ادبی شخصیات میں کم ہی ایسے ہوں گے جن کیلئے دل سے محبت پھوٹتی ہو اور جو خود سراپا محبت ہوں۔ بہت کم لوگ کسی شہر کا ادبی چہرہ کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں۔ ہماری بنجارن یعنی سلمیٰ اعوان ایسی ہی گنی چن شخصیات میں سے ہیں۔ بنجارن کا لفظ سلمیٰ اعوان پر جچتا ہے۔ ان کے پاؤں میں چکر ہے جو بنجارن کو قرار نہیں لینے دیتا۔ سالہا سال پہلے کی بات ہے‘ میں ادب کی دنیا میں نووارد تھا۔ محبت بھری اس خاتون سے کسی محفل میں پہلی بار مکالمہ ہوا۔ سادہ‘ بے تصنع‘ دیسی‘ بے غرض اور بے ضرر خاتون جو بناوٹی‘ مفاد پرست‘ پُرفریب اور زہر میں بجھے لوگوں میں علیحدہ نظر آتی تھی۔ بات چیت ہوئی تو لگا میرے لیے اپنائیت سلمیٰ اعوان کے دل سے نکل رہی ہے؛ چنانچہ سیدھی میرے دل میں اُتر گئی‘ اپنائیت اور محبت بھی بڑی بہنوں اور آپاؤں جیسی۔ میں نے سلمیٰ اعوان کو کبھی آپا یا باجی نہیں کہا‘ نہ کہنے کا ارادہ ہے لیکن ان کی محبت کی چاشنی کا دل میں عنوان بہرحال یہی ہے۔ میں جب بھی ملا یا ان سے فون پر بات ہوئی‘ محبت کے اس نیلگوں غلاف نے مجھے ڈھانپ لیا۔
پہلی ملاقات سے بھی پہلے میں رسائل و جرائد میں سلمیٰ کی تحریریں پڑھتا رہتا تھا۔ افسانے‘ ناول‘ کالم‘ سفرنامے اور ادبی مضامین۔ سلمیٰ اعوان کی کوئی ایک جہت نہیں تھی۔ یہ سب اپنی جگہ متاثر کن تھا لیکن ان کے ذوقِ سیر و سفر نے مجھے خاص طور پر بہت متاثر کیا۔ ہمارے معاشرے میں ذاتی‘ سماجی‘ معاشی‘ تدریسی اور انتظامی مسائل متوسط گھرانے کی ایک عورت کو کب یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے سیر و سفر کے شوق کی تکمیل کرسکے‘ یا ناول‘ افسانے اور سفرنامے تحریر کر سکے۔ یہ تمام مسئلے سلمیٰ اعوان کے ساتھ بھی تھے لیکن جب اور جتنا موقع ملا‘ سلمیٰ نکل کھڑی ہوئیں۔ کبھی تنِ تنہا‘ کبھی سہیلیوں کے ہمراہ۔ جہاں بن پڑا‘ سیر کر آئیں۔ جتنا ممکن ہوا‘ اپنی بات قلمبند کر ڈالی۔ مصر‘ روس‘ عراق‘ ترکی‘ سیلون‘ بھارت‘ اٹلی‘ شام اورچترال‘ گلگت‘ ہنزہ‘ سکردو۔ یہ سلمیٰ اعوان کے چند پڑاؤ ہیں جہاں انہوں نے خیمہ لگایا اور اپنے مشاہدات لکھ ڈالے۔ سلمیٰ کی تحریر میں وہی بات ہے جو ان کی شخصیت میں ہے‘ یعنی سادہ‘ بے تصنع‘ رواں اور پُرتاثیر۔ دونوں جہات میں آورد کا نشان بھی نہیں۔
اس سیر و سفر اور مطالعے نے سلمیٰ اعوان کی زندگی کو بہت زرخیز کیا۔ محبت کے رنگ ان کی ذات میں مزید پھیل گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم کیلئے گزارا ہوا وقت اور بنگال کا جادو آج بھی بنجارن کے خون میں گردش کرتا ہے۔ ان کا لکھا ہوا دیکھیں تو تعجب ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ عہدِ حاضر میں کم کم کسی خاتون تخلیق کار نے اتنا لکھا ہو گا۔ ستائیس کتابوں کی مصنفہ نے زندگی کے تاریک اور روشن پہلوؤں کو قریب سے دیکھا‘ برتا‘ چکھا اور پھر کاغذ پر اتار دیا۔ ''بیچ بچولن‘‘، ''رغونہ‘‘ اور ''شیبا‘‘ ا ن کی کتابوں میں وہ چند نام ہیں جو ذہن پر مرتسم رہتے ہیں۔ لیکن ان محض تین ناموں سے ان کی کتابوں کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی تخلیقی جہات کا اور شخصیت کا بھی نہیں۔ ان کی مضطرب اور ہمہ وقت لکھنے پر مہمیز کرنے والی توانائی انہیں اَن دیکھی وادیوں کی سیر کراتی ہے اور ان کی تخلیقی طاقت کئی اصناف کو اور کئی موسموں کو اس طرح باہم گوندھ کر رکھ دیتی ہے کہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ کہاں مضمون ختم ہوا اور خاکہ شروع ہو گیا۔ کہاں افسانے نے سفرنامے کے بستر پر پیر پسار لیے اور کس جگہ عالمی ادب ہمارے دیسی ماحول سے ہم آغوش ہو گیا۔ سلمیٰ اعوان لکھتی ہیں تو صنف کا تعین خود نہیں کرتیں بلکہ ان کی تحریر خود کر لیتی ہے۔ مثلاً ''عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ یوں تو دنیا بھر کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے سوانحی خاکوں‘ ادبی و سیاسی نظریات اور تخلیقات کے تعارف پر مشتمل کتاب ہے لیکن سلمیٰ کے ذوقِ سفر نامہ نگاری نے اسے اپنی پُرلطف تحریر کے ساتھ گوندھ کر اس طرح یک جان کر دیا کہ اس ملک یا شہر کا منظر بھی سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ بات صرف ان ناموروں کی نہیں‘ دمشق کا احمد فاضل اور زکریا محمد کبرت‘ پیٹرز برگ کی ساشا‘ ماسکو کی داشا‘ ڈھاکہ کی حبیب فاطمہ‘ بغداد کا افلاق اور بے شمار گمنام کردار بھی آپ سے ہم کلام ہوتے اور پس منظر میں موجود رہتے ہیں۔ منظر نگاری‘ مشاہدہ اور کیفیت کی ترسیل ہمہ وقت ساتھ ساتھ۔ ذرا دیکھئے: یہ ابو نواس نامی شاعر کا 780 عیسوی کا بغداد ہے اور ہارون الرشید کی سلطنت۔ ''شام کی سنہری کرنوں میں خلیفہ کا محل‘ دجلہ کے پار برامکیوں کے شاندار محل‘ فنِ تعمیر کے وہ نادر نمونے جو بندے کو رک کر دیکھنے پر مجبور کرتے تھے۔ باغ میں دنیا جہان کے درختوں کی نادر قسمیں۔ کیاریوں میں کھلے سینکڑوں اقسام کے پھولوں کی مہکار‘ جھاڑیوں کی قطع برید۔ کہیں سانپوں‘ شیروں‘ چیتوں‘ موروں کی صورت باغبانوں کی فنکاری کے عکاس۔ گھاس کے قطعات میں موتی بکھیرتے حوض‘ جن میں ناچتی مچھلیاں۔ دجلہ کے اوپر مرغابیوں کی ڈاروں کو پر پھڑپھڑاتے ہوئے قطاروں کی صورت اڑتے شام کی زرنگار کرنوں میں دیکھنا۔ واللہ کس قدر دل خوش کن منظر تھا‘‘۔
