افغانستان میں طالبان حکومت کو دو سال پورے ہو چکے۔ اگست 2021ء میں بلند بانگ دعوے کرنے والے وہ حکمران صدارتی محلات چھوڑ کر راتوں رات چوروں کی طرح فرار ہوئے تھے‘ جن کے پشت پناہ امریکہ اور ہندوستان تھے۔ فرار کے وقت وہ نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس لے جانا نہیں بھولے تھے۔ اشرف غنی اب کہاں ہے؟ رشید دوستم کہاں اور کس حال میں ہے؟ اس وقت کے باقی طاقتور لوگ کن ملکوں میں چین کی نیند سوتے ہیں؟ کون جانے۔ اب تو کبھی نام بھی سنائی نہیں دیتا۔
طالبان کا یہ دو سالہ دورِ حکومت افغانوں‘ پاکستانیوں اور دنیا بھر کے لیے کیسا رہا؟ یہ موضوع الگ تفصیلی کالم کا متقاضی ہے۔ افغانستان میں بہرحال امن و امان قائم ہوا لیکن خواتین‘ تعلیم‘ عمومی خوشحالی اور عوامی فلاح کے بارے میں توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ کوئی ایسی واضح حکمت عملی نظر نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ مسلسل جنگوں اور خانہ جنگی سے تباہ شدہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی جد و جہد کر رہا ہے۔ صنعتیں لگ رہی ہیں‘ ڈیم بننا شروع ہوئے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات پر توجہ دی گئی ہے۔ طالبان قیادت کے اندر بھی دو طرح کے عناصر ہیں۔ ایک طرف سخت‘ بے لچک اور شدت پسند اور دوسری طرف مصلحت شناس‘ متوازن اور معتدل ذہن۔ انہی دونوں کے بیچ کشمکش میں یہ دو سال گزر گئے ہیں۔ خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں ان کا کردار ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر دونوں ذہن الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ حتمی نتیجہ یہ کہ کوئی نتیجہ نکل نہیں پا رہا۔ فیصلہ ہو تو نتیجہ بھی نکلے۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے اپنی بے شمار مشکلات کے باوجود طالبان کی ہر ممکنہ مدد کی۔ طالبان برسر اقتدار آئے تو یہاں باقاعدہ خوشیاں منائی گئیں۔
حامد کرزئی کا دور ہو یا اشرف غنی کا‘ ان کا سارا عرصۂ اقتدار پاکستان کو ملزم کے طور پر کٹہرے میں کھڑارکھنے میں گزرا تھا۔ اپنی ہر ناکامی کی وجہ وہ پاکستان کو قرار دیا کرتے تھے۔ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستانیوں کو عام طور پر یہ امید تھی کہ اب ہماری یہ سرحد پُر امن اور محفوظ ہو جائے گی۔ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شرع ہوگا۔ اور افغانستان میں ہندوستانی اڈوں سے جو دہشت گردوں کی مدد ہوا کرتی تھی‘ وہ سلسلہ ختم ہوگا۔ لیکن حیرت انگیز اور غیر متوقع طور پر پاکستان کی یہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ ہندوستان کا اثر و رسوخ کم ضرور ہوا لیکن ختم نہیں۔ طالبان کی طرف سے وہ دوستانہ رویہ جس کی توقع کی جارہی تھی‘ دیکھنے میں نہیں آ سکا۔ نئی حکومت کا ایک سرد رویہ شروع سے محسوس ہوتا ہے جس میں اپنائیت اور گرم جوشی کی سخت کمی ہے۔ اعلیٰ سطح پر دونوں ملکوں کی قیادت میں بھی کوئی رابطہ نظر نہیں آتا۔ نہ کوئی دو طرفہ دورے دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستانی علما کے ایک بڑے وفد نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی‘ جو پاکستان ہی کی نہیں‘ عالمِ اسلام کی بہت بڑی شخصیت ہیں اور جن کے تلامذہ بھی دنیا بھر خاص طور پر افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں‘ کی سربراہی میں کابل کا دورہ کیا تھا اور افغان زعما اور علما سے ان کی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس وقت یہ محسوس ہوا تھا کہ شبہات اور غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں اور بدگمانیوں کا بھی ازالہ ہورہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ تاثر آگے نہیں بڑھ سکا۔ یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ طالبان قیادت میں کافی عناصر ایسے ہیں جو پاکستان کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں اور انہی کے دباؤ کی وجہ سے طالبان حکومت کھل کر پاکستان کے ساتھ تعلقات نہیں بنا سکی بلکہ کچھ نئے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی کا ہے جس کے دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ بلوچستان‘ قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ شہادتیں جاری ہیں اور خون بہنا بند نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ قبل سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کھل کر افغانستان کا نام لیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی ان دہشت گردوں کے افغانستان میں اڈوں اور افغان حکومت کی ان کی طرف سے چشم پوشی پر بات کی۔ اگر یہ سب کچھ ہندوستان کی ایما پر نہیں ہو رہا تو پھر اس کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں؟ یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ جب پہلے ہی دن طالبان نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یہ بات بار با ردہرائی بھی جاتی رہی ہے تو دوسال گزرنے کے باوجود یہ سلسلہ تیز تر کیوں ہوتا گیا ہے؟
یہ بات بھی قابلِ فہم نہیں ہے کہ طالبان‘ جنہیں عمومی طور پر دنیا بھر میں پسند نہیں کیا جاتا اور جو عالمی تنہائی کا شکار ہیں‘ اپنے محسن پاکستان سے بگاڑ کر کیا فائدہ حاصل کریں گے؟ ایک طرف یہ احسان فراموشی ہو گی اور دوسری طرف چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے افغانستان کے لیے یہ دانائی نہیں ہو گی کہ وہ اپنے ہمسائے کو اپنا مخالف بنا لیں جو ان کی سپلائی کی شہ رگ ہے۔ یہ معاملہ پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے کہ اس کے سرحدی علاقے افغانستان کی طرف سے غیر محفوظ نہ رہیں۔ یقینا پاکستانی حکام کے علم میں وہ معاملات ہوں گے جن کی وجہ سے کچھ عناصر مسلسل طالبان حکومت میں پاکستان کے خلاف محاذ آرائی اختیار کیے رکھتے ہیں۔ ایسے مسائل یقینا لا ینحل نہیں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ایک بڑے بھائی کی طرح پیش قدمی اور پہل کرکے افغان حکومت کے تحفظات اور شکایات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اس سلسلے میں بنیادی پالیسی میں تبدیلی بھی لانا پڑے تو اس قومی اہمیت کے معاملے کی خاطر لانی چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے افغان حکومت کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس کرے اور اپنے ملک سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کروائے۔ افغان قیادت کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے شہباز شریف اپنے دور میں یہ نہیں کر سکے اور نگران حکومت کے لیے پالیسی ساز فیصلے مشکل ہوں گے۔ ابھی تو انتخاب ہی کی تاریخ طے نہیں ہے۔ پھر نئی حکومت کب اور کون سی ہوگی؟ جبکہ مغربی سرحد پر مسلسل دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں۔ تو ایسے میں متعلقہ اداروں کو نئی حکومت کا انتظار کیے بغیر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ممکن ہے ایسا ہو بھی رہا ہو۔
وسطی ایشیا کی کنجی افغانستان ہے۔ پاکستان کو اس کی ضرورت ہے۔ اسی طرح افغانستان پاکستان کا بہت سے معاملات میں محتاج ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہوگا اگر دونوں ممالک‘ جن کے سینکڑوں سال سے تاریخی مذہبی ثقافتی اور تجارتی رشتے ہیں‘ چند شدت پسند گروہوں کی وجہ سے تنازعات میں الجھ جائیں۔ نہ افغانستان اس کا متحمل ہے نہ پاکستان۔ لیکن بہت سی طاقتوں کا فائدہ ہوگا کہ یہ ہمسائے لڑائیوں میں اُلجھ جائیں اور ان کی بھرپور کوشش بھی یہی ہو گی۔ افغانستان کو اس وقت اپنے مفلوک الحال عوام کی فلاح کی فکر ہونی چاہیے اور یہی رُخ پاکستان کا بھی ہونا چاہیے جو معاشی مسائل میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ دونوں سیاسی اور فوجی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دور اندیشی اور تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے مسائل حل کریں۔ طالبان جن کے بارے میں شدت پسندی‘ اکھڑ پن‘ سختی اور بے مروت رویے کا عام تاثر ہے‘ کب تک یہ چلن اپنائے رکھیں گے۔ دونوں ملک اپنے آپ کو بر حق سمجھتے ہوں گے لیکن کب تک یہ نہیں دیکھیں گے کہ سرحد کے دونوں طرف مسلمان لہو بہتا ہے۔ عرفان صدیقی کا شعر ہے :
دونوں تباہ ہوگئے‘ ختم کرو یہ معرکے
اہلِ ستم نہیں نہیں‘ دل زدگاں نہیں نہیں