ڈاکٹر صاحب میرے خیر خواہ بھی تھے اور بہت سی لاپروائیوں سے واقف بھی۔ میری صحت کے کچھ پہلوؤں پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ایک لمحہ رکے اور کہنے لگے؛ ''ایک تو پرہیز‘ دوسری دوا‘ تیسرے باقاعدہ چہل قدمی اور چوتھے یہ کہ ذہنی دباؤ اور ٹینشن کو کم از کم رکھنا۔ ان سب کا اہتمام کریں۔ یہ سب بہت ضروری ہیں‘‘۔ میں باہر گاڑی میں آکر بیٹھا تو سوچا کہ یہ سب کام بہر صورت کرنا پڑیں گے۔ پرہیز کے معاملے میں بہت لاپروا ہوں لیکن چلئے‘ ممکنہ سختی اور پابندی سے شروع کرتا ہوں۔ دوا کا کوئی مسئلہ نہیں‘ پہلے بھی لازماً لیتا ہوں تو سو فیصد باقاعدگی کے بعد مزید باقاعدگی کی ضرورت ہی نہیں۔چہل قدمی کبھی کبھی چھوٹ جاتی ہے تو اسے اور بہتر کرتے ہیں لیکن ذہنی دباؤ؟ ٹینشن؟اسے کیسے کم کیا جائے۔ جب تک زندگی جاری ہے‘مسائل بھی جاری ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ انسان کاروبار بھی کرے‘ گھریلو زندگی بھی ہو‘ بڑے شہروں میں بھی رہے‘ کالم نگاری اور شاعری بھی کرے اور ذہنی دباؤ اور ٹینشن سے بھی دور رہے۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو بنیادی سہولتوں کے سرکاری محکمے ہی روز آپ کا فشارِ خون بلند ترین کنارے پر پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور یہ تو اللہ کا بہت کرم ہے کہ اس نے کروڑوں‘ لاکھوں پریشانیوں سے دور رکھا ہوا ہے‘ اگر وہ بھی ان میں شامل ہو جائیں تو پھر؟ اس زندگی کے ساتھ ذہنی دباؤ سے دور رہنے کی ہے کوئی صورت؟ مجھے اقبال عظیم مرحوم کا شعر یاد آیا:
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
مے کشی بھی جرم ہے اور خود کشی بھی جرم ہے
میں نے بھی کسی ایسی ہی رَو کے زیر اثر کہا تھا کہ
یہ لوگ کہتے ہیں دل پر نہ بات لو لیکن
بغیر دل پہ لیے کام بھی نہیں ہوتا
اس لیے یہ طے ہے کہ ذہنی دباؤ سے تو بچا نہیں جا سکتا۔ ہاں کم کرنے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔ کتابیں‘ فلمیں‘ غیرضروری ملاقاتوں سے گریز‘ باغبانی‘ چھوٹے بچوں سے خوش گپیاں۔ ہاں یہ سب تو کیا جا سکتا ہے۔ سو ان دنوں جو کچھ چھٹیاں اور فارغ وقت ملا‘ اس میں کئی کتابیں پڑھیں‘ کئی فلمیں دیکھیں‘ باغبانی کی اور بچوں کے ساتھ موج اڑائی۔ کئی ایسی فلمیں دیکھ ڈالیں جن کے بارے میں کئی دوستوں سے سنا تھا۔ باقی باتیں کسی اور وقت۔ آج ان چند فلموں کی بات۔Money Heist‘ Breaking bad‘ Queen Gambitنامی سلسلہ وارفلموں (seasons) کی بہت تعریف سنی تھی۔ سو وہ دیکھ ڈالیں۔ کوئین گیمبٹ ایک یتیم لیکن ذہین لڑکی کی داستان ہے جو یتیم خانے میں پرورش پاتی ہے اور وہیں ایک شخص کے ذریعے شطرنج کے کھیل سے متعارف ہوتی ہے۔ اس کا انہماک اتنا بڑھتا ہے کہ اسے رات کو سوتے ہوئے بھی چھت پر شطرنج کے مہرے حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس میں منجھتی جاتی ہے۔ پہلے اپنے یتیم خانے کے استادکو شکست دیتی ہے‘ پھر اپنے قصبے‘ پھر علاقے‘ پھر صوبے اور پھر ملک میں اس کی دھوم مچتی ہے اور وہ ایک ایک کرکے تمام نامور کھلاڑیوں کو ہراتی ہے۔ اس کا عروج روس کے عالمی چیمپئن کو شکست دینا ہے جس سے وہ پہلے ایک بار شکست کھا چکی ہے۔ یہ ایک بھرپور فلم ہے اور شطرنج جاننے والے یقینا اس سے بہت لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
منی ہائسٹ سپین کے ایک مرکزی بینک میں شاطر مجرموں کے ایک گروہ کی ڈکیتی کی کہانی ہے جو پہلے بینک میں کامیاب ڈکیتی کرتا ہے اور پھر سپین ہی کے ایک سرکاری ادارے سے سونے کے ذخائر چراتا ہے۔ ان کا ماسٹر مائنڈ ایک شاطر مجرم ہے جو پروفیسر کہلاتا ہے۔ ابتدائی قسطوں یعنی ایپی سوڈز میں کہانی دلچسپ لگی تھی لیکن جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ فلم بنانے والوں نے محض کاروباری مقاصد کیلئے غیرحقیقی طول دینا شروع کردیا ہے۔ کرداروں سے ایسے کام کروائے جانے لگتے ہیں جو عملی زندگی اور صورتحال میں ممکن ہی نہیں۔ اس مرحلے پر منی ہائسٹ سے دل بیزار ہوگیا۔ اس لیے اسے چھوڑ کر بریکنگ بیڈ دیکھنا شروع کردی۔ پہلی قسط نے ہی اپنی طرف کھینچ لیا۔ کیمسٹری کے ایک بہت قابل ہائی سکول ٹیچر والٹر وائٹ کا کردار برائن کرانسٹن نے نہایت خوبی سے ادا کیا ہے۔ وہ نیو میکسیکو کی نیم صحرائی ریاست میں مقیم ایک نہایت ذہین لیکن مالی مسائل سے دوچار شخص ہے‘ ایک محبت کرنے والی بیوی‘ ٹانگوں سے معذور بیٹا اور نوزائیدہ بیٹی اس کی زندگی ہیں۔ اس کا ہم زلف ہینک امریکہ کی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کا بہت نامور ایجنٹ ہے۔ بدقسمتی سے والٹر تیسرے درجے کے پھیپھڑوں کے کینسر کا شکار ہو جاتا ہے۔ علاج کے لیے پیسے چاہئیں اور پیسے ہیں نہیں۔ رقم کی شدید ضرورت اور شدید کمی اسے منشیات کے کاروبار کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ کیمسٹری کا اعلیٰ علم رکھتا ہے اور منشیات میں ملوث اپنے ایک خاصے نالائق شاگرد کے ساتھ مل کر Methمنشیات بنانا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس کی ایک نہایت خاص میتھ پراڈکٹ منشیات مارکیٹ میں بہت بکنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں سے اس کی دہری زندگی شروع ہوتی ہے۔ اس کا ہم زلف ہینک اس خاص پراڈکٹ اور اس نیٹ ورک کے پیچھے لگ جاتا ہے لیکن اسے یہ علم نہیں کہ اس کا اپنا رشتے دار والٹر وائٹ ہی یہ نشہ بنا رہا ہے۔ کہانی آگے چلتی رہتی ہے لیکن زبردستی کھنچتی نہیں بلکہ دلچسپی اپنی طرف مبذول رکھتی ہے۔بریکنگ بیڈ میں بہت سے ایسے موڑ ہیں جو انسان کی نفسیات اور عملی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک معصوم‘ بے ضرر‘ ڈرپوک مگر ذہین پروفیسر کا بتدریج ایک مجرم میں ڈھلنا۔ ابتدائی طور پر جھوٹ بولنے سے لے کر قتل تک ہر کام کر گزرنا۔ پیسے کی اچانک ریل پیل ہو جانا اور ایک مرحلے پر پیسے کی کوئی وقعت نہ رہنا۔ علاج اور کاروبار کے لیے وافر رقم ہو جانے کے باوجود اس کاروبار میں اس حد تک منہمک ہو جانا کہ بنیادی مقصد پیسہ بھی نہ رہے بلکہ یہ خود ایک نشہ بن جائے‘ یہ سب اس میں بہت عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔ اس ذہن کو بہت شفاف طریقے سے دکھایا گیا ہے جس میں کئی نسلوں کے لیے بہت کافی رقم جمع ہو جانا بھی کافی نہیں ہوتا۔ بالآخر والٹر وائٹ اس کام کو ترک کر دینے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہینک اس کی اصلیت جان چکا ہوتا ہے اور جس کے لیے یہ سب کیا گیا تھا یعنی اس کی بیوی اور اولاد۔ وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں۔
یہ جو بات ہے کہ اپنی ملازمت یا کاروبار بعض اوقات خود ایک نشہ بن جاتا ہے‘ میں نے بہت سے لوگوں میں خود بھی دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے کاروباری اڈے پر چاہے خالی بیٹھے رہیں لیکن یہ انہیں سکون دیتا ہے حالانکہ گھر کا آرام وہاں نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ روزگار کامیاب بھی ہو اور مقاصد اچھے طریقے سے حاصل بھی ہو رہے ہوں تو یہ دو آتشہ نشہ ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کاروباری لوگ گھر بیٹھ جانے کے کچھ ہی دن بعد بیمار ہو جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اعلیٰ عہدوں سے ریٹائرڈ لوگ بے شمار نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اکثر ان کے بارے میں مسلسل بری خبریں آنے لگتی ہیں۔ زندگی میں ایک مقصد‘ ایک منزل‘ ایک نصب العین باقی رہنا انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے بھی بہت اہم ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کام ذہنی دباؤ بڑھاتا نہیں‘ کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
میں نے یہ فلمیں اپنے شوق کیلئے اور اپنا ذہنی دباؤ کم کرنے کیلئے دیکھی تھیں۔ اور یہ ہلکی پھلکی تحریر اپنے جیسے لوگوں کے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کیلئے لکھی ہے۔ لیکن اگر اسے پڑھ کر آپ کا دباؤ کم نہیں ہوا بلکہ بڑھ گیا ہے تو میرا مشورہ ہے کہ اپنے پرہیز میں ایسی تحریروں سے پرہیز بھی شامل کر لیں۔ اور اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اپنے جیسے ہیں۔ میرے جیسے ہرگز نہیں۔ خیر جیسے بھی ہیں جہاں بھی ہیں‘ خوش رہیں۔