ڈاکٹر زاہد منیر عامر دیرینہ دوست ہیں۔ان کثیر الجہات‘کثیر المطالعہ‘کثیر التصانیف اساتذہ ٔ ادب میں سے ہیں جو اَب خال خال ملتے ہیں۔ان کی عربی‘ فارسی سمیت کئی زبانوں پر دسترس اس پر مستزاد ہے۔ جامعہ پنجاب کے لیے‘جو میری مادر علمی بھی ہے‘ یقینا فخر اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس زمانے میں اس کے دامن میں ایسی کچھ شخصیات موجود ہیں۔
برادرم زاہد منیر عامر کی تازہ تصنیف مصر۔خواب اور تعبیر میں نے شوق سے پڑھی اور اس کی تقریب پذیرائی میں زبانی اظہارِ خیال بھی کیا۔ جناب زاہد منیر عامر کوکافی سال قبل حکومت پاکستان کی طرف سے‘ جامعہ الازہر‘ قاہرہ میں اردو چیئر پر تین سال کے لیے مامور کیا گیاتو یہ ان کے لیے بیش بہا موقع تھا کہ وہ اس ملک‘ قوم اور تہذیب کے باطن میں رہ کر بہت کچھ اخذ کر سکیں۔ انہوں نے بہت اہم کام یہ بھی کیا کہ پاکستان کے نمائندے کے طور پرمصر میں پاکستان کے تعارف‘ قیام پاکستان کی وجوہات اور اہمیت اور اپنی الگ شناخت پر کالم اور مضامین کے ذریعے توجہ حاصل کی۔یہ کام جو سفارت کاروں کا تھا‘ ایک استادِ ادب نے کیا۔ مصر میں پاکستانی تعارف کی ضرورت اس لیے بہت زیادہ تھی کہ پاکستان اور مصر کے درمیان بیگانگی کی خلیج حائل رہی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ہم سب کا فرض ادا کیا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ مصر۔خواب اور تعبیر اس کتاب کا بہت موزوں نام ہے۔جتنے خواب اور تعبیریں ملکِ مصر سے جڑے ہوئے ہیں اتنے شاید ہی کسی ملک سے وابستہ ہوں۔ مصر سے ہمارا تعارف ہی ایک پیغمبر کے کم سنی میں دیکھے گئے خواب سے ہوتا ہے۔جب حضرت یوسف ؑنے اپنے والد حضرت یعقوبؑ سے کہا:ابا جان ! میں نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔یہاں سے وہ تاریخ کا سفر شروع ہوتا ہے جو ہمیں بالآخر کنعان سے مصر لا کر بالکل اجنبی قوم اور سرزمین سے ملوادیتا ہے۔پھرحضرت یوسف علیہ السلام کے دو ساتھی قیدیوں کے خوابوں اور تعبیروں سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ بادشاہِ مصر کے سات موٹی اور سات دبلی گائیوں کے خواب تک پہنچتا ہے۔مصر اُن ممالک میں ہے جہاں میرا جانا تو نہیں ہوسکا‘ اس لیے یہ خواب ابھی تعبیر کا منتظر ہے لیکن مصر سے میری دلچسپی بہت زیادہ رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ہے۔کم و بیش 15برس سے میں قدیم مصر کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں۔اور اب آکر اپنا حاصلِ مطالعہ ایک ناول کی شکل میں لکھنا بھی شروع کیا ہے‘جس کے کئی ابواب تحریر کیے جاچکے۔قدیم مصر کو میں فراعنہ کے نہیں‘پیغمبروں کے مصر سے یاد کرتا ہوں۔مصر دنیا میں سیاحت کے بڑے مراکز میں ہے لیکن بطور سیاح کسی بھی جگہ کو دیکھنا بہت سرسری دیکھنا ہے۔ یہ الگ بات کہ بطور سیاح سرسری دیکھنا بھی کتنوں کو نصیب ہوتا ہے۔سیاح کے پاس موجود وقت اوروسائل اتنے محدود ہوتے ہیں کہ وہ حق ادا ہی نہیں کرسکتا۔گنے چنے وقت میں گنے چنے مقامات کسی تہذیب اور معاشرے کو ٹھیک بتا ہی نہیں پاتے۔بھید کبھی نہ کھل سکے تجھ پہ قدیم شہر کے /ہوکے گزر گیا مگر مجھ میں رہا نہیں ہے تُو ایک چرب زبان گائیڈ کے رٹے رٹائے جملوں کو سنتا اور اس کے پیچھے ریوڑ کی طرح چلتا سیاحوں کا گروپ مجھے کبھی پسند نہیں آتا۔سیاح کی اپنی معلومات بھی تو ہوں‘اپنا زاویۂ نظر بھی تورکھے۔اپنی رائے بھی تو دل کو بتائے۔زاہد منیر عامر مصر کے باطن میں رہے‘اس کے دل میں نفوذ کیا۔اس کی تعلیمی‘ادبی‘ معاشرتی‘سیاسی جہات کا قریبی مشاہد ہ اور محاکمہ کیا۔ان کی اپنی معلومات‘زاویۂ نظر اور ٓراء ہیں اور کسی ایسی کتاب میں انہی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
میری صاف گوئی کو معاف کیجیے‘موجودہ مصری قوم اور اس کے مزاج کے بارے میں میرا تاثر کبھی اچھا نہیں رہا۔ظاہر ہے کہ تاحال یہ تاثر پڑھا پڑھایا‘سنا سنایا کے درجات سے اُٹھ کر دیکھا دکھایا تک نہیں پہنچا۔ لیکن جو کچھ میں نے اس بارے میں پڑھا‘مصر سے لوٹنے والے دوستوں سے علم میں آیا اور پاکستانی ہی نہیں مختلف اقوام کے سیاحوں کی روداد سے جانا‘ان سب سے دل نے کوئی اچھا اثر قبول نہیں کیا۔اس میں اس جہت کا اضافہ بھی کرلیجیے کہ مصری حکومتوں کاپاکستان کی طرف سرد رویہ ہمیشہ دلخراش رہا ہے۔ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ بڑے سیاحتی مرکز بہت سی خرابیوں کا مرکز بن ہی جاتے ہیں۔ حرص‘دھوکا‘ خود غرضی‘پیسہ کمانے کے ہتھکنڈے‘ سیاحوں کی جیب خالی کرنے کے طریقے ہر جگہ ہوا کرتے ہیں۔اگر مصر میں بھی ہیں تو یہ کوئی اچھوتی بات نہیں۔
میں نے کتاب کے وہ حصے سب سے پہلے پڑھے جو قدیم تاریخی مقامات کی سیاحت سے متعلق تھے‘مثلا اُس پہاڑ کی دلچسپ رودادِ سیاحت‘ جو مصر میں واقع ہے اور جبلِ طور کہلاتا ہے۔جیسا کہ میں نے کہا میں پندرہ سال سے ان مقامات کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں اور اب لکھ بھی رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پہاڑ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غلط منسوب ہے۔ اسی طرح اس کے قرب وجوار کے جو مقامات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہیں وہ بھی بدیہی طور پر غلط ہیں۔ یہ طے ہے کہ ایک پہاڑ جسے بائبل نے ماؤنٹ حورب کہا اور قرآن کریم طور‘طور سینین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتا ہے‘ موجود ہے۔لیکن اس کا جغرافیائی محل وقوع کیا ہے ؟یہ کس نے اور کب طے کیا کہ مصر میں موجود یہ پہاڑ جبلِ موسیٰ ہے ؟کیا قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے ذخیروں نے کوئی محل وقوع طے کیا ہے ؟کم از کم میرے علم میں کوئی ایسی دلیل نہیں۔اس پہاڑ کو مصر میں نہیں‘مصر سے باہر مدین کے قریب ہونا چاہئیے۔ تاریخی حوالے مدین کو رومن صوبے پیٹریامیں بتاتے ہیں۔پیٹریا شمالی سعودی عرب‘ اردن اور اسرائیل کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ (پیٹرا اور پیٹریا الگ ہیں۔پیٹرا ایک شہر تھا جو نباطی تہذیب کا نمائندہ شہر سمجھا جاتا ہے )۔تاریخ کی پرتیں کھولیں تو 325صدی عیسوی میں یعنی ظہو راسلام سے بھی قبل ملکہ ہیلینا کا ذکر ملتا ہے جو رومی بادشاہ قسطنطین کی ماں تھی۔قسطنطین کی زندگی میں خوابوں اور بشارتوں کی بھرمار ہے۔ملکہ ہیلینا کو بائبل کے آثار قدیمہ (Biblical Archaeology)کی پہلی خاتون بھی کہا گیا ہے۔عیسائی عقیدے کے مطابق جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا‘اس کے اصل ہونے کا فیصلہ بھی ہیلینا نے تین ملتی جلتی صلیبوں میں سے ایک کے حق میں کیا تھا۔کس بنیاد پر ؟ پتہ نہیں۔اسی ملکہ ہلینا نے کہا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس پر تورات نازل ہوئی تھی۔اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کو کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے تھے۔ بادشاہ اور ملکہ کے فیصلوں سے کون سرتابی کرسکتا تھا؛چنانچہ اسے جبلِ طور قرار دیا گیا۔بعد ازاں اس پر سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ بھی بنادی گئی۔ظہور اسلام کے وقت یہی مشہور تھا ؛چنانچہ مقامی باشندے بھی اسی حکومتی فیصلے کو مانتے تھے۔لیکن سوال یہ ہے کہ تاریخی‘ عقلی‘اکتشافاتی دلائل کی روشنی میں اس پہاڑ کا یہ تقدس مانا جاسکتا ہے؟ جواب یہی ہے کہ بالکل نہیں۔زاہد منیر عامر محقق ہیں اس لیے انہوں نے کئی جگہ شبہات کا اظہار کیا ہے۔سینٹ کیتھرائین خانقاہ میں نبی اکرمﷺ سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جاتا ہے‘خود اس کی استنادی حیثیت کیا ہے اور یہ بات احادیث کے ذخیرے میں کیوں نہیں ؟پھر یہ دستاویز بھی جبلِ طور کے اصل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق نہیں بلکہ سینٹ کیتھرائن کے تحفظ سے متعلق ہے اور مسلمان ہمیشہ عبادت گاہوں کے تحفظ کو مانتے رہے ہیں۔میں سمجھتا ہو ں کہ ایک آزادانہ علمی تحقیق کی بہت ضرورت ہے‘ جو عیسائی اور یہودی محققین سے استفادہ توکرے لیکن تجزیے قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں کرسکتی ہو۔مصر خواب اور تعبیر ایک منفرد کتاب ہے اور ایسی کتاب کی ہمارے یہاں یقینا بہت کمی ہے۔