فضائیہ کو جدید حالت میں رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ترکیہ کے پاس جو ایف سولہ طیارے ہیں‘ وہ کئی عشرے پرانے ہونے کے باعث مستقبل میں دیگر جدید طیاروں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لیے 2030ء تک ان طیاروں کی جگہ نئے طیاروں کو لینی ہے۔ جب یہ ہونا ہے تو ترکیہ نے یہی فیصلہ کیا کہ خریداری سے بہتر ہے کہ نئے طیارے ترکیہ میں تیار کیے جائیں۔ ٹرکش ایئروسپیس انڈسٹریز بنیادی کام مثلاً ڈیزائن وغیرہ کی ذمے دار تھی اور اس کے سامنے یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ دو انجن کا طیارہ ہو یا ایک انجن کا‘ نیز اس کی مختلف اقسام کون کون سی ممکن ہیں۔ 2013ء میں یہ بنیادی کام مکمل کر لیا گیا۔ ٹی اے آئی نے بالآخر ایف ایکس1 ڈیزائن کا انتخاب کیا جو دو انجنوں والا طیارہ تھا۔ انجینئرنگ کا بڑا کام برطانوی کمپنی BAEکو سونپا گیا۔ ترکیہ کے اس ففتھ جنریشن طیارے کیلئے نہایت طاقتور انجن درکار تھے۔ اور اس طرح کا خاص انجن بنانے کی صلاحیت بہت کم ملکوں اور کمپنیوں کے پاس ہے۔ ترکی نے جب قاآن طیارے کی بنیاد رکھی تو ایسے انجنوں کے حصول کیلئے اس کی دو بنیادی شرطیں تھیں۔ ایک یہ کہ انجن ترکیہ میں تیار ہوں گے‘ دوسرے اس کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہو گی۔ طیارہ سازی میں خود انحصاری ہر ملک کا خواب ہوتا ہے‘ ترکی بھی خود انحصاری کی اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ انجنوں کا معاہدہ بہت بڑا تھا اس لیے دنیا کی بہترین کمپنیاں اس میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ مثلاً یورو جیٹ‘ جنرل الیکٹرک‘ رولز رائس وغیرہ۔ جو ایسے انجن بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن یہ دو شرائط کڑی تھیں اس لیے مذاکرات بار بار اور طویل ہوئے۔ بالآخر رولز رائس کمپنی سے معاہدہ ہو گیا لیکن طے ہوا کہ ابتدائی طیاروں میں جنرل الیکٹرک کے انجن استعمال ہوں گے جن سے معاہدے میں کافی پیشرفت ہو چکی تھی۔ مارچ 2023ء میں طیارے کا پروٹو ٹائپ سامنے آیا اور فروری 2024ء میں طیارے کی پہلی آزمائشی پرواز ہوئی۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ترکیہ اپنے طیارے کی بہت سی تفصیلات بتانا نہیں چاہتا اس لیے ماہرین بہت سے معاملات کا محض اندازہ اور قیاس کر سکتے ہیں۔ مثلاً اندازہ ہے کہ طیارے میں ایف 110 اور جی ای 129 کے دو انجن استعمال ہوں گے۔ یہی انجن ایف سولہ کے سی بلاک 50میں استعمال ہوا ہے۔ اسی انجن کی بنیاد پر یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ طیارے کی انتہائی رفتار 1.8سے 2.0 ماخ (Mach) ہوگی۔ ماخ وہ رفتار ہوتی ہے جو آواز کی رفتار سے طیارے کی رفتار کی نسبت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کوئی طیارہ ایک ماخ سے کم رفتار پر پرواز کر رہا ہے تو وہ سب سونک سپیڈ یعنی آواز سے کم رفتار پر ہے۔ ایک ماخ ہو تو آواز کی رفتار جتنی طیارے کی رفتار ہو گی۔ ایک ماخ سے اوپر سپر سانک یعنی آواز سے تیز رفتار ہے۔ دو ماخ کا مطلب ہے آواز کی رفتار سے تقریبا دوگنی رفتار۔ اور اسی بنیاد پر یہ قیاس ہے کہ طیارے کی پرواز کی زیادہ سے زیادہ بلندی 55 ہزار فٹ ہو گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئے طیارے کا بنیادی ڈھانچہ ٹائٹینیم کا ہو گا۔ تھرمو پلاسٹک بھی طیارے میں استعمال ہو گا۔ اس میٹریل کی دو خصوصیات ہیں۔ ایک تو نہایت کم وزن۔ دوسری‘ نہایت کم ریڈار لہروں کا انعکاس یعنی Radar Reflectivity۔ دو چھوٹے میزائل طیارے کے جسم کے ساتھ جبکہ چار میزائل طیارے کی باڈی کے اندر ہوں گے۔ یہ طیارہ ایئر فورس اور نیوی‘ دونوں کیلئے قابلِ استعمال ہو گا۔ طیارے میں میزائل بھی ترکی ساختہ ہیں۔ بہت سی خصوصیات اور بھی ہیں لیکن وہ عام آدمی کیلئے اتنی دلچسپی کی نہیں البتہ فضائی اور دفاعی ماہرین کیلئے اہم ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اس ایک طیارے کی لاگت کیا ہو گی‘ اور کیا یہ خریداروں کی دسترس میں ہو گا؟ طیارے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ لگ بھگ دس کروڑ ڈالرز۔ یعنی پاکستانی تقریباً دو ارب اسی کروڑ روپے۔ اتنا مہنگا طیارہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کیلئے خریدنا ناممکن ہو گا۔ اقتصادی طور پر مستحکم ممالک کیلئے بھی یہ رقم مشکل ہو گی۔ ایسے میں کیا تیاری کے بعد ترکیہ کو اس کے گاہک مل سکیں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ خاص طور پر جب روسی‘ چینی‘ امریکی اور کورین طیارے بھی ملتی جلتی خصوصیات کے موجود ہوں۔
