بھارت نئے الیکشن سے چند دن دور ہے۔ 19 اپریل 2024ء کو ان انتخابات کا آغاز ہو گا اور یہ سلسلہ چھ ہفتے یعنی یکم جون تک چلے گا۔ چار جون کو نتائج کا اعلان ہو گا۔گویا سات مرحلوں پر یہ مشتمل یہ انتخابات 42 دن تک چلتے رہیں گے۔ ہمارے ہاں ان انتخابات اور اس کے نتائج و عواقب پر گفتگو نہیں کی جا رہی‘ عام آدمی بھی پڑوسی ملک میں ہونے والی اس ہنگامہ خیز سرگرمی اور اس کی تفصیل سے واقف نہیں جس نے آج کل پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ آگہی اس لیے ضروری ہے کہ یہ سب پاکستان کو براہِ راست اور بالواسطہ متاثر کرے گا۔ نیز ہمارے انتخابی نظام کیلئے بھی اس میں بہت دلچسپی کی باتیں موجود ہیں۔
بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب 40 کروڑ ہے۔ جن میں 97کروڑ ووٹرز ہیں۔ یہ انتخابات پانچ سال کی مدت کیلئے منعقد ہونے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ پولنگ سٹیشنز پر یہ پولنگ ہو گی۔ بھارت میں ووٹنگ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ مرکزی قانون ساز ایوان لوک سبھا کہلاتا ہے اور اس کی 543 نشستیں ہیں۔ مختلف صوبوں میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے نشستیں متعین ہیں۔ سب سے زیادہ نشستیں اترپردیش (یو پی) میں ہیں جن کی تعداد 80 ہے۔ مہارشٹرا کی 48 اور مغربی بنگال کی 42 نشستیں ہیں۔ باقی صوبوں (ریاستوں) کی نشستیں ان تینوں سے کم ہیں۔ کسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنے کیلئے 272 نشستوں کے عدد تک پہنچنا ہوتا ہے۔ سات مرحلوں میں انتخابات منعقد کرنے کی وجہ انتظامی دشواریاں ہیں۔ امن و امان اور سکیورٹی کا مسئلہ ان میں سب سے اہم ہے۔ بھارت میں نگران حکومت کی آئینی گنجائش اور روایت نہیں ہے اس لیے حکمران جماعتوں اور عہدیداروں کیلئے یہ آسان ہے کہ وہ اپنی مرضی کا عملہ‘ انتظامیہ اور مقامی عہدیدار متعین کر لیں‘ یا مخالفین کیلئے اپنی انتخابی مہم چلانا ناممکن کر دیں۔ یہ دونوں کام ان دنوں تیزی سے ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو آل انڈیا کانگریس کے بینک اکائونٹس منجمد کر دینا ہے اور دوسری مثال دہلی کے برسر اقتدار وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کی گرفتاری ہے۔ 2014ء سے کیجریوال دہلی میں اقتدار میں ہیں اور بی جے پی کے دل میں یہ کانٹا مسلسل کھٹکتا ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی بہرحال چھوٹی جماعت ہے۔ ویسے تو پورے بھارت کی سطح پر چھ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جو انتخابات میں حصہ لیں گی؛ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی)‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ایم)‘ بہوجان سماج پارٹی (بی ایس پی‘ جو دلت ذات کی نمائندہ پارٹی ہے)‘ نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) اور عام آدمی پارٹی۔ ان میں سے بی ایس پی کے علاوہ تمام جماعتیں کسی نہ کسی انتخابی اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان سب میں ملک گیر سطح پر بی جے پی اور کانگریس ہی دو بڑی جماعتیں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بی جے پی اور راہول گاندھی کانگریس کے سربراہ ہیں۔ مودی تیسری بار وزیراعظم بننے کے امیدوار ہیں جبکہ کانگریس اپنے وزیر اعظم کے امیدوار کا اعلان ابھی تک نہیں کر سکی۔ ان دونوں جماعتوں نے دیگر جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کیے ہیں۔ بی جے پی نے نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کے نام سے 38 جماعتوں کا ایک خیمہ بنایا ہے جس کی سربراہی اس کے اپنے پاس ہے۔ یہ جماعتیں زیادہ تر ہندو مذہبی جماعتیں ہیں؛ تاہم کچھ دیگر جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہیں۔ اس کے مقابل کانگریس کی سربراہی میں 40جماعتیں اکٹھی ہیں جنہوں نے اس اتحاد کا نام INDIA یعنی انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسو الائنس رکھا ہے۔ یہ زیادہ تر درمیانے اور بائیں باز و کے رجحانات کی جماعتیں ہیں۔
