"SUC" (space) message & send to 7575

ظلم اور فساد سے بھری دنیا

ماسکوکے مغربی نواح میں موسیقی کے ایک مقبول ہال‘ کروکس سٹی ہال پر‘ جہاں چھ ہزار سے زائد حاضرین کی گنجائش ہے‘ جمعہ کی شام مشین گنوں‘ بموں اور دیگر اسلحہ سے حملہ کیا گیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 150 افراد ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کے وقت ہال بھرا ہوا تھا۔ داعش کے ایک زیلی گروہ نے سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ چاروں حملہ آور یوکرین فرار ہوتے ہوئے پکڑ لیے گئے ہیں۔ یوکرین نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور مغربی ممالک سے حملے کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے ممالک نے مذمت بھی کی ہے۔
دنیا بھر میں‘ خاص طور پر مغرب میں داعش کا نام خوف و ہراس کی علامت ہے اور عالمی طور پر اسے دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا ہے لیکن جن عوامل نے اس گروہ کو جنم دیا اور جو طاقتیں ان حالات کو پیدا کرنے کی موجب تھیں‘ ان کی طرف انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔ اس میں کیا شک ہے کہ ناانصافی‘ ظلم اور طاقت سے زبردستی دنیا پر اپنا فیصلہ مسلط کرنا وہ بنیادیں ہیں جن سے ایسے مسلح گروہ پیدا ہوتے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کمزور لوگ مل کر ہتھیار نہ اٹھائیں تو پھر کریں کیا؟ دو دن پہلے ہی امریکی قرارداد سلامتی کونسل میں روس اور چین کی طرف سے ویٹو کی گئی ہے جو حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی قرارداد تھی۔ سوال یہ ہے کہ بڑی طاقتو ں کے اس کھیل کا دنیا کو اب تک کیا فائدہ ہوا ہے؟ کون سا مسئلہ حل ہوا اور ظلم پر مبنی کون سا فیصلہ واپس ہوا؟
اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) یا اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ لیوان (ISIL) ایک ہی دہشت گرد گروہ کے بنیادی نام ہیں۔ لیوان (levant) ایک قدیم نام ہے جو موجودہ اسرائیل‘ لبنان‘ اردن‘ شام‘ اور فرات کے پار کچھ ترک علاقوں پر مشتمل ایک بڑے خطے کے لیے بولا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قدیم شام کے علاقے‘ جو کسی زمانے میں ایک ملک ہوا کرتے تھے۔ داعش کے نام سے اس مسلح گروہ کا نام اس وقت پہلی بار سنا گیا جب امریکی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا۔اس کی ابتدا 2004ء میں ابوعمر البغدادی کی قائم کردہ جیش الطائفہ المنصورہ تنظیم سے ہوئی جو عراقی شورش کے دوران القاعدہ کے ساتھ مل کر لڑتی تھی۔ تاہم واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر جوبی وارک کا کہنا ہے کہ اس گروپ کا بانی ابو مصعب الزرقاوی تھا۔ عالمی سطح پر اس گروہ کا تعارف 2014ء میں ہوا جب اس کے شدت پسندوں نے شام کی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال مغربی عراق اور مشرقی شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ 2015ء کے آخر تک اس نے ایک ایسے علاقے پر حکومت کی جس کی تخمینہ لگ بھگ آبادی سوا کروڑ تھی۔ امریکی‘ عراقی‘ شامی اور کرد فوجوں نے ان سے یہ سارے علاقے واپس لے لیے اور بظاہر اب مشرقِ وسطیٰ میں داعش کا کوئی ٹھکانہ نہیں؛ البتہ افریقہ کا کچھ حصہ ہنوز اس کے زیر کنٹرول ہے۔ کم و بیش 20سال کی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ داعش کو محض مذہبی جنونی قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے کئی بازو اب دنیا کے کئی حصوں میں پھیل چکے ہیں‘ مثلاً بنگلہ دیش میں اس کا زیر زمین نظام بتایا جاتا ہے۔
داعش کے عالمی پھیلاؤ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب امریکی فوجیں افغانستان سے نکلیں۔ ملک میں افراتفری اور طالبان کا مکمل کنٹرول نہ ہونے کے باعث داعش نے افغانستان میں بھی اپنا ایک مسلح بازو قائم کر لیا۔ افغانستان کی اس تنظیم کا نام دولت اسلامیہ ولایت خراسان ہے۔ خراسان بھی قدیم زمانے کے ایک وسیع علاقے کا نام ہے جس کا ذکر اسلامی روایات میں بکثرت آیا ہے۔ خراسان دراصل افغانستان‘ ایران کے کچھ حصوں اور ترکمانستان وغیرہ کے وسیع رقبے پر محیط علاقہ تھا۔ طالبان اور داعش کی مسلسل کشمکش رہتی ہے اور طالبان انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن تاحال ان کی افغانستان میں موجودگی اچھی خاصی تعداد میں ہے۔ امریکی فوجوں کی واپسی تک طالبان اور ان کے بیچ کشمکش زیادہ نہیں تھی لیکن بعد میں داعش نے اپنی توجہ طالبان کی حکومت ختم کرنے پر مرتکز کر دی۔ داعش کی یہی شاخ ازبکستان میں بھی اپنی تنظیم قائم کرنا چاہتی ہے اور دیگر نواحی ممالک میں بھی۔ داعش کی اسی شاخ نے امریکی فوجوں کی واپسی کے دنوں میں کابل میں اگست 2021ء میں خودکش حملہ کیا تھا جس میں 13 امریکی اہلکار اور 169 افغانوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ پاکستان میں بھی 2018ء کے انتخابات میں انتخابی ریلیوں پر حملے اسی نے کیے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ریلی پر خار‘ بلوچستان میں حملہ‘ نیز متعدد دیگر حملے بھی پاکستانی سرزمین پر اس سے منسوب ہیں۔ امسال جنوری میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی یاد میں تہران میں ہونے والے ایک بڑے اجتماع پر دو دھماکوں کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس تفصیل سے کچھ باتوں کا اندازہ بہرحال ہو گیا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ اب یہ گروہ کسی ایک ملک میں نہیں‘ عالمی سطح پر فعال ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی کارروائیوں کا زیادہ تر نشانہ مسلم ممالک ہیں اور بیشتر صورتوں میں اس کی کارروائیوں میں عام مسلمان‘ مرد عورتیں اور بچے شہید ہوئے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس کی تنظیمیں مسلم ممالک یا مسلم اکثریتی علاقوں ہی میں قائم ہوتی ہیں۔ کبھی نہیں سنا گیا کہ اس کی کوئی شاخ اسرائیل‘ امریکہ یا غیرمسلم ملکوں میں قائم ہوئی ہو۔ اسرائیل میں اس کی کوئی بھی‘ کسی بھی قسم کی کارروائی کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اس وقت غزہ میں نہتے‘ مظلوم مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے‘ وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ غیرمسلم بھی اس پر آنسو بہا رہے ہیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال داعش کے علم میں نہیں؟ وہ گروہ جو اپنی بنیاد ہی ان علاقوں کو بتاتا ہے جن پر اسرائیل قائم ہے‘ اس معاملے سے اتنا بے نیاز کیوں ہے؟ اس وقت نیتن یاہو کی حکومت سیاسی طور پر بہت کمزور ہے۔ کیا یہ وقت نہیں تھا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کے ساتھ مل کر کارروائیاں کی جاتیں اور اسے اندر سے کمزور کیا جاتا؟ داعش کے پاس پیسوں کی بھی کمی نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا سالانہ بجٹ ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ یہ پیسے اسے کہاں سے ملتے ہیں؟ 2019ء میں موصل پر حملے کے دوران داعش کی جدید ترین بکتربند گاڑیاں اور اسلحہ سب نے دیکھا تھا۔ یہ اسلحہ جو خاصے طاقتور ممالک بھی حاصل نہیں کر پاتے‘ اسے کہاں سے ملا؟ یہ کیسے ممکن ہو رہا ہے کہ اس کی شاخیں مسلم ملکوں میں پھیلتی جا رہی ہیں اور اسے ٹھکانے بھی میسر آ رہے ہیں؟ یہ معمولی نہیں‘ بڑے سوالات ہیں اور ان کا ٹھیک جواب کسی کے علم میں بھی نہیں۔
اب ماسکو کے کنسرٹ ہال پر حملے کی ذمہ داری گروہ ولایت خراسان نے قبول کی ہے۔ روس سے ان کی کیا پرخاش ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ شام میں چونکہ روس بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے اور داعش بشار الاسد سے لڑ رہی ہے‘ اس لیے داعش دو تین سال سے روس اور صدر پوتن کی پالیسیوں سے سخت ناراض ہے۔ روس نے شام کو وہ میزائل بھی فراہم کیے اور شاید وہ طیارے بھی جو داعش کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اب داعش ماسکو کے کنسرٹ ہال پر حملے کے ذریعے روس کو پالیسی بدلنے کا پیغام دینا چاہتی ہے۔ لیکن وہ بڑا سوال پھر لوٹ کر آتا ہے کہ داعش جیسے مسلح گروہ کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ دنیا کی بڑی طاقتوں نے دنیا کو جس ظلم‘ ناانصافی اور دھونس سے بھر رکھا ہے‘ اس میں ایسے گروہ پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ غزہ اس ظلم کی تازہ ترین مثال ہے۔ جن بچوں نے یہ ظلم خود پر‘ اپنے خاندانوں پر‘ اپنے ماں باپ پر گزرتے دیکھا ہے‘ وہ ہر طرف سے بے بس ہو کر ہتھیار ہی تو اٹھائیں گے۔ اور یہ آگ خود آگ لگانے والوں کے گھروں تک کیوں نہیں پہنچے گی؟ حضور! آگ اپنوں بیگانوں کو پہچانتی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں