جب سموگ کی وجہ سے گلا سخت خراب ہو‘گلے کی وجہ سے سخت بخار ہو ‘سخت بخار کی وجہ سے تیز اینٹی بائیوٹکس لینی پڑیں اور اینٹی بائیوٹکس جسم کے ساتھ وہی کریں جو وہ کیا کرتی ہیں ‘ تو سب کام چھوڑ کر گھر میں بیٹھ رہنا سرکاری پابندی نہیں ‘جسمانی مجبوری ہوجاتی ہے ۔ لیکن کام کاج کرنے والا شخص جس نے آدھی سے زیادہ عمر روزی روٹی کے ٹھکانے پر گزاری ہو‘ایک دو دن کے لیے بھی گھر بیٹھ جائے تو ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں اور یہ بخار کی اینٹھن سے الگ ہوتی ہے ۔وہ ایسے رہتا ہے جیسے کوئی جرم سرزد ہورہا ہو اور ساری دنیا کام کر رہی ہو اور وہ گھر بیٹھے روٹیاں توڑ رہا ہو۔میرے گزشتہ دن اسی کیفیت میں گزرے ‘بلکہ گزرے کہاں ‘اب تک گزر رہے ہیں ۔ ایسی کیفیات میں غزہ کی تصویریں اور ویڈیوز الگ تکلیف دیتی ہیں اور سیاسی خبریں منہ کا ذائقہ الگ خراب کرتی رہتی ہیں ۔
میں تو ایسے دنوں میں ادب اور تخلیق کے گوشۂ عافیت میں پناہ تلاش کرتا ہوں ۔ یہ گوشۂ عافیت بھی اب سکڑتا جارہا ہے لیکن بھلا ہو ان دوستوں کا جو یہ آسانی فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ ان دنوں میرے تنہائی کے ساتھی چائے اور کافی کے کپ اور چند تازہ ادبی جریدے ہیں ۔ادبی جریدے نرے گھاٹے کے سودے ہیں اور بہت غنیمت ہے کہ ہر چیز کو نفع نقصان کی ترازو پر تولنے والوں کے بیچ ایسے بھی کچھ دیوانے موجود ہیں جو اپنی اور اپنے جیسوں کی سرشاری کے لیے رزق فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ کراچی سے نکلنے والے ادبی پرچے'' کولاژ‘‘ کا ذکر چند دن پہلے '' چار لاکھ الفاظ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں کر چکا ہوں ۔ اسی دوران لاہور سے باقاعدگی سے نکلنے والے ''الحمراـ‘‘ کا تازہ شمارہ بھی پہنچا جس کے مدیر نامور ادیب ‘شاعر اور مدیر مولانا حامد علی خان کے فرزند جناب شاہد علی خان ہیں۔ اپنے والد کی اس یادگار کو شاہد علی خان سال ہا سال سے اس پابندی اور اس خوبی کے ساتھ نکالتے ہیں کہ ہر ماہ کی ایک مقررہ تاریخ پر تازہ شمارہ آپ کی میز پر ہوتا ہے ۔''الحمرا‘‘ پر مفصل گفتگو کسی اور وقت مگر میں ابھی اس رسالے کی ورق گردانی کر ہی رہا تھا کہ کراچی کا ادبی رسالہ ''اجرا‘‘وصول ہوا جسے دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی ۔یہ ہمارے مرحوم دوست جناب احسن سلیم کی یادگار ہے ‘ لیکن ناصر شمسی کی ادارت میں'' اجرا ‘‘نے اپنا ایک الگ انداز بنایا ہے اور ہر رسالہ کسی نامور ادیب اور شاعر کے لیے مخصوص ہوتا ہے ۔ اسے انہوں نے کتابی سلسلے کا نام دیا ہے ۔ تازہ شمارہ جو کتابی سلسلہ 29 ہے ‘ ہمارے محبوب اور باکمال حرف کار جناب اسد محمد خان کے لیے ہے ۔1932 ء میں بھوپال میں جنم لینے والے اسد محمد خان۔انہوں نے جو اپنے لیے کہا ہے کہ '' میں وندھیا چل کی آتما‘‘تو ان کی روح ساری عمر بندھیا چل کی فضاؤں میں سانس لیتی رہی ہے ۔ اسد محمد خان میرے ان پسندیدہ بلکہ محبوب قلم کاروں میں ہیں جن کی تحریریں ڈھونڈ کر پڑھتا رہا ہوں ‘ خواہ وہ کمرشل ڈائجسٹوں میں ہی شائع ہوتی رہی ہوں ۔ویسے تو گیت ‘ نظم ڈرامے اور تراجم میں بھی ان کے نقشِ قدم موجود ہیں لیکن خاص طور پر افسانے میں انہوں نے اردو کی بہترین تحریریں لکھی ہیں۔ ایسی اعلیٰ نثر لکھنے والے اب رہ ہی کتنے گئے ہیں ۔اور کتنے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں جو ملکی اور غیرملکی اعزازات ملے وہ بجا طور پر ان کے حقد ار تھے۔ ویسے تو بڑے اور نامور لوگوں سے ملنے میں ایک جھجک ہمیشہ حائل رہی لیکن میرا شرف ہے کہ میری ان سے ایک دو ملاقاتیں بھی ہیں ۔ سو میں نے انہی صفحات کے ساتھ چند دن گزارے اور نثر اور شاعری کو داد دیتا رہا۔ میں نے نثر اور شعر کے بیچ جن روشن اور جگمگاتے حروف سے اپنے دل کی انگیٹھی روشن کی ‘روز سرد ترہوتے موسم میں انہیں آپ تک بھی بھیجتا ہوں۔