اس اتحاد کے باجوود نریندر مودی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ نہایت چالاکی سے مودی نے ہندو مذہبی جذبات کو ابھارا اور بنیادی طور پر ہر وہ کارڈ کھیلا جس سے اسے کامیابی مل سکتی ہے۔ ہندوتوا‘ ہندو ریاست‘ مسلم دشمنی‘ پاکستان دشمنی اور بھارت کو عظیم معاشی طاقت بنانا۔ یہ سب کارڈ اب تک کامیابی سے استعمال کیے ہیں۔ بھارت کا آئینی تشخص سیکولر ہے لیکن مودی کبھی اس تشخص کو خاطر میں نہیں لایا۔ اس پر پوری دنیا میں جو بھی تنقید ہوتی رہی ہو‘ مودی کو انتخابی کامیابیاں اسی سے ملتی رہی ہیں۔ یاد ہو گا کہ 2019ء کے انتخابات میں پلوامہ فالس فلیگ حملے کے بعد بالاکوٹ پر بم داغنے کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ وہ حملہ بھارت اور مودی کو گلے پڑ گیا اور بھارتی ایئر فورس کو سخت سبکی اٹھانی پڑی۔ لیکن بھرپور اور اشتعال انگیز تقریروں‘ پروپیگنڈے اور میڈیا کے ذریعے تاثر یہی دیا گیا کہ مودی نے پاکستان کو بڑا کرارا جواب دیا ہے۔ چنانچہ اس کے انتخابی فوائد حاصل کر لیے گئے۔ اس بار انتخابات سے پہلے بابری مسجد کی جگہ بنائے گئے رام مندر کا افتتاح دھوم دھام سے کیا گیا اور اس کی بہت تشہیر کی گئی۔ یہ بھی ہندوئوں کی انتخابی ہمدردی اور حمایت کی ایک بڑی کوشش ہے جو کامیاب نظر آ رہی ہے۔ یہ مودی کا ہندوئوں سے وعدہ بھی تھا۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑا چرکا تھا لیکن ایک تو مسلمان کبھی بی جے پی کے حامی نہیں رہے اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑا۔ پھر بے جی پی کو پورے ملک کے طول و عرض میں بکھرے مسلمانوں کے منقسم ووٹوں سے کبھی کوئی غرض نہیں رہی۔ اسّی فیصد آبادی ہندو ہے اس لیے وہی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس انتخاب میں بھی مودی کی برتری نظر آتی ہے۔ دسمبر کے ریاستی انتخاب میں چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کو جو کامیابیاں ملی ہیں‘ ان سے موجودہ انتخابات کے رجحان کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس کو صر ف ریاست تلنگانہ میں کامیابی مل سکی تھی۔ 2019ء کے انتخاب میں بی جے پی اتحاد نے 303 نشستوں کی بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔
اس بار انتخابی ایشوز میں ایک بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ بھارت کی تاریخ میں اتنی بیروزگاری کبھی نہیں رہی۔ 2023ء کی ورلڈ بینک رپورٹ کے مطابق 42 فیصد گریجویٹ بیروزگار ہیں۔ مودی مخالف اتحاد اس مسئلے کو مسلسل بیان کر رہا ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اقتدار کی صورت میں تیس لاکھ اسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ مہنگائی دوسرا اہم مسئلہ ہے۔ بھارت میں مہنگائی مسلسل بڑھتی گئی اور یہ معاملہ ایک عام آدمی کا ہے؛ چنانچہ مخالف اتحاد مسلسل اسے بھی توجہ کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ مودی کے نو سالہ دورِ حکومت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم بڑھتا ہی گیا۔ پوری دنیا میں اس کی مذمت بھی ہوتی رہی اور بھارت میں بھی سنجیدہ طبقات مذہبی تفریق کو بھارت کیلئے بڑا خطرہ قرار دیتے رہے؛ تاہم اس میں بھی شک نہیں کہ مودی دور میں بھارت اپنے انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی کے لحاظ سے آگے بڑھا ہے اور کاروباری طبقہ عام طور پر مودی کی پالیسیوں سے خوش ہے۔ اسی طرح میڈیا پر مضبوط کنٹرول‘ عدلیہ سے من مانے فیصلے لینا‘ ہندو اکثریت کو جذباتی نعروں کا قیدی بنا دینا اور اس طر ح مقبولیت میں اضافہ کرنا اس وقت مودی کی وہ طاقتیں ہیں جو اسے اگلے الیکشن میں بھی بڑی اکثریت دلانے کے قریب ہیں۔ مودی کے دو سابقہ ادوار بھارتی مسلمانوں کیساتھ ساتھ پاکستان کیلئے بھی مشکل رہے اور آئندہ کیلئے بھی کوئی اچھی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ ہندوتوا کا نعرہ مودی کا بنیادی نعرہ ہے اور بھارتی مسلمان اس نعرے کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی اپنی سیاسی طاقت کیا ہے؟ وہ جوابی لائحہ عمل کیا بناتے ہیں اور سب سے بڑا سوال یہ ہے اٹھارہ کروڑ مسلمان‘ جنہیں اتنی بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے اقلیت کہنا بھی ایک عجیب بات لگتی ہے‘ اس بار لوک سبھا میں کتنی تعداد میں پہنچیں گے۔ یہ تعداد ہر انتخابات میں کم ہوتی گئی اور 2019ء کے انتخابات میں 543 کے ایوان میں یہ تعداد صرف 22 تھی۔ بڑا سوال یہی ہے کہ اس بار یہ تعداد کیا ہو گی؟ یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