''میں بک گائیڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے استقبالیہ پر چلی گئی۔ وہاں پر ہر دوسرے دن ایک نئی لڑکی ہوتی۔ آج جو کھڑی تھی وہ پونے چھ فٹی سرو کے بوٹے جیسی قامت والی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن پر جو سر ٹکا تھا اس پر ایک گلاب چہرہ سردیوں کی چاندنی راتوں کی طرح سنجیدہ اور اداس سا جھلملاتا تھا۔ ایک تو مجھے ان روسی لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کم بختیں مسکراہٹ کیلئے اتنی کمینی اور کنجوس کیوں ہیں؟ منحوس ماریاں کلیوں کے اس چٹکائو کو سات تالوں میں قید کیوں رکھتی ہیں؟ بھلا اس پر کوئی زور خرچ ہوتا ہے‘ کوئی پیسہ لگتا ہے؟ کون انہیں سمجھائے کہ باچھوں کو ذرا سا کھول دینے سے ان کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں‘‘۔
روم کے اس گھر اور اس کمرے کا حال جہاں جوان مرگ انگریز شاعر جان کیٹس نے زندگی کے آخری دن گزارے۔ جان کیٹس ''Ode to a Nightingale‘‘ اور ''Ode on a Grecian Urn‘‘ والا کیٹس۔
''کمرہ اس وقت کتنا چمکتا دمکتا ہے۔ کھڑکی کے پردے کھنچے ہوئے ہیں۔ ڈیتھ ماسک سامنے دیوار پر آویزاں ہے۔ ساتھ ہی چھوٹا سا شوکیس سجا ہے۔ ذرا فاصلے پر ایک بڑا شوکیس اور آتش دان ہے۔ تب یہ کمرہ یقینا ایسا شاندار تو نہ تھا۔ عام سی دیواروں‘ چھت اور کھڑکی والا تھا۔ گلاب کی پھول بکتے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا تھا۔ پھول تو آج بھی ہیں۔ یہ ہاتھوں میں ہاتھ دیے جوڑے اس وقت بھی تھے جب نومبر کی سنہری اترتی شاموں میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر سیر کے لیے بورگیز باغ میں جاتا۔ تب نیلے آسمان پر پرندوں کی اڑانیں دیکھتے ہوئے کبھی اس کا دل غم سے بھر جاتا اور کبھی امید اسے خواب دکھانے لگتی‘‘۔
فلسطینی شاعر محمود درویش کی نظموں میں بے وطنی اور دربدری کی عجیب کیفیت ہے:
دو سے آٹھ شہیدوں ؍ اور دس زخمیوں؍ بیس گھروں؍ اور پچاس زیتون کے پیڑوں کا؍ قتلِ عام ہمارا روزانہ کا نقصان ہے
سلمیٰ اعوان گلیوں‘ محلوں‘ مکانوں اور طعام گاہوں سے عام کردار اٹھا لیتی ہیں۔ یہ کردار تاریخی‘ جغرافیائی‘ ادبی اور تہذیبی حوالوں سے بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ سلمیٰ تو بس ان کرداروں سے گفتگو آپ تک پہنچاتی ہیں‘ ان بڑے کرداروں سے باتیں کرتی ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتی اور پڑھنے والے کو دکھاتی ہیں۔ ایک اضطراب‘ ایک بے کلی‘ ایک بے قراری سب میں مشترک ہے۔ اظہار کے پیرائے کتنے مختلف ہوتے ہیں لیکن کتنے یکساں۔ طبیعت آزاد چہکتے پرندوں کی‘ مقدر بنجاروں کا۔ یہی سلمیٰ اعوان ہیں۔ یہی ہماری بنجارن ہیں۔
سلمیٰ! آثار ایوارڈ مبارک ہو۔ شہر کا ادبی چہرہ بننا مبارک ہو۔ آپ ان اعزازات کی حقدار بھی تھیں۔ سو حق بہ حقدار رسید۔ اللہ آپ کو آزاد پرندے کی طرح چہکتا رکھے اور بنجارن کو سیلانی طبیعت اور رزقِ سفر میسر رہے‘ آمین!