جتنا غصہ بڑے عہدوں سے ریٹائرڈ افسران کرام کو قوم پر، موجودہ حکومت پر اور معاشرے پر آتا ہے ‘اس سے زیادہ غصہ مجھے ان پر آتا ہے ۔اعلیٰ عہدوں پر برسوں چوکڑی مار کر بیٹھے رہنے والوں کی نہ صرف یہ کہ مجھے کوئی بات بھلی نہیں لگتی بلکہ میں انہیں ملک و قوم کے موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی سمجھتا ہوں ۔ میرا غصہ جس میں ناقابل برداشت تکلیف بھی شامل ہوتی ہے ‘اُس وقت بڑھ جاتا ہے جب میں انہیں ملک و قوم کو نصیحتیں کرتے اور گرجتے برستے دیکھتا ہوں ۔ کوئی ٹی وی پر عقل و دانش اور امانت دیانت کا پتلا بنا بیٹھا ہوتا ہے ۔کوئی مائیک تھام کر سامعین کو ان کی بنیادی خرابیوں کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے‘اورکوئی سوشل میڈیا پر اپنے فرمودات کا کڑوا تیل انڈیل رہا ہوتا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ریٹائر ہوئے بیس پچیس سال ہوگئے اور وہ تازہ واردان بھی ہیں جو چند سال پہلے ہی کرسی سے علیحدہ ہوئے تھے۔ان کی باتیں سن کر اور مزاج دیکھ کرسمجھ میں آجاتا ہے کہ ان کے ادوار میں ان کے شعبوں کی یہ حالت کیوں ہوئی تھی ۔لیکن ان گرجتے برستے دانشوروں سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ حضور پینتا لیس ‘پچاس سالہ سروس میں‘ جس میں آپ بااختیار عہدوں پر فائز رہے ،کون سا کارنامہ انجام دیا ؟آج جو بزعم خود فریضہ آپ انجام دے رہے ہیں،اُس وقت کہاں تھے جب غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈھلوان پر لڑھک رہا تھا۔اس خدائی خدمتگار کی وہ زبان جو اَب فراٹے بھر رہی ہے ، کسی فرعون کے سامنے کیوں نہیں کھل سکی؟ قربانیوں کا مطالبہ کرنے والوں سے کسی نے کبھی پوچھا کہ آپ نے زندگی بھر کون سی تنخواہ ، کون سی مراعات، کون سا پلاٹ قوم کے لیے قربان کیا ؟مجھے بہت سے ریٹائرڈ افسروں سے ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا ہے اوراکثر یہ خیال ایک چھناکے سے ٹوٹتا رہا ہے کہ یہ شخص اپنی عقل و دانش، امانت اور محنت کے نتیجے میں اس بڑے عہدے تک پہنچا ہوگا۔ان میں اکثر کی دانش کا رخ مذہب کی طرف ہوتا ہے اور وہ پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسا فہم دین اللہ نے افسری کے طفیل انہیں عطا کردیا ہے وہ چودہ سو سال میں کسی اور کو ودیعت نہیں ہوا۔اور اب ان پر فرض ہے کہ وہ یہ الہامات معاشرے تک پہنچائیں ۔
خوامخواہ غیر متعلق معاملات خصوصا ًمذہب میں کود پڑنے کا المیہ تقریباً ہر اس شخص کا ہے جسے زندگی اور معاشرے نے کسی بھی شعبے میں کوئی اعلیٰ عہدہ اور مقام دیا ہو۔بیورو کریٹ، صحافی، سیاستدان، وزیر، صنعت کار، تاجر، جرنیل ،معروف کھلاڑی ،مشہور ادیب غرضیکہ ہر وہ شخص جو اونچی کرسی کامزا چکھ چکا اس المیے کا شکار ہے۔اور وہ المیہ ہے خود کو ہرفن مولا سمجھنا۔ہر شعبۂ زندگی میں بے دھڑک تحکمانہ رائے دینا اور یہ سمجھنا کہ بس اگر اس بات کو سمجھا ہے تو میری ذات شریف نے۔ایسا شخص اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائے تو سوا ضرر رساں اور خطرناک ہوجاتا ہے‘ اس لیے کہ اب اس کے ماتحت اس عذاب سے چھٹکارا پا چکے ہوتے ہیں؛ چنانچہ اس کی ایذا رسانی کا رُخ عام آدمیوں کی طرف ہوجاتا ہے۔ادھیڑ عمری میں مذہب کی طرف میلان ہوجانا بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام رجحان ہے۔ویسے تو یہ خوش قسمتی کی بات ہے لیکن ہمارے معاملے میں بدقسمتی ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جب جذبہ ایمانی، کج فہمی اور حاکمانہ مزاج کے ساتھ ملتا ہے تو کم بختی پڑھنے اور سننے والے ہی کی آتی ہے۔یہ کمبختی اس وقت شامت میں بدل جاتی ہے اگر اس نے کچھ کچی پکی فارسی اُردو مذہبی کتابیں بھی پڑھ لی ہوں۔پھر تو وہ فقیہ بھی ہے ، مفسر بھی اور مجتہد بھی۔
