الاہلی ہسپتال غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ایک خبر کے مطابق 500 سے زائد افراد شہید ہو گئے ہیں۔ یہ اُس بربریت کی تازہ ترین خبر ہے جس کا اہلِ غزہ کو سامنا ہے۔اس واقعہ کے بعد اُردن نے امریکی اور مصری صدور کے ساتھ چوٹی کی کانفرنس منسوخ کردی ہے۔ صرف غزہ ہی سے نہیں اب دنیا بھر سے چیخ و پکار بلند ہورہی ہے۔ اسی درمیان اسرائیل نے ایک بار پھر شمالی غزہ کی پٹی خالی کرنے کا حکم دہرایا ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ غزہ کی شمالی پٹی خالی کرنے کا اسرائیلی الٹی میٹم ناکام ہو رہا ہے۔ اس حصے میں بسنے والے کم و بیش گیارہ لاکھ فلسطینیوں کو یہ علاقہ خالی کردینے کا حکم کئی روز پہلے دیا گیا تھا۔ اب اس الٹی میٹم پرکئی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ پہلا سوال تو وہی ہے جس کا جواب ابھی تک وقت کے غبار میں چھپا ہوا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے سے اب تک جو کچھ ہوا ہے‘ وہ اسرائیل کی ایما پر ہوا تھا یا اس کے لیے بھی اسی طرح غیر متوقع تھا جیسے باقی دنیا کے لیے؟ دوسرے یہ کہ کیا اسرائیل نے اشتعال میں اور عوامی ردِ عمل سے بچنے کے لیے سوچے سمجھے بغیر یہ اعلان کر دیا تھا اور اب عملی اقدامات کا سامنا ہے تو یہ سب اتنا آسان نہیں لگ رہا؟
آسان نہ ہونے کی وجوہات عسکری بھی ہیں اور عالمی بھی۔ عالمی سطح پر یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں اور جلوس نکل رہے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ نے سرحدوں پر فائرنگ کا آغاز کردیا ہے۔ اگرچہ اس کی شدت ابھی زیادہ نہیں۔ ایران نے دھمکی دی ہے کہ غزہ پر زمینی حملہ ہوا تو کوئی بھی جوابی اقدام کیا جا سکتا ہے۔ عرب دنیا کے حکمران بھی عوامی ردِعمل سے ڈرتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک اسرائیلی مخالفت پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب کے جو مفاہمتی معاملات اسرائیل سے چل رہے تھے‘ وہ منجمد ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب نے غزہ پر اسرائیلی چڑھائی کی مخالفت بھی کی ہے۔ عالمی سطح پر اگرچہ یورپی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ان ممالک میں بھی عوامی جذبات اسرائیل کے خلاف ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک اسرائیل کے خلاف بیانات بھی دے چکے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ اگرچہ ایسی زبانی مخالفت کی اسرائیل اور امریکہ نے ماضی میں بھی پروا نہیں کی لیکن عالمی برادری کے یکسر خلاف جانا بھی آسان نہیں۔ اگر غزہ پر زمینی حملہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان سویلینز کا ہو گا۔ حماس کے جنگجو بھی یقینا شہید ہوں گے لیکن خود اسرائیلی حملہ آور بھی یقینااس گھر گھر پھیلی ہوئی جنگ میں ہلاک ہوں گے۔ جب یہ لاشیں اسرائیل پہنچیں گی تو حکومت کے خلاف سخت قسم کا عوامی ردِ عمل ناگزیر ہو گا۔ اسی طرح فلسطینیوں کی لاشوں کا ردِ عمل پوری عرب دنیا میں خاص طور پر آنا لازمی ہے لیکن زمینی حملے کے یہ تنہا مسائل نہیں ہیں۔ ایک نظر اس الٹی میٹم پر اور اس کے بعد گزرے وقت پر ڈالتے ہیں۔
اس الٹی میٹم کے مقاصد کیا ہوں گے؟ اس طرح کے حکم کا ایک بڑا مقصد سویلین آبادی میں خوف و ہراس پھیلانا اور آبادی کے انخلا کی وجہ سے جنگجوؤں پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے فلسطینی اور حماس کے جنگجوؤں کے گھرانے بھی وہیں رہتے ہیں۔ اگر سول آبادی ہجرت کرنے لگے اور لڑنے والوں کے گھرانے ان میں شامل ہوں تو یہ جنگجوؤں کے جذے پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ وہ سوچ سکتے ہیں کہ جب میرے بیوی بچے ہی یہاں نہیں رہے تو میں اس خالی زمین کا دفاع کیوں کر رہا ہوں۔ بیوی بچے کس حال میں اور کہاں ہیں‘ یہ بھی ان کے ذہنوں کو منتشر کرتا ہے۔ اسرائیل اس مقصد میں ناکام رہا ہے۔ ہزاروں افراد کی شہادتوں کے باوجود اور الٹی میٹم کو کئی دن گزرنے کے باوجود غزہ میں نہ اس طرح کا انخلا دیکھنے میں آیا ہے‘ نہ وہ بے چینی جو الٹی میٹم کا مقصد تھی۔ اس کے علاوہ جب ایک افراتفری اور خوف و ہراس کے ماحول میں سول آبادی ایک جگہ سے لاکھوں کی تعداد میں دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے تو قدرتی طور پر تنگ علاقے میں جنگجوؤں اور ان کے ساز و سامان کی نقل و حرکت میں شدید رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ خاص طور پر جب سڑکوں کی حالت بھی اچھی نہ ہو۔ غزہ کی شمالی پٹی‘ جو دس بارہ کلو میٹر سے زیادہ چوڑی نہیں ہے‘ عام حالات میں بھی ٹریفک کے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ جنگی حالات اس پر مستزاد لیکن ایسا بھی کچھ مشاہدے میں نہیں آیا۔ ایسا انخلائی حکم ایک باقاعدہ فوج کے خلاف تو کامیاب ہو سکتا تھا جو بیرکوں میں موجود ہو اور اسے ساز و سامان سمیت سرحدوں پر پہنچنا ہو‘ حماس کے خلاف بالکل کامیاب نہیں جو روایتی اور باقاعدہ فوج ہے ہی نہیں۔ حماس کا جنگجو بازو ایک باقاعدہ فوج ہے ہی نہیں جو ہر وقت وردی میں ملبوس ہو‘ وہ محض اس وقت وردی پہنتے ہیں جب کوئی پیغام دینا یا دشمن کو مرعوب کرنا ہو‘ ورنہ انہیں ایک عام فلسطینی سے الگ پہچاننا ممکن ہی نہیں۔ وہ عام گھروں میں رہتے ہیں اور اپنی بنائی ہوئی زیر زمین سرنگوں میں بوقتِ ضرورت نقل و حرکت کرتے ہیں جہاں وہ جاسوسی طیاروں اور ڈرونز کی آنکھوں سے محفوظ رہ سکیں۔ خلاصہ یہ کہ اگر اس حکم کا مقصد خوف و ہراس پھیلا کر بڑ ے پیمانے میں لاگوں کو انخلا پر مجبور کرنا تھا تو یہ ناکام رہا اور اگر اس کا مقصد حماس کے لیے گنجائش ختم کرکے انہیں مشکلات کا شکار کرنا تھا تب بھی یہ ناکام رہا۔
ایک نظر اسرائیل کے ہمسایہ ممالک پر ڈالیں۔ تباہ حال شام‘ بے حال اُردن‘ زیر نگوں مصر سے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ لبنان کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے جبکہ لبنان کی حکومت نہیں‘ صرف مسلح گروہ حزب اللہ سے خطرہ ہو۔ حزب اللہ کو بہت سے ممالک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں لیکن اسے ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ 2006ء میں اسرائیل حزب اللہ سے ایک جنگ لڑ چکا ہے اور انجام کار لبنان کے تباہ و برباد ہونے کے باوجود اس کے نتائج اسرائیل کے حق میں نہیں گئے بلکہ حزب اللہ مزید طاقت ور بن کر ابھری تھی۔ حزب اللہ اپنے جنگی ساز و سامان‘ میزائیلوں کے تنوع اور جنگجوؤں کی تعداد کے لحاظ سے اب زیادہ بڑی طاقت ہے۔ لہٰذا اسرائیل نہیں چاہے گا کہ یہ محاذ بھی گرم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنا جنگی طیارہ بردار جہاز اس علاقے میں بھیج دیا ہے تاکہ حزب اللہ اور ایران ایک نیا محاذ کھولنے سے باز رہیں۔ حزب اللہ کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں‘ وہ لبنانی حکومت سے معاہدے کی پابند ہے کہ وہ لبنان کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں نہیں گھسیٹے گی۔ اگرچہ حالات بدل بھی سکتے ہیں لیکن ایرانی حکومت کے بیانات اور وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بیروت کے باوجود حزب اللہ کے لیے جنگ میں پوری طرح کود پڑنا آسان نہیں ہوگا۔ لبنان کی مزید تباہی اس فیصلے کا حتمی نتیجہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حزب اللہ کو لبنان کے اندر سے بھی مختلف طبقات کی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور کسی نئی جنگ کی صورت میں وہ اپنی موجودہ بہتر پوزیشن کھو سکتی ہے۔ اسی طرح جنگ کی صورت میں کسی ممکنہ تباہی کے نتیجے میں حزب اللہ کو خلیجی ممالک سے تعمیر نو کے لیے مالی مدد نہیں مل سکتی جیسا کہ 2006ء میں لبنان کو مل گئی تھی۔
جنگ کی آگ ایک دفعہ بھڑک اٹھے تو عقل و ہوش‘ مصلحتیں‘ معاہدے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب سامنے جارح اسرائیل ہو۔ اس خطے میں بھڑک اٹھنے والی جنگ قریبی اور عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بات عالمی اقوام کے مابین لڑائی تک پہنچ سکتی ہے۔ تازہ ترین بات یہ ہے کہ روس کی طرف سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی قرارداد سلامتی کونسل میں ووٹوں کے فرق سے مسترد ہو گئی ہے۔ تو کیا بات یہاں ختم ہو جائے گی؟ اس وقت یہی لگتا ہے کہ دنیا ایک نئے منظر نامے کی طرف جارہی ہے۔ وہ کس کے حق میں ہوگا‘ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