یہاں سے ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی دلچسپی قاآن میں کس حد تک ہو گی۔ اگر پاکستان کا ففتھ جنریشن طیارے حاصل کرنا طے ہو جاتا ہے تو اس کے پاس دو امکان ہوں گے۔ ایک چینی طیارہ ایف سی 31۔ دوسرا ترکی طیارہ قاآن۔ دونوں ہی طیارے ابھی آزمائشی مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن 2028ء تک دونوں دستیاب ہونا تقریباًیقینی ہے۔ تیاری کے مراحل میں چینی طیارہ آگے ہے‘ اس لیے جلد دستیاب ہونے کا امکان ہے۔ وہ ترک طیارے کی نسبت کم مہنگا ہوگا لیکن پھر بھی مہنگا ہے۔ پاکستان کیلئے رقم کے حوالے سے یہ آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ پاکستان کی پہلی ترجیح دونوں طیاروں میں اپنی فنی اور تکنیکی شمولیت رکھنا یا بڑھانا ہوگی۔ ترکیہ نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ قاآن کی طیارہ سازی میں پاکستان کے انجینئرز شامل کیے گئے ہیں اور پاکستان سے معاہدے کے مذاکرات چل رہے ہیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی دفاعی تعلقات ہیں اور طیارہ سازی سے لے کر ٹینک بنانے تک کے ہر معاملے میں اسے چین کا تعاون حاصل ہے۔ چین کو طیارہ سازی میں پہلے سے جو تجربہ حاصل ہے‘ اس کے پیشِ نظر اس کے برتر ہونے کا امکان بھی زیادہ ہے۔ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ عزم کے نام سے پاکستان نے ففتھ جنریشن طیارہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اگر چینی ٹیکنالوجی سے پاکستان یہ کام یا اس کا بڑا حصہ کامرا میں کر سکے اور جے ایف 17 کی طرح یہ طیارہ کم قیمت اور کم لاگت پر بنایا جا سکے تو یہ پاکستان کیلئے سنہرے خواب جیسا ہو گا۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ لیکن پاکستان ترکیہ کے طیارے کو بھی کھونا نہیں چاہے گا جس کی ٹیکنالوجی چینی ٹیکنالوجی سے مختلف ہے اور مغربی ممالک اور امریکی ٹیکنالوجی سے قریب تر۔ یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو دیگر بہت سے مقاصد میں مدد دے سکتی ہے۔
یاد رہے کہ 3 جنوری 2024ء کو پی اے ایف کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر نے اعلان کیا تھا کہ پاک فضائیہ میں چینی جے 31یا ایف سی 31سٹیلتھ طیارہ شامل کیا جائے گا۔ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس سٹیلتھ طیارے کے حصول کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں یہ طیارہ پی اے ایف میں شامل ہو جائے گا۔ اگرچہ اعلامیے میں وقت اور تعداد کا تعین نہیں کیا گیا لیکن یہ پہلا سرکاری اعلان ہے جس کے تحت پاکستان نے نیکسٹ جنریشن فائٹر ایئر کرافٹ کا ارادہ کر رکھا ہے اور عزم پروجیکٹ اسی کی بنیاد ہے۔
ترکیہ کے اس جدید طیارے کے سلسلے میں تین کالموں میں تفصیل بیان کی لیکن یہ موضوع ابھی تشنہ ہے۔ میں نے پہلے کالم میں عرض کیا تھا کہ ایسی ہر کوشش جس میں مسلم ممالک کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہو اور جدید ترین دفاعی ساز و سامان کی تیاری شامل ہو‘ ہر مسلمان کیلئے خوشی کی خبر ہے۔ انحطاط اور زوال کے اس دور میں اور ہر طرح کی زنجیروں سے جکڑ دیے جانے کی عالمی کوشش میں اگر کوئی مسلم ملک یہ ادراک رکھتا ہے کہ اسے دفاع میں بہترین صلاحیت کا حامل ہونا ہے‘ تو یہ بات ہم سب کے دلوں میں ٹھنڈک ڈالتی ہے۔ مسلم ممالک کی اہم جنگی قوتوں میں اب باقی ہیں ہی کتنی جو تہس نہس ہونے سے بچ رہی ہوں۔ پاکستان اور ترکیہ۔ پاکستان اس لیے پہلے آتا ہے کہ وہ جوہری طاقت ہے۔ انہی دونوں ملکوں کو بار بار بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں لیکن کئی کئی سمتوں سے دشمنوں میں گھرے ہوئے یہ ملک اپنی دفاعی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں کامیاب اور ہر شر سے بچائے رکھے‘ آمین!