اگر ایک دو جملوں میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے اسرائیلی پشت پناہی کا خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہی ہوگا کہ ''ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو کرنا ہو کرگزریں لیکن یہ سب ایسے ہونا چاہیے کہ آپ اور ہم دنیا میں کم سے کم بدنام ہوں‘‘۔ یعنی مسئلہ نہ اصولوں کا ہے‘ نہ اخلاقیات کا‘ نہ معصوم جانوں کا‘ نہ ایک پوری نسل کے قتلِ عام کا‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ قتلِ عام ہو کیسے اور دنیا سے ایک بہت بڑا جھوٹ اور بہت بڑی ناانصافی کس طرح تسلیم کروائی جائے۔ جو بائیڈن وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے حالتِ جنگ میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن بھی اسرائیل کا تفصیلی دورہ کر چکے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک‘ امریکی صدر جو بائیڈن‘ جرمن چانسلر اولف شولز اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سمیت تمام اعلیٰ عہدے داروں کی اس بھاگ دوڑ کے مقاصد کیا ہیں؟ خاص طور پر امریکی سربراہ کی بھاگ دوڑ کے؟ اور ان کا اب تک کیا فائدہ ہوا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ مغربی سفارت کاروں اور سربراہوں کی مسلسل دو ہفتے کی بھاگ دوڑ کے نتائج اب تک کیا ہیں؟ بظاہر تو یہ پالیسی ناکامی پر منتج ہو رہی ہے۔ اس کا حاصل شاید صفر سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس عرصے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب اسرائیلی اور چھ ہزار کے قریب فلسطینی جانیں جا چکی ہیں۔ حماس کی تحویل میں جو مغوی ہیں‘ ان میں ایک ماں اور بیٹی کو رہا کیا گیا ہے اور وہ بھی قطر کی مسلسل کوششوں کے باعث۔ باقی تمام مغویان بدستور حماس کے پاس ہیں۔ حماس نے ریڈ کراس کو بھی ان تک رسائی نہیں دی کیونکہ اس سے ان کی لوکیشن معلوم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں غزہ میں مغویان کا پتا دینے پر انعامی رقوم کے اعلان کے پمفلٹ گرائے ہیں۔ بہرحال مغربی بھاگ دوڑ اور سفارت کاری کا اگر اس عرصے میں کچھ نتیجہ نکلا ہے تو وہ 20امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کی اجازت ہے۔ یہ امداد کتنی ہے؟ اقوامِ متحدہ پہلے ہی اس تمام امداد کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے چکی ہے۔ تو کیا اس مدت میں تمام مغربی دنیا کی بھاگ دوڑ کو لاحاصل قرار نہ دیا جائے؟
اسی دوران سلامتی کونسل میں برازیل کی طرف سے اسرائیلی جنگ بندی کی قرار داد کو امریکہ نے پھر ویٹو کر دیا ہے۔ قرار داد فوری جنگ بندی کے لیے کوششوں کا حصہ تھی۔ مسلسل دوسری بار امریکہ نے ویٹو کا استعمال ہے‘ اس سے پہلے ایسی ہی روسی قرار داد کو بھی ویٹو کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا واحد ہاتھ تھا جو بلند ہوا۔ اس بار یہ بات اہم ہے کہ برطانیہ نے حمایت یا مخالفت کے بجائے خاموشی اختیار کی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب یہ طے ہے کہ امریکہ ویٹو کی طاقت کا استعمال کرکے قرارداد رَد کر ہی دے گا تو برطانیہ کسی مشکل میں کیوں پڑے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس مسلسل جنگ بندی کی اپیلیں کر رہے ہیں جسے مغرب نظر انداز کرتا رہا ہے۔ انکیو بیٹرز پر نومولود بچے اور وینٹی لیٹرز پر موجود مریض کیسے زندہ رہ پائیں گے جب ایندھن کی فراہمی ختم ہو جائے گی۔ اقوامِ متحدہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ آج ایندھن نہ ملا تو ہسپتالوں کی بجلی بند ہو جائے گی لیکن اسرائیل نے ایندھن کی فراہمی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایندھن حماس سے مانگیں۔ مغرب کی طرف سے اسرائیلی حمایت میں ایک مشکل عرب ہمسایہ ممالک یا عمومی عرب ممالک میں عوامی ردِ عمل ہے۔ ان ملکوں کے سربراہ مغربی ہاتھوں میں کتنے ہی کھلونا کیوں نہ ہوں‘ انہیں اندرونی عوامی اور فوجی ردِ عمل کا بہرحال اندیشہ رہتا ہے۔
اس خطے میں مغربی سربراہوں کے دوروں کا ایک مقصد تو بہرحال اسرائیل‘ موجودہ اسرائیلی حکومت اور عوام کو اپنی مکمل پشت پناہی کا یقین دلانا ہے‘ لیکن ماہرین کے مطابق ایک مقصد انتقامی جذبے سے مغلوب اسرائیل کو کسی ایسے اقدام سے باز رکھنا بھی ہے جو اسے اخلاقی طور پر تنہا کردے یا اس کے امریکی اور مغربی حلیفوں کو دنیا میں مزید بدنام کردے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما تک نے‘ جو امریکی پالیسی کے مطابق اسرائیلی پشت پناہ رہے ہیں‘ کہا ہے کہ غزہ کے مکینوں کے لیے پانی اور خوراک کے راستے بند کرنا اسرائیل کے لیے بیک فائر کر سکتا ہے۔ دوروں کا مقصد غزہ پر چڑھائی اور بعد کی صورتحال اور ان کے نتائج بتانا بھی ہے۔ ان دنوں اسرائیل کے حکومتی اور فوجی سربراہوں کی طرف سے جنونی بیانات روز کی خبروں کا حصہ ہیں۔ زیپی ہوٹولو لے‘ جو برطانیہ میں اسرائیلی سفیر ہے‘ نے حال ہی میں کہا ہے کہ جنگ میں بے گناہ سول آبادی کی ہلاکتیں تو ناگزیر اور جنگ کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اپنے مؤقف کی تائید میں اس نے دوسری عالمی جنگ میں ڈریسڈن پر فضائی بمباری کا حوالہ بھی دیا۔ یہ بیانات ان کے ذہن کی عکاسی کر رہے ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے اسرائیل اور امریکہ کے لیے چہرہ چھپانا مشکل ہو جائے۔ اسرائیل سے واپسی پر جو بائیڈن نے رپورٹرز سے بھی کہاہے کہ امریکی فوجی قیادت نے اسرائیل سے اس معاملے پر بھی بات چیت کی ہے کہ کیا غزہ پر زمینی حملے کے علاوہ بھی کوئی اور راستہ موجود ہے؟ بائیڈن نے کہا ہے کہ میں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ اس کی ساکھ داؤ پر ہو گی۔ ان کے الفاظ میں ''اگر آپ تکلیف برداشت کر سکیں تو یہ بہتر ہے۔ اور اگر نہیں تو آپ ساری دنیا کی اخلاقی حمایت کھو دیں گے‘‘۔ آپ ان الفاظ پر غور کریں تو صاف سمجھ میں آجائے گا کہ معاملہ انسانی جانوں کا نہیں۔ اصول و انصاف کا نہیں‘ نسل کشی کا نہیں‘ دنیا کے ردِ عمل کا ہے۔
امریکہ دنیا کی واحد عالمی طاقت نہیں‘ چاہے انہیں اس بات کا کتنا بھی زعم ہو اور یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسرائیل محض مغربی پشت پناہی پر زندہ ہے۔ یہ پشت پناہی ایک حد تک ساتھ دے گی‘ اس سے زیادہ نہیں۔ خطرہ ہے کہ دنیا کی اور خطے کی بدلتی صورتحال سے روس اور چین فائدہ اٹھائیں گے اور امریکی اثر و رسوخ ہمسایہ ممالک میں کم ہو جائے گا۔ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی حمایت میں جو امریکی مؤقف ہے‘ اس کی حمایت اس نئے قضیے کی وجہ سے تحلیل ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی امریکی تشویش کا باعث ہے کہ عرب ممالک میں غصہ بڑھتا جارہا ہے اور برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ تین مثالیں لے لیجیے اور یہ مثالیں مضبوط عرب حلیفوں کی ہیں۔ اُردن کے سیکرٹری خارجہ ایمان صفادی نے کہا ہے کہ ''الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی بمباری کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے بھی اسرائیلی تاویلیں جھوٹ نکلتی رہی ہیں۔ ہر گھنٹے میں گیارہ فلسطینیوں کا قتل ہو رہا ہے۔ ہر ایک شدید غم و غصے میں ہے‘‘۔ عرب امارات کے سفیر نے بھی اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ سعودی سفیر برائے امریکہ شہزادہ ترکی الفیصل نے واشنگٹن میں کہا ہے کہ ''میں امریکی میڈیا پر مسلسل سن رہا ہوں کہ اسرائیلی اشتعال انگیزی کے بغیر حماس نے یہ کارروائی کی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ 75 سال میں جو کچھ کیا ہے‘ اس کے بعد کون شخص اسے اشتعال انگیزی کے بغیر کارروائی کہہ سکتا ہے‘‘۔ یہ صورتحال اسرائیلی وجود کے لیے بڑا خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ چنانچہ امریکی سفار ت کار مسلسل اسی کوشش میں ہیں کہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ ساتھ باقی ممالک کو بھی ٹھنڈا رکھا جائے اور یہ بڑا چیلنج ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ رات شام کے شہر درعا پر بھی حملے کیے اور آٹھ شامی فوجی شہید کر دیے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ نظر آرہا ہے کہ جنگ کا دائرہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور ابھی اور بڑھے گا۔
کیا اب اقبال کا وہ مصرع صاف سمجھ نہیں آتا جو انہوں نے اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے مغربی دنیا کے دہرے رویوں اور انسان کش پالیسیوں کو دیکھ کر کہا تھا:
چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر