باکو‘آذر بائیجان کی فضا میں ستمبر کی خنکی ہے۔ہوا جسم کو چھوتی ہے تو اگلے سرد موسموں کی خبریں سرگوشیوں میں سناتی ہے۔کھلے بازو‘ خنک ہوا کے ملاپ سے شاداب تر ہوتے ہیں اور چہرے کو مس کرکے گزرتے جھونکوں میں پانی کی خوشبو شامل ہے۔ درختوں پر پتوں کے چہرے ابھی کم کم ہی زرد ہوئے ہیں لیکن ہرا رنگ کجلانے لگا ہے۔میں کل سہ پہر باکو آیا تھا۔ائیر پورٹ سے ہوٹل تک کا راستہ بتاتا تھا کہ باکو ایک شہرِ سرسبز ہے لیکن اس وقت شہر کی خوبصورتی نے زیادہ متوجہ ہونے نہیں دیا۔لاہورسے کراچی‘ کراچی سے دبئی اور دبئی سے باکو کی فلائٹس کی بھاگ دوڑ نے اتنا تھکا دیا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ ایک آرام دہ بستر اور پرسکون نیند کی طلب تھی۔کوشش تھی کہ براہ ِراست فلائٹ مل جائے لیکن کراچی جانا بھی لازمی تھااورافسوس یہ کہ پہلے قومی ایئر لائن کی بھی جو براہِ راست پرواز باکو کیلئے میسر تھی وہ بھی اب بذریعہ دبئی ہے؛چنانچہ چند گھنٹے کا یہ سفر 24 گھنٹے کا بن ہی جاتا ہے۔لیکن مسافروں کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ آزر بائیجان ائیر لائنز کی براہِ راست پروازیں اسی ماہ لاہو ر‘اسلام آباد اور کراچی سے میسر آنے والی ہیں۔مسافران ِآئندہ !مبارک ہوکہ آذر بائیجان ائیر لائن بھی ٹور پروگرامز کے ساتھ میزبانی کے لیے آگئی ہے۔
جب سے آذر بائیجان(جسے''آذر بھائی جان‘‘کہنا زیادہ اچھا لگ رہا ہے) کے راستے آسان ہوئے ہیں اور پاکستان کے اس سے برادرانہ تعلقات زیادہ گرم جوشی کی طرف بڑھے ہیں۔ سستے اور فوری ای ویزا کی سہولتیں میسر آئی ہیں‘بڑی تعداد میں پاکستان سے سیاح آذر بائیجان کا رخ کر رہے ہیں۔ ہماری دبئی۔ باکو فلائٹ میں بھی اچھے خاصے پاکستانی موجود تھے۔عام طور پر گروپس کی شکل میں سیاح آتے ہیں‘تین چار دن باکو میں قیام کرتے ہیں اور پھر اسی ہنگامہ خیز زندگی کی طرف واپس ہوتے ہیں جس سے چند دنوں کے لیے پیچھا چھڑا کر آئے تھے۔ پتہ نہیں میر ے ساتھ کیا مسئلہ ہے کہ سیاحوں کے گروپ میں جانا کبھی پسند نہیں رہا۔ مجھے تویہ سب ایک چلتے ریوڑ اور ایک ہانکتے گڈریے جیسے لگتا ہے۔سیاحوں کا گروپ ویسے تو ٹھیک رہتا ہوگا اور اکثر لوگوں کے لیے سہولت والا بھی لیکن بھئی! مزاج اپنا اپنا۔ جس روٹین کی زندگی سے نکل کر انسان سیر و تفریح کے لیے آتا ہے۔اسی میں دوبارہ داخل ہوجانا مجھے پسند نہیں۔ صبح اتنے بجے اٹھنا ہوگا۔ اتنے بجے ناشتہ۔اتنے بجے سب لابی میں پہنچ جائیں۔ اتنے بجے کوچ آئے گی۔ یہ راستہ اور یہ یہ جگہیں ہوں گی جنہیں دیکھنا ہے۔اس اس جگہ اتنی اتنی دیر رکنا ہوگا۔یہ سب پہلے سے طے ہوچکا اور آپ نے ہر چیز کی پابندی کرنی ہے۔پابندی؟ یہی تو سب سے بڑا جھنجھٹ ہے میاں!