میں ان افسران کو جانتا ہوں جن کی نخوت،تکبر، رعونت اوربد مزاجی ان کے محکموں میں افسروں اورنچلے ملازمین میں مشہور و معروف تھی۔کہا جاتا تھا کہ اگر وہ آپ کو مصافحے کی عزت بخشیں اور انگلیوں کی صرف اگلی پوریں آپ کی انگلیوں سے مس کردیں تو اس پر ناز کیجیے ،یہ سعادت خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔پر کشش تنخواہوں،قابلِ رشک اختیارات، غیر ملکی دوروں، سرکاری پلاٹوں کے حصول کے بعد جب ان کی ملازمت اختتام کو پہنچتی ہے اور وہ اپنے اعلیٰ عہدے کی توسیع یا کسی دیگر اعلیٰ عہدے کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کی طبیعت وعظ و نصیحت اور اصلاح معاشرہ کی طرف مائل ہوتی ہے۔وہ ہر شعبے میں بے محابا دخل دیتے ہیں‘سوائے اپنے شعبے کے۔وجہ وہی مزاج کہ ہم چو ما دیگرے نیست۔ تاہم اتنی سمجھ ان کو ہے کہ جو زہر افشانی ہو، کوئی تگڑا شخص یا طبقہ اس کی زد میں نہ آئے ،جو برابر کا جواب دے سکتا ہو ۔سو زہرناکی اپنی جگہ اور یہ احتیاط اپنی جگہ کہ ہدف وہی ہونا چاہیے جو کمزور اور جواب دینے کے قابل نہ ہو۔
مجھے وہ ریٹائرڈ افسر یاد آگئے جوکسی محکمے کے ایک اعلیٰ عہدے سے طویل ملازمت کے بعد ریٹائر ہوئے تھے اور بطور ناشر مجھ سے اپنے تفسیری مسودے پر مشورے کے لیے تشریف لائے تھے۔بیٹھتے ہی تحکمانہ لہجے میں بولے ' 'اس طرح کی تفسیر چودہ سو سال میں آج تک نہیں لکھی گئی۔قرآن کا مطلب کسی مولوی نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔یہ بالکل نئی قسم کی تفسیر ہے‘‘ ۔میں ان کے لہجے اور جملوں کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مسودہ دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا:آپ نے عربی کہاں سے سیکھی؟بولے : مجھے تو عربی نہیں آتی ۔ ''تو آپ نے قرآن مجید کیسے پڑھا؟‘‘بولے: اردو ترجموں کی مدد سے۔میں نے پوچھا :کون سے ترجمے؟انہوں نے چند مترجمین کے نام لیے۔میں نے کہا : یہ تو سب وہ مولوی ہیں جنہوں نے بقول آپ کے قرآن کا مطلب کبھی سمجھا ہی نہیں۔ پوچھا، آپ نے تفاسیر کون سی پڑھیں؟انہوں نے چند نام بتائے۔میں نے کہا :یہ بھی وہ مفسرین ہیں جنہوں نے چودہ سو سال میں آپ کے بقول درست تفسیرکی ہی نہیں۔جو عربی کتب اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوئیں‘ آپ ان تک کیسے پہنچے؟پتہ چلا کہ ان کے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔میں نے بات کا رُخ ان کے محکمے کی طرف موڑ دیا۔پوچھا ،آپ نے اپنے چالیس سالہ پیشہ ورانہ تجربات پر کوئی کتاب لکھی؟ کوئی مضمون لکھا؟ کوئی تجاویز پیش کیں؟ان سب کا جواب نفی میں تھا۔میں نے کہا :گزشتہ چالیس سال میں آپ کاادارہ ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہوا ہے۔آپ مسلسل اس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے ہیں۔کیا آپ خود کو اس زوال کا کسی درجے میں ذمہ دار سمجھتے ہیں؟ بولے : اکیلا آدمی کیا کرسکتا ہے۔میں نے کہا :اکیلا آدمی اسی طرح کا کوئی کارنامہ کرسکتا ہے جیسا آپ نے1400سال بعدعربی نہ جانتے ہوئے ایک انقلابی تفسیر لکھ کر کیا ہے۔میں نے اپنا طنز چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔مجھے افسوس تھا اس ذہنیت اور اس نا اہلیت پر۔اور میں ان کا ماتحت بھی نہیں تھا کہ ان کے رعب میں آؤں۔جو بات میں ان سے نہیں کہہ سکا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور تجربات پر کتاب اس لیے نہیں لکھی کہ اس سے معلوم ہوجاتا کہ وہ اس منصب کے لیے نااہل تھے۔
سچ اور بالکل سچ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی نااہلی ،نالائقی ، بد دیانتی او رکام چوری سے ملک و قوم کا بیڑا غرق کیا ہے۔میرے پاس سیدھا سا اصول ہے ۔جو ریٹائرڈ افسر جتنا زیادہ تلخ، زہرناک ناصح بنتا ہو، وہ پہلے اپنی ملازمت کے دوران اپنے کارنامے بیان کرے‘اپنی قربانیاں پیش کرے‘اپنے نتائج سامنے لائے ۔اور اگر یہ نہیں کرسکتاتو اپنا منہ مٹی سے بھر لے کہ اس سے بہتر غذا اس کے لیے نہیں ہوسکتی ۔