''ایک اور بات یہ کہ میں نے یہ چند سطریں آنے والوں کے لیے نہیں لکھیں ‘یہ آپ کے لیے ہیں کیونکہ مجھے شبہ ہے کہ آپ میں اور مجھ میں ابھی زندگی کی ایک رمق باقی ہے۔کوئی نسل آئندہ میری مخاطب نہیں‘ کیا پتہ وہ کون لوگ ہوں اور کیسے ہوں۔کیا خبر اُن کا مسئلہ صرف معاش‘محض انٹرٹینمنٹ کا حصول ہو ــ‘‘۔''جن کی سنگت میں چھوٹی لڑکیاں بچپن اور لڑکپن کا جادو بھرا زمانہ گزارتی ہیں۔ اور جوانی کی حیران کردینے والی سیما پار کرجاتی ہیں ۔تب یہ طوطے‘گودڑ نکلی گڑیاں ‘پھلیل کی کپیاں‘چٹلے ‘ موباف‘ٹوٹے شیشے ‘لاکھ اور کانچ کے ٹکڑے ‘یہ سارے جادو ٹونے دوسرے ارمانوں بھرے طلسمات میں بدل جاتے ہیں ‘‘۔ ''لکھنے والے کو کرافٹ سے واقفیت ہونا ضروری ہے لیکن اسے مسلک بنانا بیکار ہے ــ‘‘۔''گیت میری پہلی محبت ہے اوریہ عجیب بات ہے کہ پہلی محبتیں زیادہ دیر تک نہیں چلتیں ‘‘۔''میں ظلم پر کڑھتا ہوں لیکن میں اسے اپنی کہانی میں اشتہار کی طرح نہیں لکھتا۔ میں کہانی سناتا ہوں ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کہانی کہانی ہونی چاہئے ۔ پڑھنے ولے کو خود ہی مظلوم سے محبت ہوجائے گی ‘‘۔''اس کتاب کو چھپوانے میں جتنے پیسے خرچ ہوئے‘ اتنے پیسوں میں کشور خان اپنے کئی شوق پورے کرسکتا تھا۔دو مینڈھے خرید سکتا تھا‘سوٹ سلوا سکتا تھا۔ایک اور کمر ے پر ٹین ڈلوا سکتا تھا۔مگر وہ بلند بخت بہت ہے ۔وقت کے سمندر میں اپنے لکھے ہوئے لفظوں سے ٹاپو بنا دینا چاہتا ہے‘چھوٹی موٹی ابدیت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اسے خبر ہے کہ چاہے کتنے ہی چاؤ سے پالا جائے ‘ مینڈھے اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مر جاتے ہیں ۔ سوٹ بھی تار تار ہوجاتے ہیں ‘چھتیں بالآخر بیٹھ جاتی ہیں ‘‘۔
برادرم مبین مرزا نے اسد محمد خان کے ساتھ بیتے روز و شب کو بہت عمدہ طریقے سے یاد کیا ہے ۔ واقعات اور جملے نہ صرف اسد محمد خان کی بلکہ مبین مرزا کے اپنے مزاج کو بھی بتاتے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اس کے اقتباسات کے لیے کالم سے زیادہ کی گنجائش درکار ہے۔ بہتر ہے اسے مکمل پڑھیے ۔اور پھر اسد محمد خان کے گیت ۔ان کی لفظیات بھی الگ اور ان کے موضوعات بھی جدا۔
٭انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند/ کیسی انوکھی بات رے/تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا/من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا /جی کا حال سمجھ نہیں آتا /کیسی انوکھی بات رے /پیاس بجھے کب اک درشن میں /تن سلگے بس ایک لگن میں/ من بولے رکھ لوں نینن میں/ کیسی انوکھی بات رہے/ انوکھا لاڈلا
٭میں وندھیا چل کی آتما/مرے ماتھے چندن چندرما/مری مانگ سانجھ کی دھوپ/میں چتر کار کا انتم چتر/کلا کا اتم روپ
٭موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے/ گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے / بال بکھیرے اتری برکھا/روپ لٹاتا چاند/یا پل بھر کو اٹھی آندھی /تارے پڑ گئے ماند/رات کٹھن یا دن ہو بوجھل ہنستے گاتے چلنا ہے/گھر کی خاطر
اور ذرا دیکھئے ساری عمر لفظ اور حرف کو اپنی اندر کی روشنی منتقل کرنے والے کا نظریۂ فن ہے کیا۔ اسد محمد خان کا یہ نظریۂ فن ہم میں سے کتنوں کا نظریہ ہے؟اسد محمد خان نے تو اسی دھُن میں اپنی عمر صرف کردی لیکن ہم نے کبھی یہ منزل اپنی منزل بنائی ہے؟
''میں نے شعر اور نثر لکھتے ہوئے صرف یہ مقصد سامنے رکھا ہے کہ جو بات مجھ تک پہنچنے کو بے تاب ہے ‘میں اسے آنے دوں۔ اس کا رستہ نہ روکوں ۔اپنی بہترین صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اسے کہہ دوں ۔اس کے بدلے میں ایک مسرت اوور آسودگی ملتی ہے جو نہال کردیتی ہے ۔تا دیر خوش رکھتی ہے ۔یہ اس گیت ‘نظم ‘ کہانی کو اپنی مرضی کا لکھ دینے پر میرے حصے میں آتی ہے ۔ ساتھ ہی مجھے اپنے ساتھیوں اور چند بڑوں کی تحسین بھی سرگرم اور سرشار کرتی ہے ۔ اور یہ اضافی بونس ہوتا ہے ۔ بس ! اس سے زیادہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں کرنی چاہیے ۔ ‘‘