میں ان پابندیوں سے دور بھاگنے والا بندہ ہوں۔جو زنجیریں بندھی ہوئی ہیں وہ تو رہیں گی‘ پھر اضافی کیوں باندھ لی جائیں؟چنانچہ اکیلا مسافر جب آذر بائیجان کے سفر پر روانہ ہوا تو سوچ رہا تھا کہ میں پہلی بار کوہ قاف کا رخ کر رہا ہوں۔بچپن میں کتنی کہانیاں کوہ قاف کی پڑھتے پڑھتے جوان ہوئے‘ انہی کے بیچ بال ملگجے ہونے شروع ہوئے‘انہی کے بیچ سفید بالوں نے پنجے گاڑنے شروع کردئیے لیکن کوہ قاف کی زیارت اب ہورہی ہے۔عیارجادوگر‘ ظالم دیو‘خوبصورت پریاں‘حسین شہزادی‘شہزادی کی طلب میں پہاڑ سر کرتا شہزادہ‘ حسین عورتیں‘ پری چہرہ لڑکیاں۔کوہ قاف کی خوبصورتی تو ہمارے ادب اور کہانیوں میں ضرب المثل ہے۔ ہر خوبصورت چہرے کو دیکھ کر کہا جاتا ہے ''لگتا ہے کوہ قاف کی پری ہے‘‘۔سمندر پر اڑتے اور باکو کی طرف مسلسل اترتے جہاز میں بیٹھے میں سوچ رہا تھا کہ چند منٹ میں یہ کوہ قاف کہانیوں سے نکل کر آنکھوں میں سمانے والا ہے۔
قفقاز کا نام بھی ہمارا بہت مانوس نام ہے۔شاید کوہ قاف کا لفظ بھی قفقاز سے نکلا ہے۔ آذر بائیجان میں یہ نام کثرت سے ملتا ہے۔ قفقاز ہوٹل‘ قفقاز کلب‘ قفقاز ریزارٹ قفقاز کیفے وغیرہ بہت سے نام ہیں۔ تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ کوہ ِ قاف یا قفقاز ہے کون سا علاقہ؟یہ وہی قفقاز ہے جسے کاکیشیا بھی کہا جاتا ہے۔دو سمندر ہیں۔ ایک تو بحیرہ قزوین یعنی کیسپین سی‘ دوسرا بحر اسود یعنی بلیک سی۔ان کے بیچ میں کاکیشیا کا علاقہ ہے۔بحیرہ قزوین شاید دنیا کا وہ واحد سمندر ہے جو کسی دوسرے سمندر سے نہیں ملتا اور چاروں طرف سے بند ہے۔یعنی یہ خشکیوں کے بیچ پانی کا جزیرہ ہے۔ بات کاکیشیا کی ہورہی تھی۔ کاکیشیا کے پہاڑ مشہور ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ بلند اور نسبتاً کم بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے۔آذر بائیجان‘ آرمینیا‘ چیچنیا(سابقہ روس) جارجیا‘ روس وغیرہ اس خطے کے چند اہم ممالک ہیں۔ چنانچہ کوہ قاف کی سیر کرنی ہو تو آذر بائیجان اس کا اہم پڑاؤ ہے۔قفقاز یا کاکیشیا دراصل ایشیا اور یورپ کے بیچ کا سرحدی علاقہ ہے جہاں شمال کی طرف یہ سرحد بھی غیر واضح اور غیر متعین ہوجاتی ہے۔چونکہ ایران اور ترکی کے ثقافتی اور ادبی اثرات آذر بائیجان کے رگ و ریشے میں ہین اس لیے قفقاز کا نام بار بار خاص طور پر فارسی ادب میں آتا رہتا ہے۔
