سچ یہ ہے کہ مسلم لیگ کو جیسا رگڑا شریف خاندان نے لگایا ہے‘ ویسا بانی پی ٹی آئی بھی نہیں لگا سکے۔ شریف خاندان سے پہلے بھی مسلم لیگ کئی شاخوں میں بٹ چکی تھی۔ برا وقت تھا جب صدر ضیا الحق کے دور میں اس خاندان کو گورنر غلام جیلانی کی سفارش پر حکمرانی کیلئے منتخب کیا گیا۔ جس مسلم لیگ کے قائدین قائداعظم جیسے باکردار اور بااصول لوگ تھے‘ وہ بہت سے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی شریف خاندان کے پاس چلی گئی۔ ان سے پہلے مسلم لیگ کے آخری قائد محمد خان جونیجو بہرحال اصول پسند اور عہدے کو ذاتی مفاد سے دور رکھنے والے رہنما تھے۔ تب نواز شریف مسلم لیگ میں نووارد تھے۔ یہ کم و بیش 37سال پہلے کی بات ہے۔ یہ مسلم لیگ کے قائدانہ زوال کا آغاز تھا۔ ظاہر ہے‘ نواز شریف نے مسلم لیگ کی قیادت کسی اصول‘ کسی جماعتی یا ملکی مفاد کے لیے نہیں سنبھالی تھی بلکہ شریف خاندان کے چھوٹوں‘ بڑوں کی پالیسی کے مطابق سنبھالی تھی۔ یہ ملکی یا جماعتی مفاد کی نہیں اقتدار کی پالیسی تھی۔ لاہور کو مرکز بنا دینے کا پہلا اقدام تھا۔
ان کے بارے میں ابتدا میں یہی سوچا گیا تھا کہ یہ مقامی لوگ ہیں۔ یہ باہر سے درآمد شدہ نہیں۔ شکم سیر ہیں۔ کامیاب بزنس مین ہیں۔ خاندان میں روایات اور بڑوں کے احترام کی وضع داری چلی آتی ہے۔ تاثر یہی تھا کہ ان کی شکم سیری‘ روایات اور مٹی سے وابستگی ملک کے لیے فائدہ مند ہو گی۔ سوچا گیا کہ یہ مدبر خاندان ہے۔ یہ تاثر بھی تھا کہ بڑے کاروباری اور معاملہ فہم ہونے کی وجہ سے بھی اس خاندان کا رویہ مفاہمتی اور جمہوری ہوگا۔ یہ تاثر کافی دیر چلا۔ اس زمانے میں نواز شریف صاحب عوام میں مقبول بھی تھے۔ خود میں نے کئی بار انہیں ووٹ دیا۔ 1997ء میں تو انہیں مرکز میں دو تہائی اکثریت اس طرح ملی جس کی مثال نہیں تھی۔ پنجاب میں تو وہ بلا شرکتِ غیرے حکمران تھے ہی۔ یعنی وہ سب کچھ جھولی میں آگرا جس کا کوئی سیاسی خاندان خواب دیکھ سکتا ہے۔
بظاہر چھوٹی سی بات تھی لیکن شریف خاندان کے پاس مسلم لیگ کا اقتدار آنے سے مسلم لیگ کا محور‘ مرکز اور مستقبل ہی بدل گیا۔ خاندان نے پہلے مسلم لیگ کی اور پھر ملک کی سربراہی سنبھالی تو ایک ایک کرکے تمام خوش فہمیوں کے بت ٹوٹنا شروع ہو گئے۔ ہر فیصلے سے یہ ثابت ہونے لگا کہ اب ان دونوں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر کسی اور کا حق نہیں ہے۔ اگر مسلم لیگ برسر اقتدار ہو گی تو ممکن نہیں کہ شریف خاندان کے علاوہ کوئی وزیراعظم بن سکے‘ خواہ کوئی کتنا ہی قابل ہو۔ اگر کوئی مسلم لیگ کا صدر ہو گا تو وہ اس گھرانے کے باہر سے نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں کرسیوں پر بیٹھ کر انہوں نے چن چن کر ایسے لوگوں کو دور کیا یا نچلے عہدوں پر رکھا جو پوری طرح ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے تھے۔ مسلم لیگ‘ مرکزی اور صوبائی حکومت کو اپنے گھرانے کے گرد گھمایا گیا۔ دوسرا تاثر ان کی مفاہمت کا ٹوٹا۔ ہر ایک ایسے عہدے سے لڑائی شروع ہو گئی جو ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتا تھا یا جس کی موجودگی میں ان کی ترقی نہیں ہو سکتی تھی۔ آئینی عہدوں پر براجمان شخصیات‘ سیاسی جماعتوں کے سربراہان‘ اپنی جماعت کے سرکردہ رہنما‘ سبھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ فاروق لغاری‘ وسیم سجاد‘ آصف نواز جنجوعہ‘ جہانگیر کرامت‘ غلام اسحاق خان‘ بے نظیر بھٹو‘ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری چند نام ہیں۔ پرویز مشرف کا نام الگ سے اس لیے لے رہا ہوں کہ وہ ایک الگ ذہنیت کا معاملہ ہے۔ وہ مشق اگرچہ غلط تھی لیکن اس میں بھی جھگڑے اور عدم مفاہمت کی بنیاد نواز شریف ہی کی رکھی ہوئی تھی۔ ان تمام معاملات میں وہ کرسیاں اور توانائیاں‘ جو ملک اور قوم کے کام آنی چاہئیں تھیں‘ لڑائیوں کی نذر ہوتی چلی گئیں۔ شریف خاندان نے صرف مرکز میں بے نظیر حکومت کے دور میں پنجاب کارڈ کھیلنا شروع نہیں کیا بلکہ اس دور کے ہر معاملے میں وفاق کی مخالفت کی گئی‘ جو غلط تھی۔ مسلم لیگ اس لحاظ سے دیگر جماعتوں سے بہتر تھی کہ اس میں بہت سے اچھے لوگ بیک وقت موجود تھے۔ کئی ایک اب بھی ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی ایک حد سے اوپر اُبھرنے نہیں دیا گیا۔ خود مسلم لیگ کے اندر بڑے رہنماؤں کو نظر انداز یا بے توقیر کیا گیا۔ جاوید ہاشمی‘ چودھری نثار علی خان اور اب شاہد خاقان عباسی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ ان سب بے تدبیری کی اعلیٰ ترین مثالوں اور فیصلوں نے طے کردیا کہ تدبیر اور تدبر اِن کے حصے میں نہیں ہے۔ ہر طرف سے اپنے آپ کو محفوظ کرکے چلنا ہی ان کی تدبیر ہے اور مفاد کا حصول ہی اصول ہے۔ اپنی کچن کیبنٹ میں کسی ممکنہ مخالف کو شامل نہ کرنا ہی ان کی آسودگی تھی۔
اس مٹی ہی سے وابستہ رہنے اور شکم سیری کا بھرم بھی بہت پہلے ٹوٹ گیا تھا۔ اندازہ ہو گیا کہ پیٹ کبھی بھر نہیں سکے گا۔ ایک کے بعد دوسری مل‘ نئی فیکٹری‘ نئے کاروبار‘ نئے بین الاقوامی کاروباری شریک۔ ان سب میں کوئی قباحت نہ ہوتی اگر معاملات شفاف ہوتے۔ اس خاندان کے مالی معاملات کبھی شفاف نہیں رہے۔ ہر دور میں مقدمات بنتے رہے‘ کئی ایک ثابت بھی ہوتے رہے یا قریب قریب فیصلہ کن مراحل میں پہنچے۔ لیکن اپنے اقتدار اور اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ کبھی گرفت میں نہ آئے۔ اتنی مال و دولت کے ہوتے ہوئے اگر وہ توشہ خانے کے تحفوں پر نظر نہ رکھتے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ لیکن عام تحفے تو ایک طرف‘ وہ گاڑیاں بھی نکلوا لیں جو قاعدے میں نکل ہی نہیں سکتی تھیں۔ وہ اس حرص میں اکیلے یقینا نہیں تھے‘ یوسف رضا گیلانی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے لیکن شریف خاندان ان کی نسبت بہت زیادہ مال و دولت کا مالک تھا۔ کیا فرق پڑتا اگر وہ یہ تحفے قوم کے حوالے کر دیتے۔ لیکن ھل من مزید کی شدید خواہش یہ کرنے بھی کیسے دیتی۔ یہ بھی طے ہوگیا کہ اس مٹی سے وابستگی ان کی اسی وقت تک ہے جب تک یہ کرسی پر ہیں۔ یہ کرسی پر بیٹھنے کے لیے آتے ہیں۔ بیٹھ جائیں تو غیرملکی دورے ہی ان کی اصل مشغولیت ہوا کرتی ہے۔ نواز شریف کے آخری دور تک یہ منظر بدل نہیں سکا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئی‘ ملک سے باہر جا بیٹھے۔ رہنما کہلائے مگر تکلیف اٹھانے کے لیے نہیں۔ چند روزہ نظر بندیاں اور گرفتاریاں انہیں کیا کہتی تھیں۔ جاوید ہاشمی کی طرح ماریں کھانا اور جیلیں کاٹنا تو ان کی سیاست میں کبھی تھا ہی نہیں۔
مجید امجد کا مصرع ہے ''سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی‘‘۔ 2024ء کا انتخاب ایک ایسا ہی تھپیڑا تھا جس میں (ن) لیگ کی بیشتر نشستیں مشکوک نظر آنے لگی ہیں۔ اب جو یہ جماعت باقی تین صوبوں سے سمٹ کر پنجاب تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ جو اپنے گھر میں اسے سیٹیں ہار جانے کا سامنا ہے تو اس میں تعجب کیا ہے؟ کسی نصب العین‘ کسی نظریے‘ کسی اصول کے بغیر سانسیں لیتی مسلم لیگ (ن) اگر کبھی پیپلز پارٹی‘ کبھی جے یو آئی‘ کبھی لوٹوں کی طرف دیکھتی ہے تو اس میں حیرانی کیا ہے؟ میرے خیال میں اگر کسی بڑی سیاسی جماعت کا اس وقت کوئی نظریہ سرے سے ہے ہی نہیں تو وہ (ن) لیگ ہے۔ مریم نواز‘ حمزہ شہباز ان کے نصب العین اور آدرش ہیں اور بس۔ جب تک مسلم لیگ (ن) اس کا ادراک نہیں کرے گی کہ انہیں شریف خاندان سے الگ نیا خون چاہیے‘ اسے مشکلات کا سامنا رہے گا۔ تو پھر یہ کون سی غلط بات ہے کہ مسلم لیگ کو جیسا رگڑا شریف خاندان نے لگایا ہے‘ ویسا بانی پی ٹی آئی بھی نہیں لگا سکے۔