پرانی دلّی کو اس کے اصل نام شاہجہاں آباد کہہ کر پکاریں تو لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں ۔ خیر !یہ جومجھے اتنے دن سے دلّی مسلسل یاد آرہی ہے تو ا سکا سبب کیا ہے ؟کیا دس بارہ سال سے ہندوستان یعنی دلی کا چکر نہ لگنا؟اس شہرِ خوباں کی رونق اور رنگا رنگی ؟ پرانے آثار جنہیں کئی بار دیکھا لیکن پھر دیکھنے کی حسرت لیے پھرتا ہوں ؟وہاں بسنے والے عزیز‘ رشتے دار اور دوست ؟یا دس بارہ سال میں ہونے والی تبدیلیوں کی مسلسل اطلاعات اور انہیں بدلے ہوئے خد وخال کے ساتھ ایک بار پھر دیکھنے کا شوق ؟ کوئی بات تو ہے جو اس شہرِکرشمات کی طرف مسلسل کھینچ رہی ہے ۔اس دس بارہ سال میں کتنی ہی جگہ جانا ہوا لیکن دلّی کا ا ٓب و دانہ مقدر میں نہیں تھا۔مشاعروں ‘ کانفرنسوں ‘کتب میلوں کے دعوت نامے بھی کئی بار ملے لیکن صرف ساڑھے تین سو کلو میٹر دور کی دنیا ایسی دوسری دنیا ہوچکی ہے جہاں جانے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے ۔دلّی کی یاد بہت دل کو ستانے لگے تو میں مٹیا محل ‘ بارہ دری ‘ چتلی قبر ‘بلی ماراں اور چاندنی چوک کی پرانی تصویریں دیکھ کر خوش ہو لیتا ہوں ۔ سنا ہے کہ دلّی بھی اس مدت میں بہت بدل گئی ہے ۔ یقینا بہت بدل گئی ہوگی ۔ زمین ہی نہیں زمانہ بھی۔لیکن انسان کے ساتھ یہ ہے کہ جو کچھ اس نے دیکھا تھا اور جیسا دیکھا تھا‘ اسی کا تصور باندھتا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ نہ وہ علاقہ بدلے نہ وہ نام جن سے خوشبو سی پھوٹتی ہے ۔لیکن ایسا ہوتا کہاں ہے ۔ سب کچھ بدل رہا ہے اور تیزی سے بدل رہا ہے ۔اب اگر کبھی دلّی کا سفر مقدر میں ہے تو پرانی دلی بھی نئی دلی ہی کہی جائے گی کہ سب کچھ نیا اور اجنبی سا ہوگا۔چاہے نیو دہلی کسی اور ہی علاقے کو کہا جاتا رہے۔
کل ایسی ہی ایک تصویر یادوں کے نہاں خانوں سے ابھر کر سامنے آ گئی۔ میں اس تصویر میں کہیں لال قلعے کے اندر جل ترنگ بجاتی نہر ِبہشت کے پاس کھڑا ہوں۔یہ تصویر زنیرہ نے کھینچی تھی ۔ جوبنگلور کی رہنے والی تھی اور اس کی ہنسی نہر بہشت کی طرح جل ترنگ بجاتی تھی ۔ہنس مکھ ‘ جملے باز اور زندگی سے چھلکتی ہوئی زنیرہ ۔وہ اپنے گھرانے کے ساتھ تھی اور میری طرح لال قلعے کی سیاح تھی ۔مجھے ایک پل کو ایسا لگا جیسے میں لال قلعے او دلی کے کوچہ بازار میں ان کے ساتھ بے فکری سے پھر رہا ہوں اور میرے پاس وقت ہی وقت ہے ۔ان لوگوں کے ساتھ دو دن دلی اور لال قلعے میں گزاراوقت خوابناک یاد کی طرح جگمگ کرتا ہے۔
لیکن سب کچھ خوابناک نہیں ہے ۔دلی کے عذاب بھی کم نہیں ہیں۔دیکھنے کا معاملہ یہ ہے کہ پرانے شہروں کودو طرح دیکھنا چاہیے ۔ حال میں اور ماضی میں ۔ماضی میں دیکھنا ہی شاید اصل دلی کو دیکھنا ہوگا۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ دلّی کا حال کچھ ایسا خوش کن نہیں ہے۔ بھنچی سڑکیں۔ تنگ راستے‘ گندگی‘اڑتی مٹی‘راہگیروں کے غول‘گداگروں کے ہجوم‘ ریڑھیوں کے نیچے بیٹھی بلّیاں اور اوپر بیٹھی مکھیاں۔ تھڑوں کے نیچے بہتی بدرویں اور اوپر جمے کھانے کے خوانچے۔ سر پر لٹکتے بجلی اور فون کی تاروں کے الجھیڑے ‘جنہیں گنجل کہیے تب بھی ٹھیک‘ جنگل کہیے تب بھی درست۔آوارہ کتے‘مست خرام لاوارث گائیں‘اور ہر قدم پر سائیکل رکشا۔ سائیکل رکشوں کو کھینچتے اور ہانپتے مزدور۔ہتھ ریڑھیاں اور ان پر لدا سامان۔انہی سب کے درمیان زندگی رواں دواں اور مصروفِ کار۔ایک دھارا جو بیک وقت دو رخوں پر بہتا نظر آتا ہے۔کچھ عناصر کم کردیں تو ہو بہو ہمارے پرانے لاہور کا نقشہ۔ پرانے لاہوری بھی اندرون ِ شہر سے باہر نہیں نکلتے اور بہت سے دلّی والے بھی یہاں سے کہیں اور جانے کو تیار نہیں۔کچھ کی تو مجبوری ہے کہ کاروبار یا ملازمتیں ہی ادھر ہیں لیکن اکثر کو اس رہن سہن ‘ اس تہذیب کا لپکا ہے۔ دراصل ہے یوں کہ انسان جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے رفتہ رفتہ اس کا خوگر ہوتا جاتا ہے۔اور آہستہ آہستہ اس کے منفی پہلو بھی نظر سے غائب ہوتے چلے جاتے ہیں ۔یعنی
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
لیکن بھئی میں اندرون دلّی کے رہن سہن کو رنج سے تعبیر کرنے والا کون ۔نہ اس کی دل کشی اور غیر معمولی کشش سے انکار ہے نہ اس کی منفرد تہذیب اور ثقافت سے‘ نہ بہت سی مجبوریوں سے۔لیکن مسائل تو بہرحال موجود ہیں اور سب سے زیادہ دلّی میں بسنے والوں کے لیے ہیں ۔ہم جیسے بنجارے توآئے اور دو دن کی سیر کرکے چلتے بنے۔ذوق کی طرح رہیں تو بات بنے ۔
کون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
لیکن حضور !دلّی کا اصل منظر تو آپ نے دیکھا ہی نہیں۔وہ دلّی ‘رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔ دلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔اس شہر کو اس کے عروج پر دیکھیں۔تمدن میں کون سا شہراس کے سامنے ٹھہرے گا۔ تہذیب میں کون سی بستی اس کا مقابلہ کرے گی؟یہ شہرجو مٹ مٹ کے بسایا گیا ہے ۔ مر مر کے زندہ کیا گیا ہے۔
میں جامع مسجد کی سرخ سیڑھیاں چڑھتا ہوں اورسب سے اونچی سیڑھی کے بعد مسطح چبوترے پر ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ یہاں سے سارا مٹیا محل بازار میرے سامنے ہے اور اس سے پہلے اردو بازار کو جاتی سڑک بھی۔ ایک لمحے کو آنکھیں موندتا ہوں اور دو صدیوں کا فاصلہ ایک پل میں طے کرلیتا ہوں۔ آنکھیں کھولتا ہوں تو سامنے مٹیا محل کی سڑک کشادہ ہے اور صاف ستھری۔سڑک پر شام کا چھڑکاؤ شروع ہو چکا ہے ۔یہی اترتی سردیوں کا ابر آلود موسم ہے اور شام کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے۔ ایک ایک کرکے چراغ جلنے شروع ہوچکے ہیں۔روئی کے سینہ بند پہنے‘قراقل کی کلاہ اوڑھے لوگ گھروں سے نکل رہے ہیں۔کچھ نے انگرکھے زیب تن کر رکھے ہیں۔کچھ نے اچکنیں ۔کچھ نے کشمیری پشمینے کی گرم چادریں اوڑھ رکھی ہیں۔یہ ایک سنہری ڈولی کہاروں کے کاندھوں پر جارہی ہے ۔ محراب دار ڈولی کو نیلے ریشمی پردوں نے ڈھک رکھا ہے۔پٹکے باندھے ‘تلواریں لگائے‘ طمنچے لٹکائے گھڑ سوار حفاظت کے لیے ساتھ ساتھ ہیں ۔کسی شاہی امیر کے گھرانے کی خاتون معلوم ہوتی ہیں۔کوئی بتاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی نویلی دلہن نواب زینت محل کی بہن کی ڈولی ہے جن کی حویلی اسی مٹیا محل میں ہے۔ دور سے ایک پالکی نمودار ہوتی ہے۔دونوں طرف سے کھلے پردے۔اندر سیاہ میمنے کی کلاہ ِپاپاخ پہنے بادشاہ کے وزیر جلوہ افروز ہیں۔دائیں بائیں پیدل چلتے محافظ اور ہٹو بچو کہتے کہار۔پانچ گھڑ سواروں کا ایک دستہ لال قلعے کی طرف سے آتا دکھائی دے رہا ہے۔سنہری زینیں‘عنابی پٹکے اور زرّیں دستاریں۔ شاید محل کے محافظ کسی کام سے ادھر آئے ہیں۔خوبصورت ہودج اور لال عماری والا ایک ہاتھی جھومتا جھامتا جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے سے گزر رہا ہے ۔ مہاوت نے خوبصورت لباس پہنا ہوا ہے جس سے سورج کی کرنیں اچٹ رہی ہیں۔یہ کسی امیر کی حویلی میں پہنچے گا اور انہیں شام کی سیر کے لیے لے جائے گا۔مسجد کی سیڑھیوں پر ایک رنگ برنگی گدڑی والا فقیر بھی بیٹھا ہوا سب تماشے دیکھ رہا ہے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ زوردار آواز میں ایک مصرع پڑھتا ہے۔ جس میں نہ بھیک ہے نہ بھوک‘ لیکن دنیا کی رنگارنگی کا ذکر بہت پر تاثیر انداز میں ہے ۔ مسجد کی دائیں طرف کے کشادہ راستے پر کچھ شتر سواررنگ برنگی جھولیں ڈالے اپنے اونٹوں کو پانی پلانے میں مصروف ہیں۔ان کی پگڑیاں ان کے راجپوت ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔دو رویہ مکانوں کی بالائی منزلوں میں جھروکے آباد ہوچکے ہیں اور چلمنیں ڈالی جاچکی ہیں۔حویلیوں اور گھروں میں چہل پہل شروع ہوچکی ہے۔حسین لڑکیاں اور بیگمات ‘بازار کی رونق دیکھنے چلمنوں سے آلگی ہیں۔جھلملی چلمنیں ہوا کے جھونکے سے اڑتی ہیں تو لمحہ بھر کے لیے چراغ سے روشن ہوجاتے ہیں۔یہ علاقہ اشرافیہ کا ہے اس لیے مغلئی نقوش اور ایرانی خطوط والے شہابی چہرے یہاں کی پہچان۔ہیں۔یہ گلی کوچے تو اوراق ِمصور ہیں ۔مٹیا محل ہے یا مرقع چغتائی ۔ جو شکل نظر آئی ‘تصویر نظر آئی ۔
کسی نے شاید مجھے آواز دی ہے یا مجھے نہیں کسی اور کو ۔یہ آواز مجھے لمحۂ موجود میں کھینچ لاتی ہے۔میں آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوں اور مٹیا محل میں دو طرفہ بہتے دھارے میں گم ہوجاتا ہوں۔