"SUC" (space) message & send to 7575

14مئی 2023ء،ترکیہ دوراہے پر… (1)

14مئی 2023ء۔ اس تاریخ کی اہمیت یاد آئی؟ یہ سپریم کورٹ کی پنجاب کے انتخابات کے لیے مقرر کردہ تاریخ ہے۔ اگرچہ اس پر یہ انتخابات ہو سکیں گے یا نہیں‘ معلوم نہیں لیکن مشکل ہی لگتا ہے۔ خیر یہ الگ بات ہے۔ پورا پاکستان ان دنوں صرف ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہا ہے۔ انتخابات۔ اس ایک نکتے سے دو مرکزی سوال نکل رہے ہیں۔ انتخابات کب ہوں گے؟ ہوں گے تو کون طاقت کا نیا مرکز بنے گا؟ پی ڈی ایم ہو یا عمران خان‘ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ انتخابات اسی سال 2023ء میں ہونے ہیں‘ اصل اختلاف یہاں ہے کہ کس مہینے میں ہوں۔ اسی اختلافی مسئلے کے گرد اعلیٰ عدلیہ بھی گھوم رہی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی۔
14مئی لیکن ایک اور انتخابات کے لیے بھی بہت اہم تاریخ ہے۔ ایک اور ملک میں بھی انتخابات کا مسئلہ بہت گرم ہے۔انتخابات کی تاریخ طے ہو چکی تھی اور آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں۔ نو دن بعد 14مئی 2023ء کو ترکیہ میں انتخابات میں صدر اور پارلیمانی اراکین کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ کانٹے کا مقابلہ ہے اور صدر طیب اردوان اور ان کی سیاسی جماعت اے کے پارٹی کو اپنی سیاسی زندگی کے سخت ترین مقابلے کا سامنا ہے۔ اتنا مشکل اور سخت مقابلہ انہیں شاید کبھی پیش نہیں آیا تھا۔ ترکیہ کے انتخابات انہی کے لیے نہیں‘ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ اس لیے اس صورتحال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
ترکیہ میں میرے کافی دوست بھی ہیں اور میں گزشتہ کافی برسوں اور قریبی مہینوں میں بہت بار وہاں کا سفر بھی کر چکا ہوں‘ سابقہ انتخابات اور 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت پر بھی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اس لیے کافی معاملات کے بارے میں بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ مجھے ان انتخابات سے دلچسپی ہے اور ترکیہ سے محبت رکھنے والے ہر پاکستانی کو ہونی بھی چاہیے۔ پورا ترکیہ آج کل اسی ایک تاریخ اور اس کے نتائج کے گرد گھوم رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس کے جو دور رس نتائج نکلنے ہیں‘ ان کی وجہ سے دنیا کی نظریں بھی انہی انتخابات پر ہیں۔ ذرا پس منظر تازہ کر لیں۔ اے کے پارٹی 2002ء سے اقتدار میں ہے یعنی 21سال سے جبکہ طیب اردوان 2003ء سے اب تک یعنی 20سال سے کسی نے کسی سربراہی عہدے پر موجود ہیں۔ فی زمانہ جمہوری نظام میں اقتدار کی اتنی لمبی مدت کم کم ہی کسی جماعت اور شخصیت کو نصیب ہوتی ہے۔ کوئی شک نہیں اور یہ عام ترک بھی جانتا ہے کہ اے کے پارٹی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکیہ کو بہت ترقی دی ہے اور وہ ترکیہ جس میں باقی مسائل تو ایک طرف‘ صفائی کے نظام تک کا بڑا مسئلہ تھا‘ ایک ایسی ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جس کا سہرا بجا طور پر طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے۔ اسی طرح انہوں نے ترک فوج کو‘ جو بار بار فوجی انقلاب لانے اور سیاسی رہنماؤں کو پھانسی اور قید کی سزاؤں کے لیے بڑا ریکارڈ رکھتی تھی‘ اپنے اقدامات کے ذریعے اور عوام کی طاقت سے بیرکوں تک محدود کر دیا۔ باقی باتیں چھوڑ بھی دیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ اس کارکردگی کے لحاظ سے اردوان اور اے کے پارٹی کو موجودہ انتخابات میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اصولی طور پر مخالفین کی نسبت ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہونی چاہیے تھی لیکن عملاً ایسا ہے نہیں۔
ان اسباب پر بعد میں بات کرتے ہیں جنہوں نے اے کے پارٹی اور طیب اردوان کو شدید نقصان پہنچایا ہے فی الحال تو موجودہ انتخابات میں صدارتی حریفوں‘ سیاسی اتحادوں اور ان کے بارے میں سروے پر بات کرتے ہیں۔ 14مئی کو چار صدارتی امیدواروں اور پارلیمنٹ کی 600 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ صدارتی امیدوار کی کامیابی کے لیے کم از کم 50 فیصد ووٹ لازمی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو معاملہ اگلے راؤنڈ پر یعنی ان دو امیدواروں کے بیچ رہ جائے گا جنہوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے ہوں۔ اس بار ترکیہ میں صدارتی امیدوار چار ہیں۔ اے کے پارٹی کے سربراہ طیب اردوان‘ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ اور نیشنل اتحاد کے مشترکہ امیدوارکمال قلیچ داروغلو‘ ہوم لینڈ پارٹی کے بانی محرم انجے اور آزاد امیدوار سنان اوگان۔ محرم انجے کی مقبولیت بہت کم ہے لیکن وہ اپنے ووٹوں سے کمال قلیچ کے ووٹ کاٹ سکتے ہیں اور فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ کمال قلیچ کو بھی ہے۔ ایک حالیہ ملاقات میں انہوں نے محرم انجے کو دستبردار ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی لیکن محرم انجے نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ سنان اوگان اگرچہ ایک انتخابی اتحاد کے امیدوار ہیں لیکن اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔
ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے سربراہ کمال قلیچ داروغلو‘ جو چھ جماعتی انتخابی اتحاد نیشنل الائنس کے متفقہ صدارتی امیدوار بھی ہیں‘ طیب اردوان کے سخت ترین حریف ہیں۔ کمال قلیچ داروغلو تجربہ کار سیاستدان ہیں اور اگرچہ ان کی پارٹی ریپبلکن پارٹی تنہا مقبولیت کی ایسی سطح پر نہیں ہے کہ اردوان کا مقابلہ کر سکے لیکن چھ جماعتی انتخابی اتحاد نے‘ جو دراصل اردوان کو اگلے صدارتی دور سے روکنے کے لیے وجود میں آیا ہے‘ اسے مجموعی طور پر سرویز میں اردوان سے کم و بیش پانچ سات پوائنٹ آگے پہنچا دیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے سروے میں نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور ان نتائج میں اپنی خواہشات اور تعصبات بھی شامل کردیے جاتے ہیں۔ سرکاری اور ارودان حامی نتائج کچھ اور کہیں گے اور مخالف کچھ اور۔ اردوان مخالفین انہیں جیتتا دیکھنا نہیں چاہتے‘ ان میں ترکیہ کے اندر اور باہر دونوں طرح کے مخالفین شامل ہیں۔ اس لیے کسی ایک سروے پر انحصار ممکن نہیں ہو سکتا۔ مختلف سروے اور پُولز کا جائزہ لے کر ہی ایک ممکنہ تاثر قائم کیا جا سکتا ہے لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ مقابلہ برابر کا ہے اور نسبتاً اگر کسی حریف کا پلہ بھاری لگتا ہے تو وہ کمال قلیچ داروغلو ہیں جنہیں معمولی سبقت حاصل ہے۔ اس میٹرو پول سروے کے مطابق کمال قلیچ کے حامی 42.6 فیصداور اردوان کے حامی 41.1 فیصدہیں۔ اگر محرم انجے دستربردار ہو جاتے تو کمال قلیچ کے ووٹ پانچ فیصدبڑھنے کا مکان تھا۔ یہ سبقت ایک فیصدسے 10فیصدتک ممکن ہو سکتی ہے۔ کچھ سرویز میں کمال قلیچ کی جیت کے امکان 54فیصد تک بتائے جاتے ہیں جبکہ طیب اردوان 45فیصدپر ہیں۔
اردوان کی مسلسل 20سالہ حکومت اور مبینہ طور پر ان کے مخالفین اور ناقدین کو کچل کر رکھ دینے سے نالاں سیاسی جماعتیں ان کے خلاف نیشنل اتحاد یعنی ملتِ اتفاقی کے نام سے یکجان ہونے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ مختلف الخیال چھ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جن میں ریپبلکن پیپلز پارٹی‘ گڈ پارٹی‘ فیلی سٹی پارٹی‘ ڈیموکریٹ پارٹی‘ ڈیمو کریسی اینڈ پروگریس پارٹی اور فیوچر پارٹی شامل ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی PKKکو جسے ترکیہ‘ یورپی یونین‘ امریکہ دہشت گرد پارٹی قرار دے چکا ہے اور جسے انتخابات میں اپنے نام سے حصہ لینے پر ممانعت ہے‘ صدارتی امیدوار کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کے امیدوار بھی کمال قلیچ ہیں۔ادھر طیب اردوان نے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے سیاسی اور انتخابی اتحاد کیے ہیں جو دائیں بازو کی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔ اے کے پارٹی کے ساتھ نیشنل موومنٹ پارٹی‘ گریٹ یونٹی پارٹی اور ہدا پار پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں۔ ایک بات جو بہت اہم ہے‘ یہ ہے کہ اس بار ساٹھ لاکھ نئے اور نوجوان ووٹرز بھی ہیں جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ یہ وہ نوجوان ووٹر زہیں جنہوں نے ہوش سنبھالا تو طیب اردوان کو ہی اپنا سربراہ دیکھا۔ نفسیاتی بات یہ ہے کہ انسان فطری طور پر تبدیلی چاہتا ہے اور پُرکشش نعرے اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس معاملے کو ترکیہ میں حالیہ خوفناک افراطِ زر جو اکتوبر میں 85 فیصدتک پہنچ گیا تھا‘ ترک لیرا کی تاریخی گراوٹ اور ترکیہ میں چھ فروری کے دو مسلسل زلزلوں نے مزید سنگین کر دیا ہے جن میں 50ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں اور ساٹھ لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں