستہ ایک ہی ہے۔ خواہ وہ اس سے کتنا ہی بھاگے۔ انہیں انتخاب کی تاریخ قبول کرکے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ سیاسی اتحاد بنانے چاہئیں۔ اب اس کو بھول جائیں کہ اس سے بھاگا جا سکتا ہے۔ غالبؔ نے کہا نہیں تھا:
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے