اگر کسی اجنبی بستی کو دیکھ کر آپ کے دل میں وہیں رہ جانے کی خواہش ہو تو اس میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟ ویسے تو ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے اور ہر ایک کی پسند بھی جدا جدا ہے مگر میرے خیال میں یہ چند اہم خصوصیات تو لازمی ہونی چاہئیں۔ بستی سرسبز وادیوں میں ہو۔ اس میں رہیں تو لگے کہ ہم فطرت کی آغوش میں ہیں۔ سورج نکلتا‘ آسمان پر آہستہ سفر کرتا‘ سر پر آتا‘ ڈھلتا محسوس ہو۔ زرد سونے کی ٹکیہ غروب ہونے میں وقت لیتی ہو۔ چاندی کی ٹکیہ آہستہ آہستہ ابھرے۔ ستارے حیران کن بڑے اور چمک دار ہوں۔ رات سانس بھرے تو آپ کے سینے میں سما جائے۔ 24گھنٹے تین چار گھنٹوں میں ہرگز نہ گزرتے ہوں۔ ہوا جسم کو چھوئے تو اس میں گرد اور مٹی کا ایک ذرہ بھی نہ ہو۔ موسم خوبصورت اور صحت بخش ہو۔ وہ بستی ہو یا شہر زیادہ بڑے نہ ہوں‘ نہ زیادہ بھیڑ بھاڑ ہو۔ ہاں! بہت سنسان بھی نہ ہو۔ جدید ضروری سہولیات تمام تر موجود ہوں۔ لوگ پیارے‘ خوش اخلاق اور ملنسار ہوں۔ عمارتیں بہت بلند نہیں لیکن حسین ہوں۔ نظارے کے لیے نظر کو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ سمندر‘ دریا‘ جھیل یا ندی پہلو میں ہو۔ پہاڑ ہوں مگر کھڑی چڑھائیوں والے نہیں بلکہ وادیوں کو ساتھ لے کر چلتے مدور ڈھلانوں والے۔ انسان کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے بھئی!
21ستمبر کو میں مجارا لیک ریزارٹ سے شاہ داگ جانے کیلئے پہلے قبا آیا اور پھر وہاں سے دونوں طرف ٹھنڈی چھاؤں والی سڑک پر سفر شروع ہوا۔ مجھے یہ تو علم تھا کہ تیس‘ چالیس منٹ کے فاصلے پر قسر (Qusar) شہر ہے لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ وہ اتنا پیارا شہر ہو گا۔ جو خصوصیات میں نے اوپر بیان کیں ان سب پر یہ شہرِ دلدار پورا اترتا تھا۔ صرف آبِ رواں کی کمی تھی لیکن بائیں طرف کافی نشیب میں جو دریا بہہ رہا تھا اسے بھی شمار کر لیں تو قسرکو دس میں سے آٹھ نمبر ضرور ملتے تھے۔ دل چاہا کہ یہاں پہاڑی ڈھلان پر وادی کی طرف جھانکتے کسی قہوہ خانے میں کچھ دیر پڑاؤ ڈال کر ایک دو ساعت گزار لوں۔ لیکن ہر خواہش کو یہ سب گنجائشیں ملتی کہاں ہیں۔ منظر ہمیشہ شاکی رہ جاتے ہیں اور تیزی کے عادی رہرو ہمیشہ تیزی سے گزر جاتے ہیں۔
قسر سے 32کلو میٹر آگے شاہ داگ تھا یعنی بادشاہ پہاڑ۔ یہ سرسبز پہاڑی سلسلہ دور سے نظر آنے لگا۔ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی بستیاں گزریں۔ دیکھا کہ یہ بھی کوئی کھڑی چڑھائی نہیں تھی بلکہ وادیوں اور ڈھلانوں کے بیچ ایک چمکتی سڑک جھومتی جھامتی‘ گھومتی گھامتی پہاڑوں پر چڑھتی جاتی تھی۔ ایک بلندی پر رک کر نیچے نگاہ ڈالی تو لگا کہ سڑک نہیں ایک چاندی کا دریا ان وادیوں میں ہر سمت گھوم رہا ہے۔ بالآخر ایک چوٹی پر پہنچے تو وہاں ہر طرف کو راستے نکلتے تھے اور ٹیکسی ڈرائیور کو جو پہلی بار شاہ داگ ریزارٹ آیا تھا کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کدھر جانا ہے۔ ایسے میں گوگل نیوی گیشن بہت کام دیتی ہے لیکن اس بی بی نے بھی اتنے چکر دیے کہ پون گھنٹہ صراطِ مستقیم کی تلاش میں گزر گیا۔ بادل پہلے سے موجود تھے۔ دھند چوٹیوں سے اُتری اور بادلوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چل پڑی۔ بارش کیوں پیچھے رہتی۔ رس ٹپکنا شروع ہوا اور ذرا سی دیر میں سارے منظر کا لباس تر کر دیا۔ اتنی بلندی پر بادل اور دھند سرمئی غلاف کی طرح لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جب تک ہم شاہ داگ ہوٹل ریزارٹ پہنچے دھند نے ہمیں گھیر رکھا تھا۔
شاہ داگ ہوٹل ریزارٹ بلاشبہ اپنے محلِ وقوع‘ معیار اور خوبصورتی میں منفرد تھا۔ گھوم پھر کر ساری اطراف دیکھنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ چند فٹ سے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سردی بڑھ گئی تھی۔ کمرے میں پناہ لینا ہی بہتر محسوس ہوا۔ رات میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے لیکن عملاً رات ہو چکی تھی۔ لابی میں وقت گزارا جا سکتا تھا سو گزارا۔ ایک دو گھنٹے بعد نیند کو بھی لگا کہ اب اسے سو جانا چاہیے تو اس نے مجھے بھی بستر پر گھسیٹ لیا۔
صبح دم ایک کھلکھلاتا جھونکا بالکنی کے کھلے دروازے سے کمرے میں گھسا اور بند پلکوں پر دستک دیتا ہوا بولا ''کیا چمک دار‘ روشن‘ شفاف صبح ہے۔ ہر طرف جواہرات پڑے ہیں اور تم ہو کہ پوستیوں کی طرح پڑے ہو‘‘۔ مجھے اس کی بات پر یقین نہ آیا اور بالکنی میں نکلا۔ دیکھا تو ہر طرف چمکیلی سنہری دھوپ چٹک رہی تھی۔ سامنے کے حسین پہاڑ جو کل شام نظر نہیں آئے تھے‘ سرخ‘ زرد‘ سبز اور مٹیالے رنگوں سے مل کر بنے تھے اور ان پر یہاں وہاں براق برف دھوپ میں چمک رہی تھی۔ کئی چاندی کے گلیشیرز پہاڑوں میں گھاٹیوں کے بیچ بل کھائے پڑے تھے۔ وہ عظیم اژدہے جنہیں دھوپ چھوتی ہے مگر پگھلانے کی ہمت نہیں رکھتی۔
14ہزار فٹ بلند شاہ داگ واقعی پہاڑوں کا بادشاہ لگتا ہے۔ سامنے والا پہاڑ ہی شاہ داگ تھا۔ میں بالکنی میں کھڑا اسے دیکھتا اور چوٹی کو چھو کر آنے والی ہوا کی سرگوشیاں سنتا رہا۔ بولی ''مسافر! تم آئے ہو تو شاہ داگ کا ٹھنڈا میٹھا پانی پیو اور اس کی کہانی سنو۔ جہاں تم کھڑے ہو یہ جگہ بھی سات ہزار فٹ بلند ہے۔ تو شاہ داگ کی بلندی کا تم خود سوچ لو۔ یہ جگہ جہاں اس وقت پانچ عدد پنج ستارہ ہوٹل‘ 12کیبل کارز اور چیئر لفٹس‘ 16ریسٹورنٹ اور کیفے ہیں جہاں تیر اندازی اور شہسواری سے لے کر سکینگ سکھانے کے سکول تک سیاحوں کو شاد کرنے کی ہر ایک تفریح موجود ہے‘ جہاں ایک دنیا برف پر پھسلنے آتی ہے‘ جہاں 26ڈھلانیں سکینگ کیلئے تیار کی گئی ہیں جہاں ایک گھنٹے میں 25ہزار سیاح سکینگ کر سکتے ہیں۔ 30کلو میٹر کا علاقہ سکینگ کیلئے موجود ہے اور جہاں گرمی میں بھی برف بچھانے کی 13 گنیں لگا دی گئی ہیں‘ یہی جگہ 2006ء میں کچھ بھی نہیں تھی۔ منصوبے کے آغاز سے ریزارٹ کے آغاز تک محنت طلب‘ صبر طلب 15سال گزرے اور کام ہنوز جاری ہے۔ یہ آذربائیجان کا پہلا سکینگ ریزارٹ ہے اور اسے کامیاب کرنے کیلئے بہت محنت کی گئی ہے‘‘ ۔ ہوا کی کہانی جاری تھی لیکن ہوا تو کہانیاں سناتی ہی رہتی ہے۔ کوئی کتنی دیر سنے۔ لیکن میری کہانی تو آپ کو سننی ہی ہوگی۔ میں دو دن ان وادیوں کو پیدل‘ چیئر لفٹ اور گاڑی میں گھوم پھر کر دیکھتا رہا۔ اس سلیقے اور حسنِ انتظام کی داد دیتا رہا جو ہر جگہ نظر آتا ہے۔ سوچتا رہا کہ خدا کی بنائی ہوئی حسین دنیا کو انسانی سلیقہ کس طرح حسین تر کر دیتا ہے۔ چوٹیوں سے اترتی‘ جنگلوں سے گزرتی اور ڈھلانوں پر پھسلتی ہوا مجھ سے باتیں کرتی تھی اور میں اقبال کے اس شعر سے باتیں کرتا تھا۔
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی‘ سرمستی و رعنائی
لیکن ہر چیز سو فیصد نہیں ہوا کرتی۔ مجارا ریزارٹ ہو یا شاہ داگ‘ یہ دونوں دنیا سے الگ تھلگ اپنے جہان ہیں۔ قریبی بستیاں‘ ریسٹورنٹ‘ بازار سب دور ہیں۔ اگر اپنی گاڑی نہیں تو یا آپ نکل نہیں سکتے یا بہت مہنگی گاڑی لینی ہو گی۔ وہ جو میرا خیال تھا کہ قبا کی گلیوں میں گھوم سکیں گے‘ یا قسر کے قہوہ خانوں میں شیشہ پئیں گے۔ جرعہ جرعہ گزرتی شام کو سانس میں اتاریں گے۔ تو یہ سب نہیں ہو سکا۔ بہتر ہے کہ قسر ہی میں پڑاؤ کریں۔ یا ٹیکسی لے لیں اوردل کڑا کر کے پیسے خرچ کر لیں۔ اگر آپ یہ کر لیں تو پھر ایک شام شاہ داگ سے گاڑی پر نکلیے گا۔ 32 کلو میٹر دور قسر میں کچھ وقت گزاریے گا‘ ریسٹورنٹ ''زیدیر‘‘ میں انگاروں پر دنبے کی سنکتی چانپوں کا آرڈر دیجیے گا۔ کسی خوبصورت سے قہوہ خانے میں خوشبودار آذر بائیجانی چائے کی چسکیاں لیجیے گا۔ اور سوچیے گا کہ میں اتنی دیر سے کوہِ قاف کیوں آیا۔ آخر کیوں؟کوہِ قاف کے اس ملک میں سب اچھا نہیں لیکن بہت کچھ اچھا ہے۔ آپ سیاح ہوں یا سادھو‘ جوگی ہوں یا بنجارے‘ جو بھی کچھ ہوں‘ اگر آپ زمین پر گھوم رہے ہیں، ''سیروا فی الارض‘‘ کے حکم پر عمل کر رہے ہیں تو سب میٹھا میٹھا کی توقع مت رکھیے گا۔ زمین اور زمین والوں میں سب کچھ میٹھا کہاں ہوتا ہے۔ جو کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہاں کی کڑواہٹیں وہیں چھوڑ آئیں اور مٹھاس سمیٹ کر جھولی میں بھر لائیں۔ یاد رکھیے گھر میں جھولی ہمیشہ بھری ہوئی لانی چاہیے۔ ہے نا؟