قفقاز کے نام کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سیتھین قوم اسے ''کروکاس‘‘ کہا کرتی تھی یعنی سفید برف۔قفقاز اسی سے بنا ہے۔ ایرانی کبھی اس پہاڑی سلسلے کے اس پار نہیں جاسکے تھے۔اس پار کی جنگجو اقوام بھی ایک سبب تھیں؛ چنانچہ پہاڑ اور ان کے پار کا علاقہ ایرانیوں کے لیے طلسم کدہ ہی رہا۔ان کی کہانیوں میں قفقاز کوہ قاف بنا اور یہ پہاڑ دیووں پریوں اور جادو کی دنیا کے ساتھ منسوب ہوتا گیا۔وہ دیو جو میدانی علاقوں کی شہزادوں کو اچک لے جاتے ہیں اور کوہ قاف میں کسی جگہ قید کر رکھتے ہیں۔ پھر شہزادی کے عشق میں گرفتار ایک شہزادہ شہزادی کو ڈھونڈنے نکلتا ہے اور اسے چھڑا کر کامیاب لوٹتا ہے۔فارسی ادب سے یہ روایات اردو میں آئیں اور یہاں اس کا جادوئی منظر اور سحر انگیز ہوگیا۔برصغیر پاک و ہند اگرچہ اپنے ملیح حسن میں اور کوئی نظیر نہیں رکھتا لیکن گندمی رنگ والوں کو کوہ قاف کا وہ حسن مبہوت کرتا تھا جس میں مرمر میں گلاب گندھا ہوا ہوتا ہے۔ رخسار آتشی گلابی رنگوں سے دہکتے ہیں اور دودھیا بے داغ جلد ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی ہے۔میں کل سے آذر بائیجان کی سڑکوں پر گھوم رہا ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ مقامی لوگ سبھی خوبصورت ہیں۔ نوجوان اور جوان ہی نہیں ادھیڑ عمر بھی۔خوبصورتی ایرانیوں میں بھی کم نہیں لیکن ان کے صحرائی شہروں کے لوگ اس دائرے سے عام طور پر باہر ہیں۔ آذر بائیجان میں ایسا استثنا نہیں۔ سیاحوں کی ٹولیاں ہر طرف ہیں۔ ہندوستانی پاکستانی عرب اور فلپائنی سیاح زیادہ ہیں لیکن یہ سب الگ پہچانے جاتے ہیں۔ مقامیوں کی خوبصورتی ان سب سے زیادہ ہے۔
آج صبح ''منظرا پارک‘‘ کے منظروں کو دیکھنے نکلے۔منظراپارک بحریرہ قزوین کے کنارے ایک پہاڑی پر بنایا گیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ خوبصورتی اور سلیقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں قریب ہی شعلہ مینار یعنی فلیم ٹاورز بھی ہیں جو اس علاقے کے آتش پرست مذہب کی ایک علامت بھی ہیں۔منظرا پارک سے ایک ہی نظر میں بحیرہ قزوین اور باکو کی قدیم و جدید عمارتیں سامنے آجاتی ہیں۔اس وقت جب میں اچری شہر (icherisheher )قدیم باکو میں فصیل کے اندر انگوروں کی بیلوں سے ڈھکے ہوئے درودیوار کے سائے میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ شام اترنے کو ہے۔ اچری شہر ‘یعنی شہر کے اندر ایک شہر‘پر سائے لمبے ہورہے ہیں‘قریب ہی شاہ پیلس ہوٹل سے ہلکی ہلکی آذربائیجانی موسیقی پھوٹ رہی ہے اور میں شہر کے اندر ایک شہر کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ اور اس شہر کے اندر جو لوگوں کی چلتی پھرتی دنیائیں ہیں۔ ان کے بھید کون جانے گا۔ چند لمحے کسی شہر میں گزار کر بھید کبھی کھل سکتے ہیں؟ نہ انسانوں کے نہ شہروں کے۔
بھید کبھی نہ کھل سکے تجھ پہ قدیم شہر کے
ہو کے گزر گیا مگر مجھ میں رہا نہیں ہے تو